وفاق نے گندم قیمت میں70فیصد اضافے کا کہہ دیا ،وزیراعلیٰ

گلگت : وزیراعلیٰ خالد خورشید نے کہا ہے کہ وفاق نے گندم کے نرخوں میں ستر فیصد اضافہ کرنے کےلئے خط لکھا ہے اگر گندم کی بوری کی مارکیٹ قیمت بیس ہزار ہے تو فی بوری چودہ ہزار روپے اضافہ کرنا ہے اس کے بغیر ہمیں گندم نہیں مل رہی ہے، ایک دور میں ایک ارب روپے میں 16 لاکھ بوری گندم ملتی تھی اب سولہ لاکھ بوری گندم کےلئے کےلئے 28ارب روپے درکار ہیں جبکہ سبسڈی کی مد میں آٹھ ارب روپے سالانہ رکھے جاتے ہیں، وفاق میں کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو وہ شاید اس بیس ارب کے فرق کو ختم نہیں کرسکتی اگر ہم مل کر زور لگائیں تو تب بھی وفاق زیادہ سے زیادہ سبسڈی کی رقم آٹھ ارب سے بڑھا کر سولہ ارب کریگا تب بھی پچاس فیصد گندم کم ملے گی، سولہ ارب روپے سے ہمیں نو لاکھ بوری گندم سالانہ ملے گی، سات لاکھ بوری گندم پھر بھی کم ہوگی، اس لئے ہم نے اس مسئلے پر سیاست نہیں کی ہے، اس لئے اس ایوان میں اس مسئلے کو کو پیش کیا ہے تاکہ مشاورت سے اس مسئلے کا حل تلاش کیا جاسکے۔ انہوں نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ آٹھ ارب روپے کی سبسڈی رواں برس فروری میں پوری ہوگئی تھی جس کے بعد گلگت بلتستان میں گندم کا بحران پیدا ہوا اور لوگوں نے دھرنے شروع کئے جس کے بعد ہم نے وفاق میں کوشش کی اور دو مہینے کی سبسڈی اس شرط پر ملی کہ ہم گندم کے نرخوں میں اضافہ کریں، جب ہم نے وفاق سے مئی اور جون کےلئے گندم کا کوٹہ مانگا تو وفاق نے گندم کے نرخوں میں اضافے کے بغیر گندم دینے سے انکار کردیا جس کے بعد ہم نے گلگت بلتستان کے سٹوریج میں موجود گندم جو ہم نے ہنگامی صورتحال کےلئے بچا کے رکھی تھی لوگوں میں تقسیم کردی، اگلے چار پانچ دنوں میں وہ گندم بھی ختم ہوگئی جس کے بعد ہمارے پاس اب کوئی گندم نہیں ہے جبکہ وفاق سے کوئی سبسڈی نہیں مل رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایمرجنسی اتنی تھی کہ ہم نے ہنگامی بنیادوںپر محکمے نے جو مختلف آپشن دیئے تھے اس کے تحت ساڑھے سات روپے فی کلو گندم کے نرخ میں اضافہ کردیا اس پر بھی وفاق نے تحریری طور پر آگاہ کردیا کہ آپ گندم کے نرخوں میں ستر فیصد اضافہ کریں اگر گندم کی ایک بوری کی قیمت بیس ہزار ہے تو ہم نے چودہ ہزار اضافہ کرنا ہے اور اس فرق کو کب اور کتنے عرصے میں اضافہ کرنا ہے وفاق نے باقاعدہ منصوبہ مانگا ہے اور اس ایوان کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ سبسڈی سبسڈی ہے چاہے ایک روپے کی سبسڈی ملے یا ننانوے روپے کی سبسڈی ملے گندم کی قیمت میں اضافہ کر رہے ہیں یا کم کر رہے ہیں سبسڈی ختم نہیں ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم آخر گندم کے نرخوں میں اضافہ کیوں کر رہے ہیں۔ شروع شروع میں دیکھیں تو نوے فیصد قیمت خریدار دے رہا تھا جبکہ دس فیصد حکومت دے رہی تھی یعنی نوے روپے خریدار دے رہا تھا، دس روپے حکومت سبسڈی دے رہی تھی۔ اب وہ سو روپے کی چیز بیس ہزار کی ہوچکی ہے لیکن اگر خریدار یہ ضد کرلے کہ نہیں میں نے نوے روپے ہی دینے ہیں باقی انیس ہزار نو سو دس روپے حکومت دے تو پھر کیا اسی تعداد میں سب کو مل سکتی ہے۔ اللہ تعالی نے ہمیں عقل دی ہے آج ہم سب گندم کے مسئلے پر یہاں جمع ہیں ہر سال گندم کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے ایک دور میں ایک ارب روپے میں سولہ لاکھ بوری گندم ملتی تھی جبکہ اب 2023ءمیں سولہ لاکھ بوری گندم کےلئے اٹھائیس ارب روپے درکار ہیں اور اس اٹھائیس ارب روپے کی گندم میں بھی استعمال کر رہا ہوں اور ایک غریب آدمی بھی یہی گندم استعمال کر رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ گلگت بلتستان کا سالانہ ترقیاتی بجٹ 16 ارب کا ہے جبکہ گندم کی سبسڈی کےلئے 28 ارب روپے درکار ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وفاق نے گندم کے نرخوں میں ستر فیصد اضافے کا جو لیٹر لکھا ہے اس میں وفاق کی بھی مجبوریاں ہیں وفاق سبسڈی میں کتنا اضافہ کریگا اگر ہم مل کر کوشش کریں تو وفاق آٹھ ارب روپے سے بڑھا کر سولہ ارب روپے کریگا تب بھی پچاس فیصد کم گندم ملے گی، سولہ ارب میں ہمیں سالانہ نو لاکھ بوری گندم ملے گی سات لاکھ بوری پھر بھی کم ہوگی، اگر بیس ارب کی سبسڈی ہو تب بھی گندم کا کوٹہ پورا نہیں ملے گا یہ انتہائی گھمبیر مسئلہ ہے، ممبران عقل سے سوچ کر بتائیں کہ کیا وفاق سبسڈ کی مد میں اٹھائیس ارب روپے دے سکتا ہے۔ ہم نے کابینہ میں بھی بات کی ہے کہ ہمیں پندرہ ہزار روپے میں گندم کی ایک بوری مل رہی ہے، ہم لوگوں کو ساڑھے بارہ سو روپے میں فروخت کر رہے ہیں۔ اس سے بہتر ہے کہ لوگوں کو گندم کی بوری مفت ہی دی جائے۔ انہوں نے کہاکہ گندم کی چوری بھی اسلئے ہوتی ہے کہ چوروں یا سمگلروں کو اس میں بہت بڑا فائدہ نظر آتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ بہت اہم مسئلہ ہے، ایوان غور کرے کہ ہم نے وفاق سے کیا بات کرنی ہے آیا ہم ستر فیصد نرخوں میں اضافے پر رضا مند ہوں یا پھر 50 فیصد نرخوں میں اضافے کی تجویز وفاق کو دیں۔ یہ گلگت بلتستان کا مسئلہ ہے اس پر ہم نے سیاست نہیں کرنی ہے اور مل کر اس مسئلے کو حل کرنا ہے۔وزیراعلیٰ خالد خورشید خان ایوان میں گندم کے نرخوں میں اضافے کے خلاف جذباتی تقاریر کرنے والے حکومتی اور اپوزیشن ممبران پر برس پڑے اور انہیں نکل جانے کا کہا، بدھ کے روز جب گندم کے بحران پر ہونے والے اجلاس میں وزیر زراعت کاظم میثم، وزیر پلاننگ فتح اللہ خان، وزیر داخلہ شمس الحق لون، علی اکبر جائی، حاجی رحمت خالق اور غلام شہزاد آغا نے گندم کے نرخوں میں اضافے کے خلاف جذباتی تقاریر کیں جس کے بعد وزیراعلیٰ خالد خورشید ایوان سے خطاب کرتے ہوئے ان ممبران پر برس پڑے اور کہاکہ عوام نے ہمیں یہاں پر جذباتی تقاریر کرنے کےلئے نہیں بھیجا ہے۔ ہمیں عقل استعمال کرکے لوگوں کے مسائل حل کرنے اور قوم کے مستقبل کا تعین کرنے کےلئے یہاں بھیجا ہے۔ گلی کوچوں کی تقاریر کےلئے ہم اسمبلی میں نہیں آئے ہیں سب سے آسانی یہ ہے کوئی ذمہ داری نہ لے۔ آپ لوگ ذمہ داری نہ لو اور اس ایوان سے نکل جاﺅ پھر گلی کوچوں میں تقریریں کرو جب ذمہ داری نہیں لینی ہے تو اس ایوان میں آئے ہی کیوں ہو۔ اس اسمبلی میں بیٹھے کیوں ہو جب کسی مسئلے کو حل نہیں کرسکتے سامنا نہیں کرسکتے تو ادھر سے (ایوان سے) نکل جاﺅ۔ اس ایوان میں بڑی بڑی باتیں کرنے والے ممبران دھرنے میں بیٹھنے کی باتیں کرتے ہیں۔ قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ لوگ کبھی بھی دھرنے میں نہیں بیٹھیں گے۔ زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے دھرنے میں شامل ہونگے اور گھروں کو جائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ 16 لاکھ بوری گندم کےلئے 28 ارب روپے کی ضرورت ہے جبکہ سبسڈی کی رقم آٹھ ارب روپے ہے۔ ممبران ٹھنڈے دماغ اور عقل سے سوچ کر بتائیں کہ کیا وفاق سبسڈی کی مد میں 28 ارب روپے دے سکتا ہے۔ اس سے قبل ایوان سے خطاب کرتے ہوئے وزیر پلاننگ فتح اللہ خان، وزیر داخلہ شمس الحق لون، وزیر زراعت کاظم میثم، علی اکبر رجائی، حاجی رحمت خالق اور غلام شہزاد آغا نے گندم کے نرخوں میں اضافے کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ گندم کے نرخوں میں ایک روپے کا بھی اضافہ نہ کیا جائے۔