پاک بھارت تجارتی تعلقات

اےک خبر کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی تعلقات کی بحالی کے حوالے سے اسٹیک ہولڈرز میں کوئی اتفاق رائے نہیں ہے۔اگست 2019 میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی خود مختار حیثیت کو منسوخ کرنے کے متنازع اقدام کے بعد سے تجارتی تعلقات معطل ہو گئے تھے۔مارچ 2021 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پابندی ہٹانے کے قریب تھی جب کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے بھارت کے ساتھ جزوی طور پر تجارت کھولنے پر اتفاق کیا۔ تاہم وفاقی کابینہ نے اس فیصلے کو ویٹو کر دیا جب کچھ اراکین نے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو خبردار کیا کہ یہ فیصلہ سیاسی خودکشی ہو گا۔اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ماتحت سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بے چین تھی۔اےک روز قبل وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ پاکستان کے کاروباری افراد چاہتے ہیں بھارت کے ساتھ تجارت بحال ہو اور پاکستان بھارت کے ساتھ تجارت کھولنے سے متعلق جائزہ لےگا۔وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ شہبازشریف کی قیادت میں سولہ ماہ کی حکومت ملک کو صرف دیوالیہ ہونے سے بچانے کےلئے تھی اور پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ نے اپنا عہد خوب نبھایا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف حکومت جاتے جاتے کہہ کرگئی تھی کہ بارودی سرنگیں بچھا کرجارہے ہیں، دنیا میں 24 ویں معیشت کو 47 ویں معیشت بناکر جانے والوں نے پاکستان کا بیڑاغرق کیا۔وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمسائے تبدیل نہیں کیے جاسکتے، ہمیں پڑوسیوں کےساتھ ہی رہناہے ان کا کہنا تھا کہ افغانستان نے معنی خیز ایکشن نہیں لیا توپاکستان نےگل بہادر گروپ کےخلاف کارروائی کی۔وزیر خارجہ نے بتایا کہ برطانوی وزیرخارجہ ڈیوڈ کیمرون چند ہفتوں میں پاکستان کا دورہ کریں گے، کیمرون آسٹریلیا کے دورے سے واپس آرہے ہیں، پیرکوبرطانوی وزیر خارجہ سے فون پر بات ہوگی۔پاک بھارت تجارتی تعلقات ہمیشہ سے ہی اتار چڑھاﺅ کا شکار رہے ہیں۔ مختلف واقعات سے تعلقات پر بہت اثر پڑتا ہے۔ پاکستان اور بھارت بالترتیب چودہ اور پندرہ اگست1947 کو آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئے۔ دونوں ممالک کو برطانوی ہند کو ہندو مسلم آبادی کی بنیاد پر تقسیم کرنے پر آزاد کیا گیا تھا۔ بھارت جس میں ہندو اکثریتی قوم تھی، ایک سیکولر ریاست قرار پایا۔ جبکہ مسلم اکثریتی پاکستان کو اسلامی جمہوریہ ریاست کا نام دیا گیا۔ آزادی کے وقت سے ہی دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے اچھے تعلقات استوار رکھنے کا عزم ظاہرکیا۔ مگر ہندو مسلم فسادات اور علاقائی تنازعات کی وجہ دونوں ممالک میں کبھی اچھے تعلقات دیکھنے کو نہیں ملے۔ آزادی کے وقت سے اب تک دونوں ممالک کے چار بڑی جنگوں جبکہ بہت ہی سرحدی جھڑپوں میں ملوث رہ چکے ہیں۔ پاک بھارت جنگ 1971 اور جنگ آزادی بنگلہ دیش کے علاوہ تمام جنگوں اور سرحدی کشیدگیوں کامحرک کشمیرکی تحریک آزادی رہی ہے۔دونوں ممالک کے درمیان میں تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے بھی بہت سی کوششیں کی گئیں جن میں آگرہ، شملہ اور لاہور کا سربراہی اجلاس شامل ہے۔ 1980 کی دہائی سے دونوں ممالک کے تعلقات کے درمیان میں تاریخ ساز بگاڑ محسوس کیا گیا ہے۔ اس بگاڑ کا سبب سیاچن کا تنازع، 1989 میں کشمیر میں بڑھتی کشیدہ صورت حال، 1998 میں بھارت اور پاکستانی ایٹمی دھماکے اور 1999 کی کارگل جنگ کو سمجھا جاتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان میں کشیدہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے 2003 میں جنگ بندی کا معاہدہ اور سرحد پار بس سرورس کا آغاز کیا گیا ہے۔ مگر تعلقات کو بہت بنانے کے لیے تمام کوشش پے در پے رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی نظر ہوتی گئیں۔ جن میں 2001 بھارتی پارلیمان عمارت پر حملہ، 2007 میں سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین کا دھماکا اور 26 نومبر 2008 ممبئی میں دہشت گردی کی کاروائیاں شامل ہیں۔ 2001 میں ہونے والے بھارتی پالیمان پر حملے نے دونوں ممالک کے درمیان میں جنگ کا سا سماں پیدا کر دیا تھا۔ 2007 میں سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین پر حملے سے تقریبا 68 افراد مارے گئے جن مین زیادہ تر کا تعلق پاکستان سے تھا۔ 2008 کے ممبئی حملے، جن کو پاکستانی دہشت گردوں سے منسوب کیا جاتا ہے، دونوں ممالک کے درمیان میں امن تعلقات کو سبوتاژ کرنے کے لیے اہم ثابت ہوئے۔جولائی سے مارچ 22-2021 کے دوران پاکستان سے بھارت درآمدات کی گئی اشیا کی مالیت 28کروڑ اےک لاکھ 33 ہزار ڈالر تھی جو پچھلے سال 23 کروڑ 7لاکھ 26 ہزار ڈالر تھیں، ان درآمدات میں طبی، فارمیسی اور کمیکل مصنوعات شامل تھیں۔پاکستان کی بھارت کے ساتھ تجارت کے منفی اثرات تب سامنے آئے جب 20-2019 میں پاکستان کی برآمدات 8 کروڑ 40لاکھ ڈالر سے کم ہوکر 78 لاکھ ڈالرر رہ گئی تھیں، تاہم 22-2021 میں پاکستان سے بھارت کی گئی برآمدات 31کروڑ 7لاکھ 35 ہزار ڈالر رہیں جو پچھلے سال 38 کروڑ 9لاکھ ڈالر تھیں، جبکہ پاکستانی درآمد کنندگان نے بھارتی مصنوعات کی درآمد کے لیے دبئی اور دیگر ممالک کا راستہ اختیار کیا۔بھارت کے شہر چندی گڑھ میں مقیم صحافی کے مطابق پاکستانی درآمد کنندگان دبئی کے راستے بھارت سے تجارت کرتے ہیں، واہگہ بارڈر کے قریب چندی گڑھ میں پاکستانی روپے میں ایک کلو پیاز کی قیمت 69 روپے میں فروخت ہورہا ہے جبکہ ٹماٹر 89 روپے فی کلو اور آلو 69 روپے فی کلو میں دستیاب ہے۔ یہ فصلیں اس موسم میں وافر مقدار میں موجود ہیں اور واہگہ بارڈر کے ذریعے آسانی سے پاکستان کو برآمد کی جا سکتی ہیں، اگر برآمدات کے لیے بڑی تعداد میں خریداری کی جائے گی تو ان کی قیمتیں کم ہوں گی۔متحدہ عرب امارات پاکستان کے بڑے تجارتی شراکت داروں میں سے ایک مانا جاتا ہے، دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت 22-2021 کے دوران 10 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی جبکہ متحدہ عرب امارات کو پاکستان کی برآمدات اےک ارب 36 کروڑ ڈالر ہے اور یو اے ای سے درآمدات 8ارب 66 کروڑ ڈالر رہیں، ان اعدادوشمار سے پاکستان کی دبئی اور بھارت کے ساتھ تجارت میں واضح فرق نظر آتا ہے۔پاکستان کسی تیسرے ملک کے ذریعے اشیا منگوانے کے بجائے براہ راست درآمد کرکے زرمبادلہ بچانے کے ساتھ ساتھ لاگت میں کمی بھی لا سکتا ہے کیونکہ کسی تیسرے ملک سے خریداری سے لاگت میں اضافہ ہو گا، مقامی مارکیٹ میں سپلائی کو بہتر بنانے کے لیے واہگہ کے ذریعے سبزیوں کی براہ راست درآمد موثر ثابت ہوسکتی ہے۔موجودہ حالات میں اِس وقت کچھ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ دونوں ملکوں کے مابین مفاہمت کی کیا صورتحال سامنے آتی ہے۔ دونوں حکومتیں مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گی۔ اس کے لیے کچھ مزید مثبت سفارت کاری درکار ہوگی۔ یہ بھی اہم ہوگا کہ نئی دہلی حکومت کی ترجیحات کیا ہوں گی اور وہ پاکستان کے بارے میں کیا رویہ اپنائے گی۔ پاک بھارت مذاکرات پر ماہرین کی مختلف آرا ہیں۔ پاکستان ہندوستان پر نظر رکھنے والے کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ 2024 کے آخر تک پاکستان اور ہندوستان میں دونوں حکومتوں کے فعال ہونے کے بعد کچھ برف مزید پگھل سکتی ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہو سکتا ہے۔ لیکن اکثریت کے خیال میں دونوں ملکوں کے درمیان سر د مہری جاری رہے گی۔ کیونکہ بی جے پی حکومت نے سالوں میں جو پاکستان مخالف بیانیہ عوامی سطح پر لوگوں کے ذہنوں میں پختہ کیا گیا اس سے نہ تو فوری طور پر الگ ہوا جاسکتا ہے اور نہ ہی انکے لیے سیاسی طور پر اچھا آپشن ہے۔ اِسکے علاوہ خطے میں بین الاقوامی سیاسی صف بندی بھی غماز ہے کہ حالات جیسے ہیں ایسے ہی رہیںگے۔بہرحال یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان معطل تجارتی روابط بحال ہو سکتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں تنا اور کشیدگی دونوں ممالک کی تجارت پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔سابقہ حکومت میں پاکستان کی وزارتِ تجارت نے ایک بیان میں بھارت میں ٹریڈ منسٹر کی نامزدگی کو معمول کی کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت سمیت دیگر ممالک کے لیے تجارت سے متعلق 15 افسران مقرر کیے گئے ہیں ۔بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط کے مطابق دنیا کے جس ملک میں بھی پاکستانی ٹریڈ منسٹر ہوتے ہیں ان کا بنیادی کام پاکستان کے اس ملک کے ساتھ تجارتی تعلقات بہتر کرنا اور برآمدات کو فروغ دینا ہوتا ہے۔جب تک بھارت کے ساتھ تجارت بحال نہیں ہوتی اس وقت تک ٹریڈ منسٹر کا شاید وہاں کوئی کام نہ ہو۔ البتہ بھارت نامزد ٹریڈ منسٹر کو جلد ویزاجاری کر دیتا ہے۔ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت نے مارچ 2021 میں بھارت سے چینی اور کپاس درآمد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بعد ازاں سیاسی دباﺅ کی وجہ سے یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود نے حکومت پر زور دیا تھا کہ بھارت کے ساتھ اس وقت تک تجارت بحال نہ کی جائے جب تک بھارت کی کشمیر سے متعلق پالیسی میں کوئی ٹھوس تبدیلی سامنے نہیں آتی۔کہا جاتا ہے کہ بھارت سمیت خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کو فرو غ دینا پاکستان کے مفاد میں ہے۔تجارتی معاملات کو سیاسی معاملات کے تابع نہیں ہونا چاہیے ۔دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جن کے درمیان مخاصمت کے باوجود تجارتی تعلقات موجود ہیں۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی معاملات اور تناﺅ کے باوجود پاکستان اور بھارت کو بھی اپنی معمول کی تجارت بحال رکھنی چاہیے۔اگست 2019 میں پاکستان اور بھارت کی تجارت معطل ہونے کے وقت اس کا حجم لگ بھگ دو ارب پچاس کروڑ ڈالر تھا۔ پاکستان کی تاجر برادری کا خیال ہے کہ اگر پاکستان بھارت کے درمیان معمول کی تجارت بحال ہوتی ہے تو دونوں ممالک چند برس کے اندر اپنا تجارتی حجم دس ارب ڈالر تک بڑھا سکتے ہیں۔