نجی شعبہ اور بجلی کے منصوبے

نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے گلگت میں مواصلاتی نظام کی تعمیر نو اور بہتری کے لیے حکمت عملی تشکیل دینے کی ہدایت کی جبکہ نجی شعبے سے مل کر بجلی منصوبے لگانے کے لئے حکمت عملی مرتب کرنے کا بھی فیصلہ کرلیا گیا ہے۔وزیراعظم نے چیف سیکرٹری گلگت بلتستان کو ہدایت کی کہ نشاندہی کردہ تمام مسائل کو جلد از جلد حل کرنے کے لئے تمام وسائل کو بروئے کار لائیں۔گلگت بلتستان پانی کا حب ہونے کے باوجود بجلی لی لوڈ شےڈنگ سے دوچار ہے اےسے میں نجی شعبے کے ساتھ مل کر بجلی منصوبے لگانے کا فےصلہ خوش آئند ہے۔ماضی میں نجی شعبے کو بجلی بنانے کی اجازت حکومت پاکستان دے چکی ہے اور یہ فیصلہ محمد خان جو نیجو کی آخری کا بینہ کا فیصلہ تھا۔ فیصلے کا مقصد یقینا بجلی کی پیدا وار بڑھانا تھا لیکن اس فیصلے کے وہ نتائج برآمد نہیں ہوئے ہیں جو ہونے چاہیے تھے ۔جونیجو حکومت نے یہ فیصلہ تو کر لیا کہ بجلی نجی شعبہ پیدا کرے گا لیکن اس حکومت کو یہ پالیسی مزید آگے لے جانے کا ،یا پھر اس حوالے سے مزید کام کرنے کا موقع نہیں مل سکا ۔اس کے بعد بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی لیکن چونکہ یہ پالیسی پہلے سے بن چکی تھی سرمایہ کاروں کو اشارہ مل چکا تھا اور سرمایہ کار اس شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے آرہے تھے ، طرح طرح کی آفرز آرہی تھےں لیکن حکومت نے جو ان سرمایہ کاروں کے ساتھ ڈیل کی وہ ہو شربا تھی ،ناقابل فہم تھی ،ایسی شرائط پر نجی بجلی گھروں کو بجلی بنانے کی اجازت دی جو آج ہمارے لیے وبال جان بن چکے ہیں ۔حکومت نے نجی بجلی گھر مالکان سے کہا کہ ہم آپ سے ڈالر میں بجلی خریدیں ،تیل کی سپلائی بھی ہمارے ذمہ ہو گی ،اگر حکومت فیول سپلائی میں ناکام رہے اور اس کی ضرورت ہو گی تو آئڈل کےپسٹی بھی خریدی جائے گی ،سمجھ میں نہیں آتا کہ نجی بجلی گھروں کو اس طرح کی سہولیات کس طرح سے دی گئیں ان سے ڈالر میں بجلی خریدنے کے معاہدے کیے گئے جبکہ معلوم تھا کہ صارفین سے بل روپے میں لینے ہیں ،آخر کون بجلی ڈالر میں خریدتا ہے ؟ یہ معاہدہ کس نے کیا اور کیوں کیا اس بارے میں جاننے کی ضرورت ہے ،صارفین سے بجلی کے بل کی وصولی ریاست کی ذمہ داری بن گئی تھی ۔ حکومت ایسی شرائط پر بجلی گھر لگوا رہی تھی کہ اس دور میں نجی شعبے میں اس حوالے سے ایک بھیڑ چال چل پڑی تھی ۔ یہ ایک ہنگامہ خیز دور تھا ،اگر اس اس دور کے تجزے اور تبصرے دےکھے جائیں تو آج کی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں کوئی بہتر راستہ میسر آسکتا ہے ،لیکن ایک بات طے ہے کہ ان معاہدوں سے یقینا ملک کو اور عوام کو شدید نقصان پہنچا اور ملک کی آج کی جو حالت ہے وہ انہی معاہدوں کی مرہون منت ہے ۔اگر ڈالر کی بجائے روپے میں بجلی خریدی جاتی اور اگر تیل کی سپلائی کا کام بھی نجی شعبے کی اپنی ذمہ داری ہوتا تو صورتحال بہت بہتر ہو سکتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا ، اسی طرح آئڈل کیپیسٹی کی بات بھی نہیں ہونی چاہیے تھی ۔ ےہ نہےں کہ نجی شعبے میں بجلی کی پیداوار دینے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا اس سے بجلی کی پیدا وار بڑھی لیکن معاہدے درست نہیں کیے گئے جس کے باعث ملک ڈوبتا چلا جا رہا ہے اور عوام کے صبر کا پیمانہ بھی لیبریز ہو چکا ہے ۔یہ صورتحال یقینا گمبھیر ہے اور اس میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ،آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر نظر ثانی کرنے کی بھی ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور اس کے علاوہ قابل تجدید ذرائع سے بھی بجلی کی پیداوار پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اس سے ہی ملک کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے ۔ایک ہنگامہ برپا کرنا تھا اس لیے یہ کام کیا گیا ،اگر کہا جائے کہ خودنمائی کے لیے ملک کو نقصان ہوا تو یہ غلط نہیں ہو گا ،ہمیں اس حوالے سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ملک اب اس طرح سے نہیں چلایا جاسکتا ہے،ہمارے ملک میں بجلی اتنی مہنگی ہو چکی ہے کہ اب ہماری صنعتیں اس کی پیدا واری لاگت برداشت نہیں کرسکتیں ،جس کے باعث ہماری برآمدات بھی زمین بوس ہو گئی ہیں اور ملک اس طرح سے چلا یا نہیںجاسکتا ہے ،پاکستان کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے ہنگامی اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے ۔ہماری حکومتوں نے کبھی بھی اس نجی بجلی پیدا واری شعبے کے ساتھ اس ان معاہدوں کو کبھی بھی دوربارہ نہیں دیکھا جو حکومتوں کی نا اہلی ہے ،پاکستان ایک ایسے مخمصے میں پھنس کر رہ گیا ہے جس سے نکلنا اتنا آسان نہیں ہے لیکن ملک کو اس صورتحال سے نکالنا ہم سب نے مل کر ہی ہے ۔اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی بھی چارہ نہیں ہے ۔عوام مہنگائی کے شدید بوجھ تلے پس چکے ہیں اور مزید بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں عوام کو ریلیف دینے کے لیے حل نکالنا ہو گا اور آئی ایم ایف کے ساتھ بھی اس حوالے سے دوبارہ سے بات چیت کی جانی چاہیے ۔یہ بحث ہو تی رہی ہے کہ بجلی سستی ہو نی چاہیے لیکن یہ بحث برائے بحث ہی رہی ،کسی نے سنجیدگی کے ساتھ بہتر انداز میں آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کی ۔حکومتوں کو چاہیے تھا کہ اس بحث سے نکلیں اور اس صورتحال سے نکلنے کے لیے کوئی سنجیدہ اقدامات لیے جائیں لیکن ایسا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا ،پاکستان کے اصل مسائل حل کرنے کے لیے کبھی کسی نے کوئی توجہ نہیں دی ۔یہی وجہ ہے کہ ملک آج شدید بحران کا شکار ہے ،پاکستان میں واپڈا کا ادارہ اچھا کام کر رہا تھا اور کسی طرح سے بھی فیل نہیں ہوا تھا لیکن ایسی اپروچ بنائی گئی کہ واپڈا کو بھی فیل کر دیا گیا ۔واپڈا کافی اچھے مینیجرز کے ساتھ بہتر کام کررہا تھا لیکن واپڈا کو بھی واپڈا رہنے نہیں دیا گیا اس سے اس شعبے کو بہت نقصان پہنچا ۔واپڈا کو بہت ساری ذیلی کمپنیوں میں تقسیم کر دیا گیا اور یہ کمپنیاں کوئی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی ہیں ،واپڈا کو کمزور کرکے کلیدی غلطی کی گئی اور سارا نظام درہم برہم کر دیا گیا ۔اس صورتحال میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔بڑے پیمانے پر گھروں میں سولر سسٹم نصب کرنے کی ضرورت ہے ،اس کے لیے عوام کو براہ راست حکومت کی جانب سے یا پھر بینکوں سے قرضے دلوا کر گھروں میں سولر سسٹم نصب کیا جاسکتا ہے ،حکومت کو اس کے لیے سولر انرجی میں سرمایہ کاری کرنا پڑے گی اس کے علاوہ حکومت کے لیے کو ئی چارہ نظر نہیں آرہا ہے ۔مہنگی بجلی وہی افورڈ کرسکتے ہیں جو کہ اچھا کما رہے ہیں بہر حال شمسی توانائی ہی واحد حل ہے جو کہ اس حوالے سے لائی جانی چاہیے ،اس کے ساتھ ساتھ پن بجلی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کوشش کی جانی چاہیے کہ پن بجلی کے زیادہ سے زیادہ منصوبے مکمل کیے جا ئیں ،دریائے سندھ پر چھوٹے لیول کے ہزاروں کی تعداد میں پن بجلی کے منصوبے لگائے جاسکتے ہیں ،اس پر غور کیا جانا چاہیے لیکن بد قسمتی سے یہ اس لیے نہیں کیا جاتا ہے کیونکہ اس کام میں کمیشن کم ملتا ہے ،ضرورت اس بات کی ہے کہ چھوٹے اور بڑے پن بجلی منصبوں کو مکمل کیا جائے،پاکستان کے پاس اس مقصد کے لیے دریائی پانی موجود ہے ۔قبل ازےں پاکستان میں پانی سے بجلی پیدا کرنے کے لیے نجی شعبے کے پہلے باقاعدہ منصوبے کا آغاز ہو چکا ہے۔ دریائے جہلم کے بہا پر بنائے گئے 84 میگا واٹ کے اس پن بجلی منصوبے پر اکیس کروڑ پچاس لاکھ ڈالر لاگت آئی ۔کہا گےا تھا کہ اس منصوبے سے سالانہ ایک سو ملین ڈالر کی لاگت سے درآمد کیے جانے والے ایک لاکھ پینتیس ہزار ٹن تیل کی بچت ہو گی۔ایک نجی کمپنی لاریب انجےنئرنگ کی طرف سے پن بجلی کے اس منصوبے کو ساڑھے تین سال کی مقررہ مدت سے بھی دو ماہ قبل مکمل کیا گیا تھا۔یہ بہت اہم تھا کہ سرکاری اور نجی شعبہ پارٹنر شپ میں یا دونوں اپنے اپنے طور پر اس کام کو آگے بڑھاتے لیکن سرکاری شعبہ شاید اس لیے آگے نہیں آ رہا تھا کہ بد قسمتی سے ہائیڈل پاور منصوبے ہمارے ہاں سیاست کی نظر ہو گئے اور اب ہائیڈل پاور کا نام لینا بھی سیاسی طور پر ایک رسک ہوتا ہے کہ پتا نہیں اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ پاکستان میں پانی سے ایک لاکھ میگا واٹ تک بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے اس کے برعکس اس وقت صرف 6500 میگا واٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔اگر حکومت پن بجلی کے منصوبوں کے ذریعے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کر لے تو بجلی کے مسئلے پر بڑی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔پاکستان میں توانائی کے شعبے میں نجی سرمایہ کاری کا منصوبہ یو ایس ایڈ اورحکومت پاکستان کے درمیان طویل مدت شراکت داری کے تحت جاری رہا۔ یو ایس ایڈ نے 2010 سے حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر نیشنل گرڈ میں کئی ہزار میگاواٹ بجلی شامل کی ۔ سرمایہ کاری کے ان مواقع کا فائدہ براہ راست سنتالےس ملین پاکستانیوں کو پہنچا جبکہ نجی شعبے میں 2.3 ارب ڈالرکی سرمایہ کاری ہوئی۔ یو ایس ایڈ نے نہ صرف نئی ٹرانسمیشن لائنز کی تنصیب کی بلکہ ہوا کے ذریعے نیشنل گرڈ کو بجلی فراہمی اور پیداوار میں اضافے کیلئے سب اسٹیشنز بھی قائم کئے ۔ نہ صرف یہ بلکہ تھرمل اور ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹس کی بحالی میں بھی تعاون کیا ۔ گلگت بلتستان میں نجی شعبے کے تعاون سے بجلی کے منصوبے شروع کرنے سے قبل اس امر کو مدنظر رکھا جائے کہ کےے جانے والے معاہدوں سے عوام کو نقصان نہ اٹھانا پڑے۔ےاد رہے اس حوالے سے صرف پن بجلی کے منصوبوں ہی کو ترجےح دی جائے۔