بھارت کا فالس فلیگ آپریشن اور الزام تراشیاں

گزشتہ روز مقبوضہ جموں کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے اٹھائیس سیاح ہلاک بارہ زخمی ہوگئے۔بھارتی میڈیا کے مطابق سیاحوں میں سے کئی کا تعلق بھارتی ریاست گجرات اور کرناٹکا سے ہے۔مقبوضہ وادی کے وزیراعلی عمر عبداللہ کا واقعے پر افسوس کا اظہار کیا ہے جبکہ سابق وزیراعلی محبوبہ مفتی کی جانب سے فائرنگ کے واقعے کی مذمت کی گئی ۔مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلی عمر عبداللہ کی جانب سے کہا گیا کہ فائرنگ کا واقعہ کئی برسوں بعد ہونے والا بڑا حملہ ہے۔ یہ واقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا ہے جب نائب امریکی صدر جی ڈی وانس بھارت میں موجود ہیں، امریکی نائب صدر نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے متاثرین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ واقعے کے بعد بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ بھی سری نگر پہنچ گئے ہیں جہاں انہوں نے مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلی عمر عبداللہ سے ملاقات کی۔بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے پہلگام میں سیاحوں کی ہلاکت کے بعد سندھ طاس معاہدہ فوری طور پر معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بھارتی حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ اس حملے کا واضح اور بھرپور جواب دیا جائے گا۔ پہلگام میں موسم گرما کے دوران ہزاروں سیاح وادی کی خوبصورتی دیکھنے کے لیے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔دوسری جانب، بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھارت میں موجود تمام پاکستانیوں کو 48گھنٹے میں ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔بھارت نے واہگہ بارڈر بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے تمام پاکستانیوں کے بھارتی ویزے منسوخ کردیے۔دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ احمد سعید منہاس نے بھارتی میڈیا کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کا فاشسٹ میڈیا بغیر ثبوتوں کے پاکستان پر الزام دھر رہا ہے، پہلگام حملہ مقبوضہ کشمیر کے 400 کلومیٹر اندر ہوا ہے۔اگر پاکستان پر کسی قسم کے حملے کی کوشش ہوئی تو 2019 میں ابھی نندن کو چائے پلا کر بھیجا تھا، اب بسکٹ بھی کھلائیں گے۔ آرمی چیف نے اوورسیز کنونشن میں واضح کیا تھا کہ پاکستان پر کسی قسم کی آنچ نہیں آنے دی جائیگی۔ پہلگام حملہ بھارت کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی تھی، سوشل میڈیا پر حملے کے فورا بعد پاکستان پر الزام دھرا گیا، بھارتی میڈیا بھی ہرزہ سرائی کررہا ہے۔ بھارت کی طرف سے اگر کوئی حملہ ہوا تو بالاکوٹ کی طرح سبکی اٹھانا پڑیگی۔ بین الاقوامی امور کے ماہر مشاہد حسین سید نے بھارتی حکومت کی جانب سے فوری پاکستان پر الزام لگانے کی روش کی مذمت کی اور کہا کہ یہ بھارتی حکومت کا اسٹینڈرڈ پروسیجر ہے کہ بھارت یا مقبوضہ کشمیر میں کوئی بھی دہشت گردی کا واقعہ ہو تو اس کا الزام ایک آٹومیٹڈ سسٹم کے تحت پاکستان پر لگا دیا جاتا ہے۔ اہم سفارتی دوروں کے موقع پر فالس فلیگ آپریشنز بھارت کا پراناطریقہ ہے، جعفر ایکسپرس حملے کے بعد بھارت نے پاکستان کو تحقیقات کا مشورہ دیا اور اب پہلگام حملے کے بعد بھارت کا رویہ اپنے مشورے کے برعکس ہے۔ماہر قومی سلامتی امور سید محمدعلی نے کہا کہ بھارت کا اس وقت فالس فلیگ آپریشن کرنیکا مقصد نہ صرف اسلام ، پاکستان اور کشمیریوں کو بدنام کرنا ہے بلکہ اپنے داخلی مسائل کی طرف سے توجہ ہٹانا ہے، بھارت اس کے ذریعے ٹیرف کے معاملے پر امریکی دبائو کو بھی کم کرنا چاہتا ہے۔یہ حملہ بھارتی انٹیلی جنس کی ناکامی ہے مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ بھارتی فوجی تعینات ہیں، وہ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟ امت شاہ کیا کررہے تھے؟ انہیں صرف مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنانا آتا ہے، یہ کشمیریوں کو بدنام کرنیکی سازش ہے۔انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ میں ملک کے عوام کو یقین دلاتا ہوں کہ پہلگام کے واقعہ کے سلسے میں انڈین حکومت ہر وہ قدم اٹھائے گی جو ضروری اور حالات کے مطابق ہو گا۔ ہم صرف ان لوگوں تک نہیں پہنچیں گے جنہوں نے اس واردات کو انجام دیا ہے ۔ ہم ان تک بھی پہنچیں گے جنہوں نے پس پردہ ہندوستان کی سرزمین پر ایسی ناپاک سازشیں رچی ہیں۔ انڈیا ایک اتنی پرانی تہذیب اور اتنا بڑا ملک ہے جس کو ایسی کسی بھی دہشتگردانہ کارروائیوں سے کسی بھی صورت میں ڈرایا نہیں جا سکتا ہے۔ ایسی حرکتوں کے ذمے دار لوگوں کو آنے والے کچھ ہی وقت میں زور دار طریقے سے نظر آئے گا یہ میں ملک کے عوام کو یقین دلاتا ہوں۔یہ ایک خاص طریقہ کار بن گیا ہے کہ جب بھی کشمیر میں کوئی حملہ ہوتا ہے تو انڈیا اس کا الزام پاکستان پر عائد کر دیتا ہے اور پاکستان اس کی تردید کرتا ہے۔ یہاں ایک بار پھر پرانا طریقہ ہی نظر آ رہا ہے اور دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات میں مزید سردمہری پیدا ہو رہی ہے۔ یہ حالیہ قابل مذمت حملے انڈیا اور پاکستان کے تعلقات میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کا ایک اپنا سائیکل یا چکر ہے۔ جب کبھی انڈیا میں کوئی دہشتگردی کا حملہ ہوتا ہے تو پھر انڈیا کی طرف سے ایسا ردعمل سامنے آتا ہے جس سے کشیدگی میں اضافہ ہو جاتا ہے، پھر عالمی دبائو کے نتیجے میں صورتحال میں بہتری آ جاتی ہے اور پھر دونوں ممالک کے تعلقات حملے سے پہلے والی جگہ پر واپس آ جاتے ہیں۔ اس وقت اس بات کے امکان نہیں ہیں کہ تعلقات ایسی جگہ تک پہنچ جائیں کہ پھر جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو سکے۔ مگر اس وقت اس بات کے امکانات بھی نہیں ہیں کہ اس سے تعلقات میں کوئی بہتری آئے گی۔ یہ سکرپٹ اسی طرح سے دردناک ہو سکتا ہے اور پھر ایک بار دونوں ملکوں کے تعلقات میں تعطل پیدا ہوجائے۔ اس وقت یہ سائیکل چل رہا ہے اور بظاہر کوئی بہتری کے امکانات بھی نظر نہیں آ رہے ہیں۔ انڈیا کے وفاقی انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں قائم عسکریت پسند گروپ لشکر طیبہ سے تعلق رکھنے والی خفیہ تنظیم دی رزیسٹینس فرنٹ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔اطلاعات کے مطابق یہ گروپ 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سامنے آیا اور مبینہ طور پر ایک سرگرم عسکریت پسند نیٹ ورک میں تبدیل ہونے سے پہلے انڈیا کے خلاف آن لائن پروپیگنڈا کرنے میں مصروف رہا۔انڈین حکومت نے 2023 میں اسے ایک دہشت گرد گروپ قرار دیا تھا اور اس پر نوجوانوں کو بھرتی کرنے، دہشت گردی کے مواد کو آن لائن پھیلانے اور جموں و کشمیر میں ہتھیاروں کی سمگلنگ کا الزام عائد کیا تھا۔اس طرح کے گروہوں جب کمزور پڑنے لگتے ہیں تو وہ اپنے حامیوں کو یہ ظاہر کرنے کے لئے اس طرح کے حملے کرتے ہیں صرف یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ اب بھی نہ صرف قابل ہیں بلکہ مخالفین کو نشانہ بنانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ عالمی رہنمائوں نے بھی اس حملے کی مذمت کی ہے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف انڈیا کی لڑائی میں اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ جبکہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے بھی پہلگام میں حملے کی مذمت کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ دہشت گردوں کو ان کے جرم کی سزا ملے گی۔انڈین چینلوں پر سابق فوجی اور سلامتی کے امور کے ماہرین اس حملے کا الزام پاکستان اور پاکستانی فوج پر دھرتے نظر آئے۔انڈین چینلز کے کئی اینکرز، دفاعی ماہرین اور سوشل میڈیا صارفین اس حملے پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے انڈین حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ پاکستان کو اس کا جواب دیں۔انڈین فوج کے سابق لیفٹیننٹ جنرل اور دفاعی تجزیہ کار سید عطا حسین نے این ڈی ٹی وی پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ اسرائیل پر سات اکتوبر کے حماس حملے کی کاپی ہے۔ یہ حملہ سیکیورٹی فورسز پر نہیں کیا گیا ہے۔ یہ غیر مسلح سیاحوں پر کیا گیا ہے۔ یہ حملہ پورے ملک پر کیا گیا ہے۔ سابق میجر جنرل سنجے میسٹن نے کہا کہ انڈیا کی جانب سے جوابی کارروائی تو ضرور ہو گی۔ لیکن اس بار حکومت کو فوج کو کھلا ہاتھ دینا چاہیے۔ آج پورے ملک پر حملہ ہوا ہے۔پاکستان کواس کی قیمت چکانی ہو گی۔آج تک، زی ٹی وی اور نیوز 18 جیسے چینلز پر پاکستانی فوج کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا ایک حالیہ خطاب بار بار دکھایا گیا جس میں وہ دو قومی نظریے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسلمان ہندوں سے ہر معاملے میں مختلف ہیں۔اسی خطاب کے دوران وہ کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ پاکستان کی شہ رگ تھا اور ہمیشہ رہے گا۔ یہ خطاب جنرل عاصم منیر نے اسلام آباد میں گزشتہ منگل کو اوورسیز پاکستانیوں کے کنونشن کے دوران کیا تھا۔اس موقع پر انہوں نے کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کا موقف بیان کیا تھا اور کہا تھا کہ پاکستان کشمیریوں کے ساتھ اس وقت تک ڈٹ کر کھڑا رہے گا جب تک اسے انڈین کے قبضے سے آزادی نہیں ملتی۔بھارت کی شروع ہی سے یہ حکمت عملی رہی ہے کہ وہ ہر واقعہ کا الزام پاکستان پر لگا دیتا ہے’ یہ بھارت کا فالس فلیگ آپریشن ہے جو ٹیرف سے توجہ ہٹانے اور بنگلہ دیش میں اپنی ناکامی کا داغ مٹانے کے لیے کیا گیا ۔جب بھی بھارت میں کوئی اعلی سطحی وفد یا بڑی شخصیت دورہ کرتی ہے بھارت اس قسم کی حرکت ضرور کرتا ہے۔ گجرات کے قصاب مودی سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں