پ کو واٹس ایپ پر کبھی نہ کبھی کسی ’قریبی دوست‘ یا ’رشتہ دار‘ کی جانب سے اُدھار رقم مانگنے کا پیغام ضرور ملا ہو گا۔
یہ افراد اپنے میسج میں کسی مجبوری یا ایمرجنسی کا تذکرہ کرتے ہیں اور فی الفور رقم کا تقاضہ کرتے ہیں اور ساتھ ہی وہ چینل بھی بتایا جاتا ہے کہ جس کے ذریعے آپ کو انھیں یہ رقم فوری ٹرانسفر کرنا ہوتی ہے۔
مجھے بھی چند روز قبل میری ایک یونیورسٹی فیلو کے نمبر سے واٹس ایپ پر پیغام موصول ہوا۔ حال چال پوچھنے کے بعد اچانک اُس نے مجھ سے 50 ہزار روپے مانگ لیے اور بتایا کہ ایک روز بعد یہ رقم واپس لوٹا دی جائے گی۔
طویل عرصے سے میں اپنی اس یونیورسٹی فیلو سے رابطے نہیں تھا مگر یہ میسج دیکھ کر میں چونک گیا اور سوچا کہ ایک ایسی دوست جو کبھی ہمیں یونیورسٹی کی کینٹین کا بِل بھی ادا نہیں کرنے دیتی تھی اور بڑی گاڑی میں یونیورسٹٰی آتی تھی، اُس پر اتنے بُرے حالات کیسے آ گئے؟ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ہمارے دوستوں کے ایک مشترکہ واٹس ایپ گروپ میں کسی نے اطلاع دی کہ ’عظمیٰ (فرضی نام) کا واٹس ایپ اکاؤنٹ ہیک ہو چکا ہے، اور اس سے رقم کا تقاضہ کیا جا رہا ہے، لہذٰا کوئی اسے رقم نہ بھیجے۔‘پھر دوستوں کے اسی گروپ میں کسی نے ازراہ تفنن لکھا کہ ’میں نے تو عظمیٰ کو پیسے بھیج دیے ہیں۔ اب عظمی کو یہ رقم واپس کرنی ہو گی۔‘
آپ بھی یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میں اتنی لمبی چوڑی تمہید کیوں باندھ رہا ہوں؟ تو خبر یہ ہے کہ ٹٰیکنالوجی کمپنی ’میٹا‘ نے رواں برس کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران ایسے 70 لاکھ واٹس ایپ اکاؤنٹ بند کیے ہیں جن سے متعلق انھیں شبہ تھا کہ وہ فراڈ یا دھوکہ دہی کی کسی سرگرمی میں ملوث ہو سکتے ہیں۔’انجان واٹس ایپ گروپس میں شامل نہ ہوں‘
واٹس ایپ کے خارجہ اُمور کی ڈائریکٹر کلیئر ڈیوی نے منگل کو ایک بلاگ پوسٹ میں بتایا کہ ’ہماری ٹیم نے ان (70 لاکھ) اکاؤنٹس کی نشاند ہی کی اور جرائم پیشہ تنظیموں کی جانب سے اُن کے ممکنہ استعمال سے قبل ہی انھیں غیر فعال کر دیا۔‘
پوسٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ واٹس ایپ پر اکثر ایسے منظم گروہ سرگرم ہو جاتے ہیں جو کرپٹو کرنسی یا کسی اور سکیم میں سرمایہ کاری کا جھانسہ دے کر لوگوں سے پیسے بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں جو صارفین کے لیے واضح طور پر ایک ’ریڈ فلیگ‘ (خطرے کی علامت) ہے۔
پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ زیادہ تر صارفین تو ایسے پیغامات دیکھ کر چوکنا ہو جاتے ہیں، لیکن کوئی نہ کوئی سادہ لوح شخص اُن کے جال میں پھنس ہی جاتا ہے۔29 جنوری 2025
پاکستان میں مبینہ ٹیکس فراڈ پر گرفتاری سمیت ایف بی آر کے وہ نئے اختیارات جن پر کاروباری افراد فکر مند ہیں
20 جولائی 2025
کلیئر ڈیوی کے بقول واٹس ایپ صارفین کو کسی بھی ایسے واٹس ایپ گروپ کا حصہ بننے سے گریز کرنا چاہیے، جس کے ارکان کو وہ نہ جانتے ہوں۔
انھوں نے تجویز دی کہ ’اگر کوئی آپ کو کسی غیر مانوس گروپ میں ایڈ کر رہا ہے یا سرمایہ کاری کے عوض بڑے منافع کا لالچ دے رہا ہے تو سمجھ جائیں کہ یہ دھوکہ دہی کا معاملہ ہو سکتا ہے۔‘
لیکن میٹا نے یہ نہیں بتایا کہ کس ملک کے کتنے صارفین کے اکاؤنٹس بند کیے گئے ہیں۔
تاہم وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر پنجاب سجاد مصطفیٰ باجوہ کہتے ہیں کہ ’ماضی میں واٹس ایپ جن اکاؤنٹس کو بند کرتا رہا ہے، اُن میں پاکستان، انڈیا، میانمار اور تھائی لینڈ جیسے ممالک بھی شامل رہے ہیں۔‘
واٹس ایپ اور دیگر ایپس کے ذریعے فراڈ کی شکایات میں اضافہ
رواں برس جنوری میں بی بی سی نے ایک سرمایہ کاری ایپ پر دھوکہ کھانے والے تیمور رشید کی روداد بھی آپ کو سُنائی تھی۔تیمور نے زیادہ منافع کی خواہش میں ایک ایسے پلیٹ فارم پر 10 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی تھی جہاں وہ شیئرز خرید تو پا رہے تھے اور بظاہر اُن کی قدر میں تیزی سے ہوتا ہوا اضافہ بھی دیکھ پا رہے تھے مگر وہ منافع کے بعد اپنے 50 لاکھ روپے مالیت کے شیئرز فروخت کرنے سے قاصر تھے۔
بعدازاں ایف آئی اے نے اپنی تفتیش کے دوران اس آن لائن فراڈ کے الزام میں دو چینی شہریوں کو بھی گرفتار کیا تھا۔
پاکستان میں ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ واٹس ایپ اکاؤنٹ ہیک ہو جانے کی دھوکہ دہی کے حوالے سے صارفین کو خبردار کرتا رہتا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ آخر سکیمرز واٹس ایپ اکاؤنٹ ہیک کرنے کے لیے کون سے طریقے استعمال کرتے ہیں اور اس سے بچنے کے لیے کن باتوں کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے؟
ہم نے اپنے یہی سوالات گذشتہ برس وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سامنے رکھے تھے جس کے جواب میں ادارے کے ترجمان ایاز خان نے اپنے تحریری جواب میں بتایا تھا کہ سکیمرز (جعلساز) واٹس ایپ اکاؤنٹ ہیک کرنے کے لیے نت نئے حربے استعمال کر رہے ہیں۔
ترجمان کے مطابق دھوکے بازوں نے نقالی کے نت نئے حربے اپنے شکار کا اعتماد حاصل کرنے، ذاتی معلومات افشا کرنے یا تصدیقی کوڈز کو شیئر کرنے کے لیے بنائے ہیں۔
نقالی
’ایسے جعلی واٹس اپ اکاؤنٹس بنانے کی خاطر، جو بالکل اصلی دکھائی دیں، جعلساز متاثرین کے قریبی روابط یعنی خاندان کے افراد اور دوستوں کی چوری شدہ پروفائل تصویروں کا استعمال کرتے ہیں۔‘
گمراہ کن رابطہ
‘پھر یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ وہ جعل سازی کا نشانہ بننے والے افراد کے دوست یا خاندان کے افراد ہیں، ان جعلی اکاؤنٹس کا استعمال متاثرین کو پیغامات بھیجنے کے لیے کیا جاتا ہے۔’
اکاؤنٹ ہیکنگ
پھر دھوکہ باز ذاتی معلومات یا واٹس ایپ کے تصدیقی کوڈز مانگتے ہیں، جو متاثرین کے اکاؤنٹس کو ہیک کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
ایف آئی اے نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ واٹس ایپ ہیکنگ کے واقعات میں حالیہ عرصے کے دوران تیزی آئی ہے۔ لہذا صارفین کو تصدیقی کوڈز (او ٹی پی) شیئر کرنے میں احتیاط برتنے کی تلقین کی گئی ہے۔
پاکستان میں ہیکرز کے جال میں پھنسنے والے سادہ لوح افراد موبائل منی ٹرانسفر ایپس کے ذریعے رقوم بھیجتے ہیں جس کی حد 50 ہزار روپے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہیکرز اپنے شکار سے زیادہ سے زیادہ یہی رقم یعنی 50 ہزار روپے کا تقاضا کرتے ہیں۔رقوم کی منتقلی کی سروس فراہم کرنے والے ایک پلیٹ فارم کے نمائندے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم رقوم کی منتقلی کا پلیٹ فارم فراہم کرتے ہیں۔ لوگ یہ رقوم کسے ٹرانسفر کرتے ہیں، اس سے اُن کا کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے سجاد مصطفیٰ باجوہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں واٹس ایپ پر فنانشل فراڈ کے ساتھ ساتھ ہیومن ٹریفکنگ کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کرائم ایجنسی کا کام جرم وقوع پذیر ہونے سے پہلے اسے روکنے کے لیے ڈیٹرنس قائم کرنا ہے تاکہ جرائم پیشہ عناصر کو یہ پیغام مل سکے کہ اگر اُنھوں نے کسی کے ساتھ فراڈ کیا تو سزا ملے گی۔
سجاد مصطفیٰ باجوہ کے مطابق کہ پاکستان میں آن لائن رقوم کے فراڈ سے زیادہ ہراسانی، توہینِ مذہب یا الزامات کے کیسز کو زیادہ توجہ ملتی ہے۔ ’لہذٰا وٹس ایپ کے ذریعے رقوم منگوانے یا اس نوعیت کے دیگر فنانشل فراڈ کے کیسز کی زیادہ پیروی نہیں کی جاتی۔‘
اُن کے بقول فنانشل فراڈ کے زیادہ تر کیس میں کیونکہ رقوم 50 ہزار یا ایک لاکھ تک ہوتی ہیں تو مدعی سائبر کرائم ڈپارٹمنٹ میں شکایات درج کرانے کو ہی کافی سمجھتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ فنانشل فراڈ کے کیسز میں سخت سزائیں اور اُن کی تشہیر کے ذریعے ہی اس نوعیت کے فراڈ کی