چین میں بےروزگاری سے تنگ نوجوان خود پیسے دے کر دفتر جانے لگے

کوئی بھی بغیر تنخواہ کے کام کرنا نہیں چاہتا اور خود پیسے دے کر دفتر جانے کا شاید کوئی سوچے بھی نہیں لیکن چین میں اس حوالے سے ایک نیا رجحان سامنے آرہا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارےکے مطابق چین میں بے روزگار نوجوانوں میں پیسے دے کر فرضی دفاتر میں بیٹھنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔

بے روزگاری کا شکار نوجوان گھروں میں بیکار بیٹھنے کے بجائے پیسے دے کر ایک فرضی آفس میں جا کر بیٹھتے ہیں جہاں کمپیوٹر، انٹرنیٹ، میٹنگ رومز، اور چائے کے وقفے تک سب کچھ ایک اصلی دفتر جیسا ہوتا ہے۔

ڈونگ گوان شہر کے 30 سالہ شوئی ژو نے بھی اپریل میں یہ ’ملازمت‘ شروع کی جس کے لیے وہ روزانہ 30 یوان (تقریباً 4 ڈالر) ادا کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ 5 دیگر افراد بھی ایسے ہی فرضی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ژو کا کہنا ہے کہ ’یہ بہت خوشی کی بات ہے ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم سب ایک ٹیم کا حصہ ہیں‘۔

یہ کاروبار اب شینزین، شنگھائی، نانجنگ، ووہان، چینگدو اور کنمنگ جیسے بڑے شہروں میں بھی پھیل چکا ہے۔ کچھ لوگ یہاں بیٹھ کر نوکری ڈھونڈتے ہیں اور کچھ اپنے اسٹارٹ اپ آئیڈیاز پر کام کرتے ہیں،یہاں روزانہ کا کرایہ عام طور پر 30 سے 50 یوان ہوتا ہے جس میں کھانا، اسنیکس اور مشروبات بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

ڈونگ گوان کی اس ’پریٹینڈ ٹو ورک کمپنی‘ کے مالک 30 سالہ فییو (فرضی نام) ہیں جو خود بھی ماضی میں بے روزگار رہ چکے ہیں۔ ان کے مطابق ’میں ورک اسٹیشن نہیں بیچ رہا، میں وہ عزت بیچ رہا ہوں جو یہ احساس دلاتی ہے کہ آپ بیکار نہیں ہیں‘۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں آنے والے 40 فیصد افراد حال ہی میں گریجویٹ ہوئے طلبہ ہوتے ہیں جو اپنی تصاویرلے کر اپنے اساتذہ کو اپنی ’انٹرن شپ‘ کا ثبوت دیتے ہیں۔ باقی 60 فیصد میں زیادہ تر فری لانسرز اور ڈیجیٹل نومیڈز شامل ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے گھر والوں کے دباؤ سے بچنے کے لیے بھی یہاں آتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں