فلسطین اسرائیل جنگ بندی کی دستخطی مہم

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ دنیا کے 167 ممالک سے پندرہ روز سے بھی کم وقت میں جنگ بندی کے حق میں دس لاکھ سے زائد افراد نے دستخط کردیے ہیں۔فلسطینی ہیومن رائٹس گروپس نے کہا ہے کہ انہوں نے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کی غزہ پر بمباری اور محصور کرنے سمیت جنگی جرائم کی تحقیقات کی جائیں۔ اسرائیل ہیگ میں قائم آئی سی سی کا رکن نہیں ہے اور اس کے دائرہ اختیار کو بھی نہیں مانتا اور عدالت نے انسانی حقوق کے گروپس کے مطالبے کے حوالے سے فوری طور پر کوئی بیان نہیں دیا۔انسانی حقوق کے تین گروپس الحق، المیزان اور فلسطین ہیومن رائٹس کمپین نے کہا ہے کہ انہوں نے آئی سی سی سے غزہ کے گنجان آباد علاقوں میں اسرائیلی حملوں پر توجہ مرکوز کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ یہ کارروائیاں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم سمیت نسل کشی اور نسل کشی کے لیے اکسانے کے زمرے میں آتا ہے۔آئی سی سی نے بیان میں ایک بیان میں کہا کہ اس سے تین گروپس کے مطالبات موصول ہوئے ہیں اور اس کی تفصیل پر جائے بغیر کہا کہ معلومات کا جائزہ لیا جائے گا۔ آئی سی سی مخصوص حالات میں غیررکن ممالک کے شہریوں کی تحقیقات کرسکتا ہے، جس میں وہ حالات بھی شامل ہیں، جس سے رکن ممالک کے اندر جو معاملات جنگی جرائم سمجھے جاتے ہیں۔غزہ میں قائم الشفا ہسپتال کے ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ غزہ سٹی کے ہسپتال پر اسرائیلی فورسز کی کارروائی میں پچاس افراد جاں بحق ہوگئے۔غزہ کے علاقے النصر کے قریب البراق اسکول میں اسرائیل کے میزائل حملے کے بعد پچاس شہدا کی لاشیں ہمارے ہسپتال لائی گئی ہیں۔فلسطینی ہلال احمر نے کہا ہے کہ غزہ میں القدس ہسپتال پر اسرائیلی فورسز کے حملے میں ایک فلسطینی جاں بحق اور 19 زخمی ہوگئے ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ٹرک نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں استعمال کیے گئے بدترین اثرات کے حامل ہتھیاروں کی تفتیش کی جائے کیونکہ اس کی وجہ سے محصور فلسطینی علاقے میں بلاامتیاز تباہی ہوئی۔انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو 23 لاکھ آبادی کے حامل فلسطینی شہری علاقے میں اس طرح کے ہتھیاروں کا استعمال ترک کردینا چاہیے اور یہاں کی نصف آبادی گزشتہ ماہ سے جاری جنگ میں بے گھر ہوچکی ہے۔انڈونیشیا کی علما کونسل نے ایک فتوی جاری کیا ہے جس میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اسرائیل کی حمایت کرنے والی کمپنیوں کے سامان اور سروسز کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔انڈونیشیا کی علما کونسل کی جانب جاری فتوے میں کہا گیا ہے کہ ملک کے مسلمانوں کو اسرائیلی جارحیت کے خلاف فلسطینیوں کی جدوجہد کی حمایت کرنی چاہیے اور اسرائیل یا اس کے حامیوں کی حمایت اسلامی قوانین کے خلاف ہے۔کونسل کے ایک ایگزیکٹیو اسرورون نیام شولح نے صحافیوں کو بتایا کہ انڈونیشیا علما کونسل تمام مسلمانوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اسرائیل یا اس سے وابستہ مصنوعات کا بائیکاٹ کریں جبکہ استعمار اور صہیونیوں کی حمایت کرنے والوں کے ساتھ لین دین سے بھی گریز کریں۔ ہم اس فریق کی حمایت نہیں کر سکتے جو فلسطین کے ساتھ جنگ میں ہے اور نہ ہی ایسی مصنوعات کا استعمال کر سکتے ہیں جس کی آمدنی دراصل فلسطینیوں کے قتل عام کی حمایت کرتی ہے۔غزہ پٹی کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ سات اکتوبر کو شروع ہونے والی اسرائیلی کارروائیوں میں اب تک 5 ہفتوں کے دوران 11 ہزار 78 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔ جاں بحق افراد میں 4 ہزار 506 بچے بھی شامل ہیں اور ان کارروائیوں میں زخمیوں کی تعداد 27 ہزار 490 ہوگئی ہے۔سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے محصور غزہ پٹی میں اسرائیلی خلاف ورزیوں کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ فلسطینیوں کو ان کی اپنی زمین سے بے دخل کرنے کا عمل فوری طور پر روک دینا چاہیے۔سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں منعقدہ سعودی افریقن سربراہی اجلاس کے افتتاح کے دوران محمد بن سلمان نے ان خیالات کا اظہار کیا۔اسرائیل کی جانب سے غزہ پر زمینی کارروائی شروع کیے ہوئے تقریبا دو ہفتے ہوچکے ہیں اور غزہ پر شدید فضائی بمباری شروع کیے ہوئے ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر کیے گئے حملے میں 1400 اسرائیلیوں کی ہلاکت کے بعد سے اسرائیل کی فوجی کارووائی کا مقصد حماس کو عسکری اور سیاسی طور پر تباہ کرنا ہے۔جہاں تک اسرائیل کا سوال ہے تو ان کے مطابق ابھی یہ اس جنگ کے ابتدائی دن ہیں۔ انھوں نے متعدد مرتبہ کہا ہے کہ یہ آپریشن طویل المدتی اور مشکل ہو گا۔ اسرائیلی فوج کے جن اہلکاروں سے بی بی سی نے بات کی ہے انہوں نے اس کا موازنہ ایک باکسنگ میچ سے کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ تو ابھی پندرہ راﺅنڈز میں سے پہلا راﺅنڈ ہے۔اسرائیل میں کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ یہ جنگ کتنی طویل ہو گی۔ کچھ لوگ یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ مغرب کی حمایت یافتہ عراقی فورسز کو 2017 میں عسکریت پسند تنظیم داعش سے موصل شہر واپس اپنے قبضے میں لینے کے لیے نو ماہ لگے تھے۔یہاں اسرائیل کی یہ خواہش ہو سکتی ہے کہ وہ کئی مہینوں تک لڑائی جاری رکھے لیکن وقت فی الحال ان کے ہاتھ میں نہیں ہے کیونکہ لڑائی میں وقفہ اور جنگ بندی کے مطالبے کے حوالے سے بین الاقوامی دبا دن بدن بڑھ رہا ہے۔اسرائیل کے مطابق اب تک انہوں نے چودہ ہزار حملے کیے ہیں جن میں انھوں نے درجنوں اہم اہداف کو نشانہ بنایا ہے جس میں حماس کے کمانڈر شامل ہیں اور ہر حملے میں انہوں نے متعدد قسم کے ہتھیار استعمال کیے ہیں۔یروشلم پوسٹ اخبار کے سابق ایڈیٹر اور عسکری ماہر یاکوف کاٹز کا کہنا ہے کہ اسرائیل پہلے ہی 23 ہزار سے زیادہ بم گرا چکا ہے۔اس کے مقابلے میں جب عسکریت پسند تنظیم داعش کے خلاف موصل میں لڑائی اپنے عروج پر تھی تو ایک ہفتے میں مغربی اتحاد نے 500 بم گرائے تھے۔اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ انھوں نے کامیابی سے شمالی اور جنوبی غزہ کو تقسیم کر لیا ہے اور اس کے فوجیوں نے غزہ شہر کا محاصرہ کر لیا ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ وہ شہر کے مرکز میں پہنچ گئے ہیں لیکن وہ ابھی اس علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے سے بہت دور ہیں۔حماس اسرائیلی فوج کے ان دعوں کی تردید کرتی ہے کہ اسرائیلی فوج کا کوئی بڑی کامیابی ملی ہے۔اسرائیل کی ابتدائی زمینی کارروائی بظاہر منصوبے کے عین مطابق آگے بڑھتی دکھائی دیتی ہے اور یہ امکان ہے کہ حماس کو اس کی کافی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہو گی۔جنگ کی ابتدا میں یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ حماس کے پاس تےس سے چالےس ہزار کے قریب جنگجو تھے۔ایک سینیئر اسرائیلی عسکری ذرائع کہ مطابق ان میں سے دس فیصد یعنی چار ہزار کو شہےدکیا جا چکا ہے۔ تاہم اس قسم کے اندازوں کی تصدیق نہیں کی جا سکتی اور ان کے بارے میں محتاط رہنا ضروری ہے لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کی بمباری نے حماس کی لڑنے کی صلاحیت کو پہلے سے کم کر دیا ہو گا۔اس کے مقابلے میں اسرائیل کو بہت کم نقصان ہوا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ زمینی کارووائی کے شروع ہونے کے بعد سے ان کے 34 فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔اسرائیلی انٹیلیجنس اور سےکیورٹی کے ماہر یوسی کوپرواسر کا کہنا ہے کہ فوج بھاری جانی نقصان سے بچنے کے لیے اپنی زمینی کارروائیاں زیادہ احتیاط سے کر رہی ہے۔ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ حماس کے کتنے اہلکار شمال میں ابھی بھی موجود ہیں کتنے جنگجو سرنگوں میں ہیں اور کتنے عام شہریوں میں مل کر وہاں سے جنوب کی طرف نقل گئے ہیں۔عام سرنگیں اسرائیلی فوج کے لیے ایک بڑی مشکل تصور کی جاتی ہیں اور وہ زیر زمین لڑائی کرنے کے بجائے ملنے والی سرنگوں کو تباہ کر رہے ہیں۔فوجی صلاحیتوں اور انٹیلی جنس کے لحاظ سے اسرائیل کو نمایاں برتری حاصل ہے۔ یہ مواصلات کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور غزہ میں موبائل فون اور انٹرنیٹ کے نیٹ ورک کو بھی بند کر سکتا ہے۔اسے جیٹ طیاروں اور ڈرونز کے ساتھ مکمل فضائی برتری حاصل ہے جو زمین پر ہر حرکت کو مانیٹر کرنے کے قابل ہیں لیکن زمین کی سطح کے نیچے سرنگوں میں ہونے والی آمدورفت کو مانیٹر نہیں کر سکتے۔اسرائیل اب بھی ہر روز 100 سے زیادہ نئے اہداف کی نشاندہی کر رہا ہے ۔اس بات کے کافی امکانات ہیں کہ یہ جنگ جتنی طویل ہو گی یہ فہرست چھوٹی ہوتے چلی جائے گی۔ تاہم یہ جنگ جتنی طویل چکے گی تو اس جنگ میں اسرائیل کو زمینی مزاحمت کچلنے کے لیے پیادہ فوجیوں کا استعمال کرنا پڑے گا۔جسٹن کا خیال ہے کہ اسرائیل بلاک در بلاک لڑائی سے بچنے کی کوشش کرے گا، صرف اس لیے نہیں کہ اس سے بہت زیادہ جانی نقصان ہو سکتا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ایسا کرنے سے یقینی طور پر دو سو سے زیادہ یرغمالیوں کی زندگیاں بھی خطرے میں پڑ جائیں گی۔کیا حماس کو تباہ کرنے کا اسرائیل کا مقصد حاصل ہو بھی سکتا ہے یا نہیں۔ اسرائیل کے سینیئر اہلکار بھی اس بات سے متفق ہیں کہ ایک نظریے کو گولیوں اور بموں سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔حماس کے کچھ رہنما غزہ میں موجود بھی نہیں ہیں۔ یاکوف کاٹز کا کہنا ہے کہ اگر حماس کے چند عناصر بھی جنگ میں بچ گئے تو وہ پھر بھی دعوی کر سکتے ہیں کہ کیونکہ ابھی بھی ہم زندہ ہیں، اس لیے ہم ہی اصل میں فاتح ہیں۔اس وجہ سے جسٹن کرمپ کا ماننا ہے کہ اسرائیل کی جنگ کا مقصد حماس کو تباہ کرنے سے تبدیل ہو کر اسے سزا دینا بن سکتا ہے ۔