مصنوعی ذہانت اور گلگت بلتستان


انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ گلگت بلتستان اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی(نسٹ)کے اشتراک سے 440  طلبا نے اے آئی (مصنوعی ذہانت) بلاک چین اور ڈیٹا سائنس میں ٹریننگ میں حصہ لیا۔ دوسرے فیز میں مزید پانچ سو طلبا کو ٹریننگ دی جائے گی۔پہلے فیز کے 440 طلبا میں سے 245 طلبا ٹریننگ میں کامیاب قرار پائے۔ گلگت بلتستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سے کئی طلبا منسلک ہوچکے ہیں اور آرٹیفیشل ٹیکنالوجی ایسوسی ایشن کے علاوہ گلگت بلتستان سوفٹ ویئر ہائوس ایسوسی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ گلگت بلتستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سے منسلک طلبا اور کمپنیاں اے آئی،بلاک چین، روبوٹک، کلاوڈ کمپیوٹنگ،ڈیجیٹل مارکیٹنگ جیسے شعبوں پر کام کر رہے ہیں۔سٹارٹ اپ اور آئی ٹی سے منسلک طلبا اور کمپنیوں کا کہنا ہے کہ صرف ٹریننگ دینا کافی نہیں ہے اے آئی لیب، بجلی اور انٹرنیٹ جیسے سہولیات بھی لازمی ہیں جبکہ گلگت بلتستان میں آئی ٹی پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے آئی ٹی ایسوسی ایشنز کو رجسٹریشن کے مسائل کا سامنا ہے۔ آئی ٹی سے منسلک مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کا کہنا ہے طلبا کو پہلے تعلیم مکمل کرکے آئی ٹی کی جانب آنا چاہیے کیونکہ کہ تعلیم ادھوری چھوڑ کر آنے والوں کے لئے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اعلی تعلیم یافتہ ہی آئی ٹی میں بہتری کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ گزشتہ تین سال میں آئی ٹی سے منسلک تیس سے زیادہ کمپنیاں گلگت بلتستان میں دفاتر کھول چکی ہیں جبکہ درجنوں ذاتی حیثیت میں فری لانسنگ سے منسلک ہوچکے ہیں۔آرٹیفیشل انٹیلی جنس وہ تکنیک ہے جہاں آپ کمپیوٹر کو انسان کی طرح کام کرنا سکھاتے ہیں، جیسے ایپل کا سیری، گوگل اسسٹنٹ یا پھر امیزان الیکسا۔ یہاں آپ کمپیوٹر کو ڈائریکٹ کرتے ہیں اور وہ آپ کے حساب سے کام کرتا ہے۔ کئی ریسرچ کرنے والوں کا ماننا ہے کہ آرٹیفیشل انٹلی جنس کی مدد سے اب کمپیوٹر انسانوں سے بہتر ہونے لگے ہیں۔ہماری زندگیوں میں سائنس نے جتنی ترقی کر لی ہے ہمارے بعد والی نسلوں کی زندگی میں اس ترقی کے نتائج سامنے آنے والے ہیں۔ اہل دنیا ان تمام حوالوں سے پریشان بھی ہیں اور فوائد کے حصول کو ممکن بنانے پر خوش بھی ہیں۔آرٹیفیشل انٹیلی جنس بہت خاموشی سے آہستہ آہستہ ہم سب کی زندگی میں مستقل طور پر شامل ہوتی جا رہی ہے۔کچھ سال پہلے کی بات ہے جب اے آئی یعنی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کو باقاعدہ نام سے پکارا جانے لگا غالبا یہ 1956 کے عرصہ کی بات ہو گی۔ اس زمانہ میں کمپیوٹر اور سائنس نے اس قدر ترقی تو ضرور کر رکھی تھی کہ ایک مشین کی مدد سے کسی پزل گیم کو حل کروایا جاتا رہا ہے۔اس زمانہ میں کمپیوٹر سے گفتگو کرنے کے لیے صرف کمپیوٹر کے لیے مخصوص زبانوں کو استعمال کیا جاتا تھا جن میں مشین لینگویج اور پروگرام لینگویج عام تھیں۔ سی لینگویج بھی انہی کہ ایک مثال ہے ۔ یعنی کپیوٹر صرف ان ہی چند زبانوں کو سمجھتا تھا۔آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے سب سے پہلے جو کام کیا وہ یہ تھا کہ اس کی مدد سے کمپیوٹر اس قابل ہوا کہ وہ انسانوں کی زبان کو یعنی جو انسانوں کے درمیان ایک دوسرے سے گفتگو کرنے کے لیے زبان استعمال کرتی ہے سمجھنے لگا۔سٹرکچر کیوری لینگویج بھی اسی کی ایک مثال ہے جس میں کوئی بھی پروگرام کمپیوٹر کو بتانے کے لیے چھوٹے چھوٹے جملے استعمال کیے جاتے ہیں اور کمپیوٹر انہیں سمجھ کر جواب دیتا ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس اسی کی ایک جدید شکل ہے جو کہ مستقبل میں جدید سے جدید تر اور پھر جدید ترین ہو جائے گی۔اس دنیا میں موجود وہ لوگ جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح سے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سائنس سے ہے اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہیں اور اکثر سوچتے ہیں کہ کیا مصنوعی ذہانت ہماری زندگی میں اس قدر حصہ لے سکتی ہے کہ ہماری نیچرل یعنی قدرتی زندگی اور رہن سہن یکسر بدل دے۔ انسان اور مصنوعی ذہانت کا مستقبل کیا ہے؟ یہ ایک بنیادی سوال ہے جس کا موجودہ دور میں رقم ہونے والی تاریخ سے بہت گہرا تعلق ہے۔کچھ لوگوں کے مطابق مصنوعی ذہانت ہم انسانوں کے ذہن کو اپنے اختیار میں لینے کے قابل ہو جائے گی اور انسان کو اپنا غلام بنا کر ان پر حکمرانی کرنے لگے گی۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہم سب کے ہاتھوں میں موجود سمارٹ فون اپنے سمارٹ ہونے کا ثبوت دینے لگا ہے۔ گوگل، بنگ ، آئی او ایس، اینڈرائڈ جیسے جدید سافٹ ویئر ہمارے موبائل فون کے ذریعہ سے ہماری معلومات کو اکٹھا کرتے رہتے ہیں سوشل میڈیا پر ہونے والی تمام گفتگو اور ہماری حرکات و سکنات کو بھی محفوظ کرتے جا رہے ہیں۔موجودہ دور میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس خاصی ترقی کر چکی ہے ۔ جدید دور میں تقریبا ہر بڑی انڈسٹری میں اس کا استعمال کیا جانے لگا ہے۔ نیچرل لینگویج جنریشن مصنوعی ذہانت کا ایک حصہ ہے جس کی مدد سے مصنوعی ذہانت کی مدد سے کام کرنے والی مشینیں خودکار انداز میں انسانوں کی ضرورت کے مطابق جواب دینے کی صلاحیت حاصل کرتی ہیں۔گفتگو کی پہچان ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کی مدد سے مشینوں کو اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ آوازوں کو سن کر ان کو سمجھ کر ان کے مطابق جواب دے سکیں۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے انسانی آواز کو سن کر سمجھ کر کمپیوٹر ہدایات وصول کرنے کی صلاحت رکھتا ہے۔اس کی مدد سے انسانی گفتگو کو کمپیوٹر مخلتف زبانوں میں بدل سکتا ہے۔ ان کی بہتریں مثال سری نام کا روبوٹک اسسٹنٹ ہے جو آواز کو سن کے اس کے مطابق عمل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔آرٹیفیشل انٹلیجنس بہت تیزی کے ساتھ اپنا دائرہ بڑھا رہی ہے اور تیزی سے اس کے پھیلتے اثر پر روایتی ٹیکنالوجی کے ماہرین کا ماننا ہے کہ ٹیکنیکل شعبہ میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی وجہ سے سالانہ روزگار کم ہوئے ہیں یعنی اگراس کی وجہ سے سو عہدے ختم ہوتے ہیں تو صرف دس عہدوں کے لئے ہی نئی آسامیاں تیار ہو رہی ہیں۔ کئی ریسرچ کرنے والوں کا ماننا ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مدد سے اب کمپیوٹر انسانوں سے بہتر ہونے لگے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آنے والا وقت آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا ہی ہوگا جو کہ ایک الگ دنیا بنائے گا۔آج لگ بھگ ہر شعبہ میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا استعمال ہو رہا ہے اور روز نئے تجربات کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ شطرنج کھیلنا، فوٹو نکالنا، کینسر کا علاج کرنا جیسی چیزوں کے لئے بھی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کو جب پوری طرح سے تیار کر لیا جائے گا تو شائد کام کرنے کے لئے انسانوں کو ضرورت ہی نہیں رہے گی۔آرٹیفیشل انٹلی جنس کا استعمال تقریبا سبھی انڈسٹریز میں کیا جا رہا ہے جس میں ہوٹل، فنانس، کھیتی، آن لائن شاپنگ وغیرہ شامل ہیں۔ انٹرنیٹ پر کئی ایسے ویڈیوز موجود ہیں جن میں آپ آسانی سے ہوٹل، ریستوراں میں روبوٹ کو لوگوں کو کھانا کھلاتے دیکھ سکتے ہیں۔ہمارے موبائل فون پر ہم سوشل میڈیا وغیرہ استعمال کرتے ہیں یعنی فیس بک، انسٹا گرام، گوگل سرچ یا یوٹیوب وغیرہ اس کے علاوہ ہمارے فون سے ہمارے علاقے اور ہمارے سفر کی معلومات بھی ہمارا فون سیو کرتا رہتا ہے اس کے بعد کچھ ہی دن میں ہمیں اندازہ ہونے لگتا ہے کہ جو ہم سوچ رہے ہیں وہی ہمیں ہمارے موبائل پر خودکار انداز میں بتایا جا رہا ہے۔یہی وہ نظام ہے جسے ہم اے آئی اور اس کی ٹیکنالوجیز کہہ سکتے ہیں۔ ہمارا موبائل خودکار انداز میں ہمارے ڈیٹا کو سمجھتا رہتا ہے اور ہمیں اس کے مطابق فیصلہ کر کے مزید ڈیٹا دکھاتا ہے۔خواتین جو اپنے مبائل پر زیادہ تر شاپنگ وغیرہ کے سلسلہ میں سرچ کرتی ہیں انہیں اسی طرح کا ڈیٹا دکھایا جاتا ہے اس کے علاوہ ڈرامے اور میک اپ وغیرہ کے اشتہارات دکھائے جاتے ہیں۔ہمارے موبائل فون ہمیں ہمارے علاقے کا درجہ حرارت بتاتے ہیں۔ موسم کا حال بتاتے ہیں اور سیٹلائٹ کے ذریعہ اکٹھا ہونے والے ڈیٹا کو پروسس کر کے سمجھ کر ہمیں بتاتے ہیں کہ بارش کس وقت ہونی ہے۔ ڈیپ لرننگ مصنوعی ذہانت کا ایک اور اہم حصہ ہے جس کی150 سے زیادہ لیئرز ہیں جن کی مدد سے یہ نظام ڈیٹا کو گہرائی میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ بائیو میٹرک بھی ایسا ہی عمل ہے اس کی مدد سے انگلیوں کے نشانات لیے جاتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں انسانوں کی انگلیوں کے نشانات کو پہچاننے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ ٹیکنالوجی علم فلکیات میں بھی استعمال کی جاتی ہے اس کے علاوہ افواج اسے استعمال کر کے مدد حاصل کرتی ہیں۔ اس کو انسانوں کی صحت یعنی ہیلتھ کے محکموں بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ تمام انفارمیشن کو محفوظ کر کے اس پر پروگرام چلایا جاتا ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ اصل میں بیماری کیا ہے اور موجودہ بیماری کی مستقبل میں کیا صورت ہو سکتی ہے اس کے بعد نتائج کے مطابق ادویات کا استعمال کروایا جاتا ہے۔گلگت بلتستان کے طلباء کی اس سکل میں مہارت وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ ہم جدید ٹیکنالوجی سے استفادے کے بغیر آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔