دہشتگردی کا تھریٹ


وزیر داخلہ گلگت بلتستان شمس الحق لون اور وزیر اعلی گلگت بلتستان کے ترجمان فیض اللہ فراق نے گلگت بلتستان ہاﺅس اسلام آباد میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت بلتستان میں دہشت گردی کا تھریٹ اپنی جگہ پر ہے مگر حکومت سیکےورٹی کو منظم کر چکی ہے ، سیکےورٹی امور پر کسی طور سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا ، گلگت بلتستان میں تعمیر ہونے والے میگا منصوبوں سمیت ،غیر ملکی باشندوں اور علاقائی سطح پر سیکےورٹی کو مربوط کیا جا رہا ہے ، انٹیلی جنس اداروں کے ساتھ ملکر گلگت بلتستان پولیس اور دیگر تمام ادارے سیکےورٹی کے حوالے سے ایک نکتے پر مجتمع ہیں اور پوری صلاحیت کے ساتھ امن و عامہ کو بحال و جاری رکھیں گے۔وزارت داخلہ کی جانب سے دہشتگردوں کے ممکنہ حملوں کے خطرے کے حوالے سے جاری تھریٹ الرٹ کے بعد گلگت بلتستان بھر میں سیکیورٹی میں اضافہ کردیا گیا۔ وفاقی وزارت داخلہ نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے ممکنہ حملوں کے حوالے سے تھریٹ الرٹ جاری کرتے ہوئے خطے کی حکومت کو سیکیورٹی میں اضافہ کرنے کا کہا تھا۔صوبائی وزےر داخلہ نے کہا رمضان کے آخری دس دن حساس ہوتے ہیں کیونکہ اس دوران بشمول جمعہ اور عید کی نماز جیسے بہت سے مذہبی اجتماعات منعقد کیے جاتے ہیں،لہذا مختلف اجلاسوں میں حساس مقامات اور ریجن کے داخلی راستوں پر چیکنگ بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا اور خواتین پولیس اہلکاروں کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان اسکاﺅٹس کو بھی ریجن میں تعینات کیا گیا ہے۔دیامر کے ڈپٹی کمشنر عارف احمد کا کہنا ہے کہ بشام حملے کے بعد دیامر بھاشا ڈیم پروجیکٹ پر کام معطل کرنے والے چینی ورکرز اور انجینئرز دو دن کے اندر اپنے فرائض دوبارہ سر انجام کرنا شروع کر دیں گے۔اس منصوبے پر کام کرنے والے چینی شہریوں کی سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ ڈیم سائٹ پر پولیس، گلگت بلتستان اسکاﺅٹس اور واپڈا کی سیکیورٹی فورس کے ایک ہزار چار سو سے زائد سیکیورٹی اہلکار بھی تعینات کیے گئے ہیں۔ پنجاب پولیس کے محکمہ انسداد دہشتگردی سی ٹی ڈی نے بھی سیکیورٹی خطرات کے حوالے سے خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کے انسپکٹر جنرلز کو خط ارسال کیا ہے۔ خط میں بتایا گیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے مبینہ طور پر انےس اور اکےس رمضان کے درمیان حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ خطرات کے پیش نظر مذہبی اجتماعات، مساجد اور دیگر اہم تنصیبات کی سیکیورٹی کے لیے فول پروف انتظامات کیے گئے ہیں۔ مخصوص اےام کے علاوہ بھی پاکستان میں سےکےورٹی تھرےٹ اب معمول بن چکا ہے ۔ اقوام متحدہ کی انسدادِ دہشت گردی کمیٹی کے اجلاس میں بھی کہا گےا تھا کہ بین الاقوامی برادری کی وسیع کوششوں کے باوجود، دہشت گردی کا خطرہ نہ صرف موجود ہے بلکہ اس نے جدید شکل اختیار کر لی ہے ۔بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے مقاصد کے لیے نئی اورابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کا استعمال خاصی تشویش کا باعث ہے۔ درحقیقت دہشت گرد اپنے نیٹ ورکس کی تعمیراورتوسیع، ہتھیاروں کی خریداری اورلاجسٹک اورمالی مدد حاصل کرنے کے لیے آن لائن پلیٹ فارمز کا استعمال کر رہے ہیں۔دہشت گرد گروہوں نے خاص طور سے نوجوانوں کو راغب کرنے کے لیے سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے رجحان کا فائدہ اٹھایا۔دہشت گردی کے مقاصد کے لیے بھرتی اورفنڈز اکٹھا کرنے کے علاوہ اپنے پروپیگنڈے اورمسخ شدہ بیانیے کو پھیلانے کے لیے نئی ٹیکنالوجی کا بھر پور استعمال کیا جا رہا ہے ۔لہذا دہشت گردی کے مقاصد کے لیے انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کا مقابلہ کرنا۔ دہشت گردی کی مالی معاونت کو بند کرنا جس میں ادائیگی کے لیے کی ٹیکنالوجیز کا استعمال اور فنڈ ریزنگ کے طریقوں سے متعلق خطرات اور مواقع شامل ہےں ۔دہشت گردی کے مقاصد اورحملوں کے لیے بغیرپائلٹ کے ہوائی جہازوں کے نظام یعنی ڈرونز کے استعمال کا سد باب بھی اہمےت کا حامل ہے۔ عالمی سطح پردہشت گردوں اوردیگرغیر ریاستی عناصر نے اہم بنیادی ڈھانچے اورفوجی اورسفارتی تنصیبات پر حملہ کرنے کے لیے ڈرونزکا استعمال کیا ہے۔ دہشت گردی کے مقاصد کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال بین الاقوامی انسداد دہشت گردی، سائبر سیکیورٹی اورڈیجیٹل گورننس کے لیے ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ہمیں قانون نافذ کرنے اورعدالتی نظام کو مضبوط اورمستحکم کرنے، خطرے سے متعلق معلومات کے تبادلے کو بہتر بنانے، سرحدی سیکیورٹی کو بڑھانے، دہشت گردوں کی مالی معاونت کے انسداد، اوردہشت گردی کی روک تھام کی کوششوں کو مضبوط کرنے کے لیے سیاسی ارادے اورصلاحیتوں کو بہتر بنانے کی کوشش جاری رکھنا ہوں گی۔ےہ بارہا کہا جا چکا ہے کہ افغانستان کے موجودہ حکمران ملک میں پناہ لینے والے دہشت گرد گروہوں کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔دہشت گرد موقع پرستانہ انداز میں خود کو حالات کے مطابق ڈھال رہے ہیں جس کے باعث ان کے خلاف مربوط عالمگیر قدم اٹھانا مشکل ہو گیا ہے۔ نسل پرستی اور مذہب یا عقیدے کے نام پر عدم رواداری کی دیگر اقسام کی بنیاد پر دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے ۔دہشت گردی کے واقعات ظاہر کرتے ہےں کہ قیام امن کے لیے کام کرنے والے ہمارے لوگ امن کی خاطر ہر وقت انتہائی خطرناک حالات میں اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔چند روز پہلے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ طالبان پر واضح کردیا ہے ان کی ذمہ داری ہے دہشت گردوں کو کوئی محفوظ جگہ نہ دیں۔ طالبان عالمی برادری سے انسداد دہشت گردی کے اپنے تمام وعدوں کو پورا کریں۔ امریکا اور دیگر مغربی ممالک کے خلاف دہشت گردانہ حملے روکنے کیلئے کام جاری رکھیں گے۔ پرعزم ہیں افغانستان دوبارہ کبھی دہشت گردی کیلئے لانچنگ پیڈ نہ بن سکے۔دہشت گردی کے حوالے سے ہمارے ریاستی اداروں کی پالیسی میں دہشت گردی کو زیرو ٹالرنس پر رکھا گیا ہے۔سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ بھی فوج نے کیا تھا اور اسے قومی سلامتی کونسل کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے بارے میں بھی ہر دور کی یہی پالیسی رہی ہے کہ اگر وہ آئین پاکستان کی رٹ کو تسلیم کرتے ہیں تو ان سے مذاکرات ہو سکتے ہیں اِس کے علاوہ ان سے کسی قسم کا رابطہ نہیں ہو سکتا۔حکومت کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کے لئے اپنی ترجیحات کا تعین کرے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں خارجہ پالیسی کے نئے خدوخال وضع کئے جائیں۔افغان سرزمین اگر پاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال ہو رہی ہے تو اسے سفارتی سطح پر اٹھایا جانا چاہئے۔ افغان حکومت سے اِس ضمن میں بات کرنی چاہئے اور ٹھوس ضمانتیں حاصل کی جانی چاہئیں۔ افغانستان میں قائم طالبان حکومت کے ساتھ ہمارے تعلقات اتنے بھی خراب نہیں کہ ہم اِن واقعات پر ان سے بات نہ کر سکیں۔ اس حقیقت کو جھٹلانا اب ممکن نہیں کہ دہشت گردی کے واقعات کسی ایک صوبے تک محدود نہیں رہے۔ وفاقی دارالحکومت سے صوبائی دارالحکومتوں تک،اہم تنصےبات‘غےر ملکیوں اور پولیس سے فوج کے جوانوں تک سب ہی نشانے پر ہیں۔ماضی میں رد الفساد سے ضرب عضب تک کامیابیاں حاصل ہوئیں لیکن وقت نے ثابت کر دیا کہ وہ کامیابیاں عارضی تھیں۔ دہشت گردی کا ناگ پھر پھنکار رہا ہے۔ اب تدبیر اور حکمت کے ذرےعے ہی ہم اس گرداب سے نکل سکتے ہےں۔ بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات کے مطابق دہشت گردی کے چوبےس خودکش حملوں میں سے چودہ میں افغان باشندے ملوث تھے۔ محب وطن حلقوں نے سابقہ دور میں بارہا اس طرف توجہ دلائی کہ امریکی فوج کا چھوڑا ہوا اسلحہ بھی افغانوں کے ہاتھ آیا ہے لہذا بہت زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے مگر ان باتوں پر توجہ نہ دی گئی اور آج نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ےہ حقےقت ہے کہ خطے کے امن عمل میں رکاوٹیں ڈالنے کی سازشوں میں بھارت ملوث ہے جو اپنے توسیع پسندانہ مقاصد کی ناکامی پر سخت اضطراب کا شکار ہے۔ امریکہ، بھارت اور ان کے اتحادیوں میں اقتصادی راہداری کی تعمیر اور گوادر بندرگاہ معاہدوں پر تشویش پائی جاتی ہے۔ اسی لیے مغربی بارڈر کے راستے پاکستان میں دہشتگردانہ کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔سوشل میڈیا کے عروج نے معلومات کی ترسیل کے منظر نامہ بدل دےا ہے ۔ اس نے بدنیتی پر مبنی کرداروں کو پروپیگنڈا، غلط معلومات اور نفرت پھیلانے کا ایک طاقتور ذریعہ فراہم کیا ہے۔جس کا مقصد بداعتمادی اور اختلاف پیدا کرنا ہوتا ہے۔ انتہا پسند گروہوں اور افراد اپنے نظریات کی تشہیر کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ بھارت اور افغانستان کی جانب سے پاکستان کے بارے میں منفی تاثر کو فروغ دینے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال پیچیدہ جنوبی ایشیائی جغرافیائی سیاسی منظر نامے میں ایک تشویشناک پیش رفت ہے۔بہت سے نیٹ ورک اردو، پشتو، عربی اور انگریزی سمیت متعدد زبانوں میں پاکستان مخالف مواد نشر کر رہے ہےں۔بھارت گمراہ کن بیانیے بنا کر پاکستان کے عالمی امیج کو خراب کر رہا ہے۔ اس صورتحال میں بحےثےت مجموعی ےہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنے ارد گرد کڑی نگاہ رکھےں اور ملک دشمنوں کے قبےح عزائم کی بےخ کنی کےلئے کئی دقےقہ فروگزاشت نہ رکھےں۔