بجلی کے نرخوں میں اضافے کا عندیہ

اےک خبر کے مطابق پاکستان کو بجلی کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ کرنا پڑ سکتا ہے اور آئی ایم ایف کی جانب سے گردشی قرضے اور مالیاتی اعداد و شمار پر حکومتی موقف کو تسلیم نہ کیے جانے کے بعد پہلی سہہ ماہی کیلیے 417 ارب روپے کے پرائمری بجٹ سرپلس پر بھی نظرثانی کرنا پڑسکتی ہے۔آئی ایم ایف نے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلیٹیشن کونسل کے کردار، اختیارات اور مینڈیٹ پر بھی سوالات اٹھائے ہیں اور کونسل کے توسیعی کردار اور احتساب سے استشنا پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔علاوہ ازیں، حکومت غیر ملکی زرمبادلہ کی خرید وفروخت سے بینکوں کے حاصل کردہ منافع پر چالےس فیصد ٹیکس عائد کرنے پر غور کر رہی ہے، اس اقدام سے ایف بی آر کو چوالےس ارب روپے کی آمدنی ہوگی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے، پہلی سہہ ماہی کیلیے گردشی قرضوں کی حد اور مالیاتی خسارے پر پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان کوئی ہم آہنگی نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے کیے گئے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کو ناکافی قرار دینے کے بعد ایک بار پھر بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان گردشی قرضے 155 ارب روپے تک رکھنے پر اتفاق کیا گیا تھا، لیکن اس وقت گردشی قرضے 292 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کا 417 ارب روپے کا پرائمری بجٹ سرپلس حاصل کرنے کا دعوی قبول نہیں کیا ہے، اب پرائمری بجٹ کے اعداد وشمار پر نظرثانی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نگران وزیرخزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مالیاتی خسارے کا مسئلہ تقریبا حل ہوچکا ہے اور اس سے نمٹنے کیلئے ہم نے اسٹریٹجی تیار کرلی ہے، ان سے آئی ایم ایف اور پاکستان کے بتائے گئے بجٹ خسارے میں فرق پر موقف جاننے کی کوشش کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے ابھی تک اپنے حتمی اعداد و شمار ہمارے ساتھ شیئر نہیں کیے ہیں۔ رواں مالی سال کیلیے ایف بی آر کے ٹیکس کلیکشن کے ہدف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور یہ 9.415 ٹریلین روپے کی سطح پر برقرار ہے۔ آئی ایم ایف نے ٹیکس وصولیوں میں کمی کی صورت میں ذرعی صنعت پر ٹیکس لگانے کا کہا ہے۔مہنگی بجلی کے لوگ بھی اتنے عادی ہوگئے کہ اب نرخوں میں اضافے کے ساتھ صارفین کوئی ردعمل نہیں دکھاتے۔سہہ ماہی ایڈ جسمنٹ کے طور پر اتحادی حکومت کے دور میں سہہ ماہی بنیادوں پر بجلی کی قیمتوں میں فی یونٹ 16روپے 34 پیسے اضافہ کیا گیا، سہہ ماہی بنیادوں پر اضافہ کے باعث صارفین پر 5سو ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا گیا، اتحادی حکومت نے بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 13 روپے فی یونٹ اضافہ کیا، دوسری جانب صارفین کو ملنے والی رعایت بھی واپس لی گئی۔اتحادی حکومت نے بجلی کے بلوں پر 4 روپے 66 پیسے فی یونٹ سرچارج عائد کیا، 15 روپے فی بجلی بل ریڈیو سرچارج لگایا،بقایا جات کی مد میں 8 ماہ کے لیے 14 روپے 24 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا اور پی ٹی آئی دور میں بجلی بلوں پر دیئے جانے والے رعائتی پیکج 5روپے فی یونٹ صنعتی صارفین اور 3روپے 60 پیسے فی یونٹ کسان پیکج ختم کر دیا۔اتحادی حکومت کے دور میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے صارفین پر مجموعی طور پر 3 ہزار ارب روپے سے زائد کا بوجھ ڈالا گیا،پی ٹی آئی کی حکومت نے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 48روپے 57 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا تھا،ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں پی ٹی آئی کے دور میں صارفین پر 470 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا گیا۔مہنگی بجلی کے باوجود نہ تو بجلی چوری رکی نہ لاسزز کم ہوئے نہ ہی پاور سیکٹر کا نقصان کم ہوا، ایک طرف 2300 ارب سے زائد بھاری گردشی قرضے ہےں تو دوسری طرف بڑھتے ہوئے لائن لاسزز اور بجلی چوری بھی دن بہ دن بڑھ رہی ہے، جبکہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نا اہلی کا سارا بوجھ عوام پر ڈالا جانے لگا تو دوسری طرف بجلی کے بھاری بلوں کے باوجود بجلی کے نظام میں بھی کوئی بہتری نہ آ سکی۔نگران حکومت کا کہنا تھا کہ بجلی کے بلوں میں شامل ٹیکسوں سے متعلق آئی ایم ایف سے بات کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مالی مشکلات کے باعث نگران حکومت خود سبسڈی نہیں دے سکتی ۔ ماہرین معیشت کے مطابق آئی ایم ایف سے معاہدہ اپنی جگہ لیکن پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ غیر منصفانہ تقسیم، بااثر طبقے کو اربوں روپے کی مفت بجلی کی فراہمی، بجلی چوری بھی ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے برآمدات بھی کم ہو رہی ہیں جبکہ روایتی کے ساتھ جدید اشیا تیار کر کے درآمدات میں شامل کرنے کی بھی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ اس وقت پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے باعث صنعت کاروں سے زیادہ عام شہری اور غریب پریشان ہیں۔ معیشت کی بہتری کے ساتھ حکومت کو پہلے عام لوگوں کی پریشانی کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کے بااثر طبقے اور مختلف اداروں کو اربوں روپے کی بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے۔ کئی علاقوں میں بجلی چوری کی جاتی ہے جس سے لاسز اربوں میں ہوتے ہیں اور یہ سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ہمیشہ سے ہی مراعات سے ایک طبقے کو نوازنے کا سلسلہ جاری ہے۔ عوام اور خواص میں فرق کر کے پالیسیاں بنانے سے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔پرائیویٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر بورڈ کے مطابق آئی پی پیز کہلائے جانے والے یہ نجی پاور پلانٹس ملک کی کل بجلی کی پیدوار کا پچاس فیصد سے بھی زائد حصہ پیدا کرتے ہیں۔ بجلی مہنگی ہونے میں ان کا براہ راست کوئی کردار تو نہیں مگر چند بنیادی عناصر ایسے ہیں جن کے باعث ان پلانٹس کی پیدا کردہ بجلی مہنگی پڑتی ہے۔ 1990 کی دہائی میں حکومت پاکستان نے آئی پی پیز کے ساتھ بجلی پیدا کرنے کے معاہدات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک آئی پی پیز کے ساتھ بیسیوں معاہدے کیے گئے ۔ حکومت کا یہ فیصلہ وقت کی ضرورت تھا کیونکہ ملکی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی تھی اور بڑھتی ہوئی بجلی کی مانگ پوری کرنے کے لیے آئی پی پیز کے ذریعے بجلی بنوانا دانشمندانہ اقدام تھا۔تاہم ان معاہدات میں پلانٹس کی پیداواری صلاحیت کی قیمت بھی شامل تھی۔ اس ادائیگی کو پلانٹ کا کرایہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اگر ایک پلانٹ 100 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور حکومت نے اس سے ایک ماہ کے دوران صرف 20 میگا واٹ بجلی پیدا کروائی تو اسے ماہانہ ادائیگی 100 میگا واٹ کی صلاحیت کے حساب سے ہی کی جائیگی۔ البتہ ماہانہ ادا کی جانے والی اس ادائیگی میں 20 میگا واٹ بجلی کی قیمت بھی شامل ہوگی جو حکومت نے اس سے ایک ماہ کے دوران پیدا کرائی۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ صلاحیت کی مد میں آئی پی پیز کو کی جانے والی ماہانہ ادائیگیاں بجلی مہنگی کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔حکومت آئی پی پیز کو کرایہ یا ان کی پیداواری صلاحیت کی قیمت ادا کرنے کے علاوہ ان سے بنوائی جانے والی بجلی کی قیمت بھی ادا کرتی ہے۔ یہ ساری ادائیگیاں ماہانہ بنیادوں پر کی جاتی ہیں۔ اب یہ پلانٹس بجلی پیدا کرنے کے مہنگے طریقے استعمال کرتے ہیں۔ پی پی آئی بی کے مطابق یہ پلانٹس کل 27 ہزار 7سو 71 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اس میں سے تھرمل طریقے سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 21 ہزار ایک سو 21 میگا واٹ ہے اور یہ بجلی پیدا کرنے کے مہنگے ترین طریقوں میں سے ایک ہے۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ آئی پی پیز اپنی پیداواری صلاحیت کی قیمت اور مہنگی بجلی پیدا کرنے کی وجہ سے پاکستان میں بجلی مہنگی ہونے کا باعث بنتی ہے۔ ڈالر کے نرخ بھی بجلی مہنگی ہونے کی دوسری بڑی وجہ ہےں۔ آئی پی پیز کے ساتھ کیے جانے والے مہنگے معاہدے بجلی مہنگی ہونے کی پہلی جبکہ بجلی چوری ہونا تیسری وجہ ہیں۔آئی پی پیز چونکہ غیر ملکی سرمایہ کار ہیں اس لیے انہیں ادائیگیاں بھی پاکستانی روپے کے بجائے ڈالر میں کی جاتی ہیں۔ ان پلانٹس کی حکومت کے اپنے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس کے مقابلے میں پیداواری لاگت بھی زیادہ ہے۔ صارفین اپنے بل روپوں میں ادا کرتے ہیں جبکہ آئی پی پیز کو ادائیگیاں ڈالر میں کی جاتی ہیں تو جب ڈالر مہنگا ہوتا ہے تو اس کا اثر براہ راست بجلی کے صارفین پر پڑتا ہے اور ان کے بجلی کے بل زیادہ آنا شروع ہو جاتے ہیں۔نون لیگ کی حکومت کے خلاف سازشوں، پی ٹی آئی کی نااہل حکومت اور کورونا وبا کے پھیلاﺅ نے ملکی معیشت کو کمزور کیا جس کے باعث بجلی کی مانگ میں کمی ہوئی اور آئی پی پیز کی پیداواری صلاحیت کی مد میں ماہانہ ادائیگیاں ایک اضافی بوجھ بن کر رہ گئیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر پاکستان کو بجلی کی قیمتوں میں کمی کرنی ہے تو اسے ملکی معیشت کو پہیے ہی نہیں بلکہ پر لگانے ہونگے۔مہنگی بجلی کے مسئلے پر حکومت ہمیشہ جو ایک غلطی کرتی ہے وہ آئی پی پیز کا ناطقہ بند کرنا ہے حالانکہ قصور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کا ہوتا ہے۔ لہذا آئی پی پیز کے بجائے ڈسٹری بیوشنز کمپنیوں پر ہاتھ ڈالنا چاہیے کیونکہ یہ کرپشن، اقربا پروری اور نااہلی کے باعث حکومت کے لیے خسارے کا باعث بنتی ہیں۔ نااہلی، کرپشن، غیر منصفانہ مراعات اور رعایتوں کا خاتمہ بجلی کی قیمتوں میں واضح کمی لا نے کا باعث بن سکتا ہے۔ واپڈا سمیت دیگر تمام سرکاری اداروں اور محکموں کے افسران کو دی جانے والی مفت یا رعایتی بجلی بند کرنی ہوگی اور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں سے کرپشن کا خاتمہ کرنا ہوگا۔