ڈالرز کی ذخیرہ اندوزی کے خلاف کریک ڈاﺅن

اےک خبر کے مطابق نگران حکومت نے ڈالرز کی ذخیرہ اندوزی کے خلاف کریک ڈاﺅن کے لیے ملک بھر میں بینک لاکرز کو اسکین کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ رپورٹس میں دعوی کیا گیا کہ حکام، ڈالر کی غیر قانونی ذخیرہ اندوزی کے خلاف ایک غیر معمولی کارروائی کے لیے کمر بستہ ہیں اور وہ ایسے خصوصی اسکینرز لگا رہے ہیں جو لاکرز میں ڈالر کی موجودگی کا پتا لگا سکیں گے۔تاہم اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ایف آئی اے دونوں نے ان دعووں کی تردید کی ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت کی کوششیں ڈالر کے غیرقانونی اخراج کو روکنے پر مرکوز ہیں۔اسٹیٹ بینک کے چیف ترجمان نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھایا اور نہ ہی لاکرز کو باہر سے اسکین کرنا ممکن ہے۔ یہ رپورٹ سرار غلط ہیں جن میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ ڈالروں کی تلاش کے لیے لاکرز کی چھان بین کی جارہی ہے، یہ خبر مکمل طور پر غلط ہے۔پھر ےہ کہا گےاکہ ایف آئی اے نے افغانستان میں ڈالر کی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے اور تمام ہوائی اڈوں پر نگرانی بڑھا دی گئی ہے، تاکہ کیریئرز کو مقررہ حد سے زیادہ غیر ملکی کرنسی بیرون ملک لے جانے سے روکا جا سکے۔خبروں کی واضح طور پر تردید کرتے ہوئے سرفراز ورک نے کہا کہ فی الحال لاکرز اور ایکسچینج کمپنیوں سے وسیع پیمانے پر ڈالرز خریدنے والوں کی فہرست تیار کرنے کے حوالے سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔سرفراز ورک نے مزید کہا کہ ایف آئی اے نے حوالہ ہنڈی کے کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی میں اضافہ کیا ہے اور صوبے بھر میں کچھ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ہے، ہماری پوری کوشش ہوگی کہ ڈالر کی اسمگلنگ کو ہر سطح پر روکا جائے۔افواہوں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک بوستان نے تشویش کا اظہار کیا، انہوں نے کہا کہ اس طرح کی رپورٹس پاکستان کی معیشت پر اعتماد بحال کرنے کی حکومتی کوششوں کو نقصان پہنچائیں گی، حالیہ اقدامات سے روپے کی قدر میں استحکام آیا ہے۔کہا جا رہا ہے کہ روپے کی قدر میں حالیہ اضافہ ملکی معیشت میں اعتماد کی بحالی کی عکاسی کرتا ہے۔چند روز قبل ایک اور جھوٹی خبر بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا پر وائرل رہی جس میں دعوی کیا گیا تھا کہ حکومت نے پانچ ہزار روپے کے کرنسی نوٹوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔کچھ عرصہ قبل سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ملک میں کام کرنے والی ایکسچینج کمپنیوں کو ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی بھی شخص یومیہ دس ہزار امریکی ڈالر سے زیادہ اور سالانہ ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ کی نقد یا ترسیلات زر کی صورت میں خریداری نہ کرے۔مرکزی بینک کی جانب سے ڈالر کی خریداری پر ایک خاص حد سے زیادہ خریداری پر پابندی اس وقت لگائی گئی جب ملک میں ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ ملکی تاریخ کی کم ترین سطح پر ٹریڈ ہو رہا تھا۔ اس وقت انٹر بینک میں ایک ڈالر کی پاکستانی روپے میں قیمت 178 روپے سے تجاوز کر چکی تھی اور اوپن مارکیٹ میں ایک ڈالر 181 پاکستانی روپوں میں فروخت ہو رہا تھا۔ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر کی وجہ سے اس کرنسی کی ذخیرہ اندوزی ہو رہی ہے اور افواہ سازی کی بنیاد پر اس کی قدر میں مزید اضافے کے امکان کی وجہ سے سرمایہ کار اس کی خریداری کر کے اس کی ذخیرہ اندوزی کر رہے تھے جس کی روک تھام سٹیٹ بینک چاہ رہا ہے۔تاہم ماہرین کے مطابق اس اقدام سے ڈالر کی بڑھتی قیمت پر کوئی فوری اثر نہیں پڑے گا جس کے لیے مرکزی بینک کو درآمدات کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے جو ڈالر کی قیمت میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔بینک کے مطابق یہ اقدام ڈالر کی خریداری کو دستاویزی اور اس میں شفافیت بڑھانے اور زرمبادلہ کے نظام کو مزید بہتر بنانے کی غرض سے اٹھایا گیا اور یہ اقدام سٹیٹ بینک کی جانب سے کیے گئے دیگر اقدامات کا تسلسل ہے جس کا مقصد عوام کی حقیقی ضروریات پوری کرنے کے متعلق مارکیٹ کی صلاحیت متاثر کیے بغیر ایکس چینج کمپنیوں کی جانب سے سٹے بازی پر مبنی خریداری اور فروخت کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ہدایات میں مزید زور دیا گیا ہے کہ ایکسچینج کمپنیاں صرف کمپنی کی مجاز آﺅٹ لیٹس پر لین دین انجام دیں گی اور صارفین کو ڈلیوری کی خدمات فراہم نہیں ہوں گی۔سٹیٹ بینک کی جانب سے ڈالر کی ایک مقررہ حد سے زیادہ خریداری پر پابندی کے اقدام کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے بتایا تھا ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر کی وجہ سرمایہ کاروں کے لیے ڈالر میں سرمایہ کاری کے لیے ایک پرکشش ذریعہ بن چکا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ انفرادی طور پر ڈالر کی دھڑا دھڑ خریداری ہو رہی ہے اور اس کی ذخیرہ اندوزی ہو رہی ہے۔یہ بات فطری ہے کہ جہاں اچھا نفع مل رہا ہو وہاں سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور اس وقت ڈالر کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔ تاہم مرکزی بینک کی جانب سے ایکسچینج کمپنیوں پر سٹے بازی کی بات ناقابل فہم ہے کیونکہ کمپنیوں کے پاس اتنی بڑی تعداد میں ڈالر نہیں ہوتے کہ وہاں سے خریداری کر کے امریکی کرنسی کی ذخیرہ اندوزی کی جائے۔ انہوں نے بتایا کمرشل بینکوں کے پاس ڈالر زیادہ ہوتے ہیں۔ ایکسچینج کمپنیاں انفرادی طور پر ڈالر کی خرید و فروخت کرتی ہیں یعنی وہ کسی فرد سے ڈالر خریدتی اور اسے فروخت کرتی ہیں۔ سٹیٹ بینک کے اقدام کا مقصد ایکسچینج کمپنیوں میں ڈالر کی خرید و فروخت کو دستاویزی صورت اور اس میں زیادہ شفافیت لانا ہے۔اس شعبے میں افواہوں پر کام ہوتا ہے جس کی وجہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت ہے کیونکہ سرمایہ کاروں کو ڈالر میں سرمایہ کاری زیادہ پرکشش نظر آتی ہے۔دنیا میں زمین، سونے اور حصص مارکیٹ میں سرمایہ کاری ہوتی ہے تاہم پاکستان میں ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر کی وجہ سے سرمایہ کار اس میں بھی پیسے لگاتے ہیں تاہم پاکستان میں انفرادی طور پر فاریکس مارکیٹ میں سرمایہ کاری نہیں ہو سکتی ہے۔سٹیٹ بینک کی جانب سے ڈالر کی خریداری پر حد مقرر کرنے پر کہا گےا تھا کہ اس اقدام سے ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کا سدباب تو ہوگا تاہم اس سے گرے مارکیٹ کے پھیلاﺅ میں اضافہ ہوگا۔گرے مارکیٹ حوالہ اور ہنڈی کی مارکیٹ ہے کیونکہ جب خریدار ایک حد سے زیادہ ڈالر قانونی چینل سے نہیں خرید پائیں گے تو گرے مارکیٹ کی جانب جائیں گے۔ اس وقت بھی گرے مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں زیادہ ہے۔ اس اقدام سے ڈالر کی افغانستان کو اسمگلنگ کی روک تھام میں بھی مدد ملے گا جہاں ڈالر کی کمی کی وجہ سے پاکستان سے امریکی کرنسی کی خریداری کی جا رہی ہے۔افغانستان میں طالبان کے آنے سے پہلے دس سے پندرہ لاکھ امریکی ڈالر یومیہ جا رہے تھے تاہم پھر اس میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا جب ایک کروڑ سے ڈیڑھ کروڑ ڈالر افغانستان سمگل ہونا شروع ہوگئے تھے۔تاہم سٹیٹ بینک کی جانب سے ڈالر کی خریداری کے لیے بائیو میٹرک کی شرط لاگو ہونے کے بعد ڈالر کی سمگلنگ میں کمی دیکھنے میں آئی۔اےک نکتہ نظر ےہ بھی ہے کہ ملک میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کی بڑی وجہ پاکستان کا بڑھتا ہوا درآمدی بل ہے جو جاری کھاتوں اور توازن میں عدم توازن پیدا کر رہا ہے۔ڈالر کی خریداری پر حد مقرر کرنے سے ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کا سدباب تو ممکن ہے تاہم ڈالر کی قدر بڑھنے کی وجہ مکمل طور پر مختلف ہے ۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی جانب سے بھی پاکستان میں فارن فنڈنگ نہیں ہو رہی جب کہ درآمدات کی وجہ سے ڈالر بہت زیادہ باہر جا رہے ہیں اور یہ صورت حال ڈالر کی قیمت میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ ےہ اطلاع بھی آئی کہ حکومت نے غیر ملکی کرنسی کے ذخیرہ اندوز اداروں اور افراد کے خلاف ایکشن کا فیصلہ کیا تھا جس کے لیے مجوزہ فنانس بل میں اہم قانون سازی کی جائے گی۔ ڈالر یا کسی بھی دوسری کرنسی کی ذخیرہ اندازی کرنے والے کو سزا دینے کے لیے قانون سازی کا فیصلہ کرلیا گیا، غیر ملکی کرنسی کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کو قید، جرمانے کی سزا دی جاسکے گی۔ےہ بھی کہا گےا کہ نئے قانون کا اطلاق غیرملکی کرنسی کی ذخیرہ اندوزی کرنے والے اداروں اور افراد دونوں پر ہوگا، بیرون ملک سے غیرملکی کرنسی لانے کی حد بڑھانے کے لیے قوانین متعارف کرائے جارہے ہیں۔مجوزہ فنانس بل کے مطابق بیرون ملک سے آنے والے افراد ایک سال کے دوران ایک لاکھ ڈالر تک پاکستان لاسکیں گے اور ان سے آمدنی کا ذریعہ نہیں پوچھا جائے گا جب کہ اس وقت پچاس لاکھ روپے یا اس کے برابر کرنسی ذریعہ آمدن ظاہر کیے بغیر پاکستان لائی جاسکتی ہے۔بہر حال ہم سمجھتے ہےں کہ کسی بھی بے قاعدگی کو روکنے کےلئے سخت فےصلے کرنا انتہائی ضروری ہےں ڈالر کے حوالے سے بھی جب تک بلا امتےاز کارروائی کا ڈول نہےں ڈالا جاتا صورتحال میں نماےاں بہتری نہےں آ سکتی۔