گلیشیئرز کا حب: گلگت بلتستان

 اےک خبر کے مطابق اطالوی وزیر اعظم جارجےا مےلونی کو پاکستان میں موجود 13025 گلیشےئرز کی جامع فہرست پیش کردی گئی ےہ انونٹری گلیشےئرز آف پاکستان کے صدر اگو سےلونو دا پوٹےنزانے اطالوی وزیراعظم کو پیش کی۔ واضح رہے کہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں 7000 کے بجائے 13023 گلیشےئرز ہیں۔ اور 12700 سے زیادہ گلیشےئرز گلگت بلتستان میں واقع ہیں۔ اطالوی ایجنسی برائے ترقی کے مالی تعاون اور UNDP کے اشتراک سے بنائی جانے والی 13025 گلیشےئرزکی فہرست کو آذربائیجان کے شہر باکو میں ماحولیات پر ہونے والے کانفرنس CoP29 میں پیش کیا جائے گا۔ اطالوی وزیراعظم نے گلیشےئر انونٹری آف پاکستان کو تاریخی اقدام قرار دیا اور جامع تحقیق کو سراہا۔ اس موقع پر اٹلی کے وزیراعظم چار اطالوی خواتین کوہ پیماﺅں کو اطالوی پرچم پیش کیا۔ کے ٹوچوٹی کو 1954 میں اطالوی کوہ پیماﺅں کے سر کرنے کے 70 سال مکمل ہونے پر چارخواتین اطالوی کوہ پیما اور چار پاکستانی خواتین کوہ پیما کے ٹو کی چوٹی پر اپنے ممالک کے پرچم لہرائیں گی۔ اٹلی کے وزیر اعظم نے دونوں ممالک کی خواتین کوہ پیماﺅں کو ان کی ہمت عزم اور جذبے کو سراہتے ہوئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا دونوں ممالک کی خواتین کوہ پیماﺅں کے مشترکہ طور پر کے ٹو سر کرنے سے امن ماحولیاتی تحفظ تحقیق اور سیاحت کی حوصلہ افزائی ہوگی۔قراقرم کا پہاڑی سلسلہ مشکل ترین پہاڑی سلسلہ ہے۔ قراقرم رینج کی لمبائی 500 کلومیٹر یعنی 3000 میٹر ہے۔ اس سلسلہ قراقرم میں 180 سے زیادہ چوٹیوں کی بلندی 7000 میٹر سے زائد ہے۔ جن میں سے 148 کے قریب پاکستان میں اور باقی ہندوستان اور چین میں ہیں۔دریائے سندھ اسی قراقرم رینج کے گلیشیئرز سے نکل کر پاکستان کو سیراب کرتا ہے۔ قراقرم کے اس پہاڑی سلسلے میں بڑے بڑے گلیشیئرز ہیں، جن میں بٹورا گلیشیئر ‘پھسو گوجال ہنزہ میں، سیاچن گلیشیئر، بلتورو گلیشیئر، اور بیافو گلیشیئر بلتستان میں اور ہسپر گلیشیئر نگر میں واقع ہے۔ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں میں دنیا کا تیسرا بڑا برفانی ذخیرہ موجود ہے۔ جس سے تقریبا دو ارب انسانوں کو پانی فراہم ہوتا ہے۔گلگت بلتستان کے گلیشیئرز پر کی گئی ریسرچ کے مطابق یہاں پر 5218 گلیشیئرز اور 2415 گلیشیائی جھیلیں موجود ہیں۔ جن میں سے باون جھیلوں کو انسانی آبادی کےلیے خطرناک قرار دیا گیا ہے۔ یہ گلیشیائی جھیلیں گلگت بلتستان میں ہنزہ، گوجال، استور، شگر، شکیوٹ، اشکومن، یاسین اور گوپس میں موجود ہیں۔پانی انسانوں کی اہم ضرورت ہے اور قدرت کے تمام انتظامات میں سے سب سے بڑا انتظام گلیشیئرز کا ہے۔ گلیشیئرز کے بغیر پانی حاصل کرنا ناممکن و محال ہے اور نظام زندگی بھی ممکن نہیں۔ گرمی کی شدت میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے اسی طرح پانی کی بھی مقدار میں کمی ہورہی۔بدقسمتی سے گلیشیئرز کا پگھلاﺅ تیزی سے ہورہا ہے کیونکہ گرمی کی شدت اور ماحولیاتی آلودگی میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ غیر معمولی حرارت کے اضافے کے باعث برف کا پگھلاﺅ عروج پر ہے اسی طرح دریاﺅں کا پانی بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے آس پاس کی آبادیوں کو سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح وہاں کے لوگوں کو بھاری نقصان پہنچتا ہے۔ دنیا بھر میں گرمیوں کا سلسلہ جلد شروع ہوتا ہے اور ان گرمیوں کا دورانیہ لمبے عرصے تک برقرار رہتا ہے اس طرح سردیوں کم ہی ہوتی ہےں جسکی وجہ سے برفباری کی شرح میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اسی طرح گلیشیئرز کے جمنے کا بھی کم ہی امکان ہوتا ہے جہاں گلیشیئرز پائے جاتے ہیں وہ علاقے کافی ٹھنڈے ثابت ہوئے ہیں اب گرمیوں کی شدت کی وجہ سے ان گلیشیئرز کا پگھلاﺅ بہت جلد ہوکر پانی کے بہاﺅ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔موسمیاتی تبدیلیاں اور اس کے اثرات دنیا بھر میں دیکھے جا سکتے ہیں اور گلگت بلتستان بھی ان اثرات سے محفوظ نہیں ہے۔ جرنل آف نیچرل سائنس ایڈوانسز کے گزشتہ سال کے شمارے کے مطابق موسمیاتی تبدیلیاں ہمالیائی گلیشیئرز کو کھا رہی ہیں۔ اہم خطرہ یہ ہے کہ یہ پگھلتے ہوئے گلیشیئر جھیلوں اور ندیوں میں جمع ہو گئے ہیں جو باہر بہہ سکتے ہیں اور سیلاب کا باعث بن سکتے ہیں۔درجہ حرارت میں اضافہ تیزی سے گلیشیئر پگھلنے کا باعث بنتا ہے، جس کے نتیجے میں سیلاب اور برفانی جھیلیں پھوٹ پڑتی ہیں۔ مستقبل میں گلیشیل لیک آﺅٹ برسٹ فلڈز مزید گلیشیئرز پگھلنے سے اور بھی تباہ کاریاں متوقع ہیں ۔ پگھلتے ہوئے گلیشیئرز پورے گلگت بلتستان میں سیلاب کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایسے خطرے سے دوچار خطے میں موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کی وجہ سے، بہت سے لوگوں کے پاس دوسرے شہروں میں منتقل ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوگی۔ بہت سے مقامی لوگ روزگار کے مواقع کی کمی کی وجہ سے پہلے ہی شہروں کا رخ کر رہے ہیں، جس سے میٹروپولیٹن شہروں پر زیادہ دباﺅ پڑتا ہے جو پہلے ہی اپنی گنجائش سے زیادہ لوگوں کی میزبانی کر رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ تمام سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ مٹی کے کٹاﺅ کا باعث بنتے ہیں۔اس سے درختوں کی کٹائی اور پودوں کے نقصان سے زرخیز مٹی اور زیر زمین یا اوپر والی مٹی کا نقصان ہوتا ہے، جس سے مقامی زراعت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔گزشتہ چند سالوں سے گلیشیئرز کے پگھلاﺅ میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے جس سے دریائے سندھ کے پانی میں اضافہ بھی محسوس کیا گیا۔ جس کے نقصانات کافی حد تک پریشان کن ہیں۔گلوبل وارمنگ جو آج کا سب سے بڑا سنگین مسئلہ ہے جسکی وجہ سے بارشوں میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ پہاڑی علاقوں میں برفباری کا دورانیہ بہت قلیل ہوتا جارہا ہے۔ برفباری کے اس کم دورانیے کی وجہ سے برف گلیشیئرز میں زیادہ عرصے تک نہیں رکتی جسکی بدولت گلیشیئرز میں اضافہ کے بجائے کمی لاحق ہوتی ہے۔ ان دونوں بدلتے ہوئے موسموں کی وجہ سے گلیشیئرز کے پگھلاﺅ کا شدید سامنا ہے۔ جس کے بدلے میں پانی کے بہاﺅ میں اضافہ ہوکر ارد گرد کے علاقوں میں سیلاب کا خدشہ ہے جس پر علاقہ مکےن شدید اور بھاری نقصان کی زد میں آتے ہیں شدید پانی کے بہاﺅ کی وجہ سے زمینی کٹاﺅ بھی ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان کے اکثر و بیشتر علاقوں میں بڑی تعداد میں گلیشیئرز پائے جاتے ہیں جو انتہائی کارآمد اور اہم ہیں۔ گلگت بلتستان میں سردیوں کے دوران لوگ لکڑی کا استعمال کرتے ہیں جس کے باعث کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہوتا ہے جس سے ماحول تباہی کا شکار ہوتا ہے اسکے علاوہ جنگلات کا کٹاوو عروج پر ہے جو سب سے بڑا سنگین مسئلہ ہے کیونکہ جنگلات کے بے تحاشا کٹاﺅ کے باعث ماحولیاتی آلودگی میں دن بہ دن اضافہ ہوتا ہے۔ لوگ جوق در جوق جنگلات کی کٹائی میں اضافہ کرتے ہیں مگر اس کے بدلے میں نئے جنگلات نہےںاگاتے۔گلوبل وارمنگ کے باعث درجہ حرارت میں آنے والی تغیرات سے گلیشیئرز کے پگھلاﺅ کا عمل تیز ہوتا ہے ان وجوہات کے باعث بہت سے سنگین خطرات ابھر کر سامنے آتے ہیں جن میں لینڈ سلائڈنگ، زلزلے اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث گلیشیئرز کا اپنی جگہ سے سرکنا یا برفیلے تودوں کا زمین پر گرنا شامل ہیں۔ جن کی وجہ سے مکےنوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔گزشتہ آدھی صدی میں اس علاقے میں گلےشیئر جھیلوں سے نقصان کے کئی واقعات ریکارڈ کیے جا چکے ہیں۔ موسمی تبدیلی کے باعث گلیشیئر جھیلوں میں تواتر سے اضافہ ہو رہا ہے اور اگر بروقت ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش مل کر دنیا کا سب سے بڑا پہاڑی سلسلہ بناتے ہیں جوکہ گلگت جگلوٹ کے مقام پر آکر ملتے ہیں ان پہاڑی سلسلوں کو دنیا کا سب سے بڑا برف کا ذخیرہ مانا جاتا ہے اور یہ پہاڑی سلسلے ایشیاکے سات بڑے دریائی نظام کے ذریعے اربوں لوگوں کی خوراک کا وسیلہ ہیں لہدا ان کے تحفظ کا اہتمام بہت ضروری ہے۔ انٹر نیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماونٹین ڈویلپمنٹ کی اےک رپورٹ کے مطابق ایشیا کے کوہ ہندو کش ہمالیہ کے گلیشئرز ، جن میں پاکستانی گلیشئیرز بھی شامل ہیں ،رواں صدی کے آخر تک اپنے پچھہترفی صد حصے سے محروم ہو جائیں گے۔جس کے نتیجے میں ان علاقوں کے لوگوں کو تباہ کن سیلابوں اور پانی کی قلت کا سامنا ہوگا۔ گلیشیئر ز کے تیزی سے پگھلنے کی سب سے بڑی وجہ کاربن گیسوں کے اخراج میں اضافہ ہے جس کے سبب عالمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ گرمیوں میں گلیشئیر ز پگھلنے سے ہونے والی کمی عموما برف باری کے موسم میں پوری ہوجاتی ہے لیکن اگر برف باری ناکافی اور درجہ حرارت بھی بلند رہے تو گلیشیئر پر برف کی کمی برقرار رہتی ہے ۔ ہوا کی آلودگی اور کاربن کے جمع ہونے سے گلیشئیر کے پگھلاﺅ میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر گلیشیر پر موجود ہوا کے خاکی ذرات کی مقدار بڑھ جائے تو اس کے نتیجے میں بھی برف پگھلنے کی رفتار بڑھ جاتی ہے ۔پاکستان میں چھوٹے بڑے گلیشیئرز کی زےادہ تعداد سطح سمندر سے 5000 میٹرز کی بلندی پر ہے ۔ےہ انکشاف ےقےنا خوش کن ہے کہ پاکستان میں 7000 کے بجائے 13023 گلیشےئرز ہیں ہم انہےں دنےا کے لےے سےاحت کا درےعہ بنا سکتے ہےں ۔