غلام رسول انصاف
گلگت بلتستان میں بطور چیف سیکرٹری جناب محی الدین احمد وانی کی تعیناتی یہاں کے عوام کے لئے انتہائی نیک شگون اور تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی ہے۔ خطہِ امن کو بڑے عرصے بعد ایک مخلص، دیانتدار اور درد دل رکھنے والا سرکاری آفیسر نصیب ہوا ہے جسں نے چیف سیکرٹری کا اعلیٰ منصب سنبھالتے ہی یہاں کے سرکاری اداروں کی ہمہ گیر اصلاح کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ جناب چیف سیکرٹری نے مختصر عرصے میں مختلف سرکاری محکموں میں ہنگامی بنیادوں پر بہت سے اصلاحی اور انقلابی اقدامات اٹھائے ہیں۔ جن کے ثمرات علاقے کے تمام ضلعوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ آپ نے خاص طور پر تعلیم اورصحت کے انتہائی اہم شعبوں کی اصلاح کو اپنا نصب العین بنایا ہوا ہے۔ امید ہے اگر انہیں اپنے ویژن کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کم از کم ایک دو سال یہاں خدمت کا موقع دیا جائے تو وہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے سرکاری محکموں میں دور رس انقلابی اصلاحات نافذ کر کے ان کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔ جناب چیف سیکرٹری اور قراقرم کوآپریٹو بنک کے جنرل منیجر نے سیاحت کے فروغ کے لئے کام کرنے والی شخصیات اور اداروں کے لئے آسان شرائط پر قرضوں کی منظوری دی ہے جو نہایت مستحسن اقدام ہے۔ اس سے گلگت بلتستان کے گمنام گوشوں، جنت نظیر وادیوں اور فلک بوس پہاڑوں کو ملکی و عالمی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنانے میں بڑی مدد ملے گی۔تعلیم کے شعبے میں علاقے کی نوجوان نسل کی رہنمائی کے لئے حال ہی میں گلگت میں منعقد کردہ فقید المثال کیرئیر فیسٹیول ان کی تعلیم دوستی اور ترقی پسند نظریات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے گلگت بلتستان کے باصلاحیت نوجوانوں کو ملک کے مختلف تعلیمی اداروں میں اعلی تعلیم کے حصول کے لئے قراقرم کوآپریٹو بنک کی وساطت سے آسان شرائط پر قرضہ دینے کے لئے ایک خطیر رقم بھی مختص کی ہے۔ اس سے معاشی مشکلات کے شکار نوجوانوں کو ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم کے ارزاں مواقع میسر آئیں گے۔ علاقے کے سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی کمی کا دیرینہ مسئلہ حل کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر نئے اساتذہ کی تقرری عمل میں لائی گئی ہے۔ سکولوں کو سائنس وٹیکنالوجی کی سہولیات سے آراستہ کرنے کے لئے تمام ضلعوں کے بڑے ہائی سکولوں میں فوری طور پر کمپیوٹر لیب کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ میٹرک اور انٹر کے امتحانات میں نمایاں نمبر لینے والے طلبا و طالبات کی حوصلہ افزائی کے لئے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ اسلام آباد کے مختلف سرکاری عمارات کا تعلیمی دورہ اور اہم قومی شخصیات سے ان کی ملاقات کا اہتمام بھی ان کی بصیرت، دور اندیشی اور جدت پسندی کا مظہر ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کو پرائیویٹ سکولوں کے مقابل لانے اور سرکاری اساتذہ کی جدید طرز پر تربیت اور ان کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کر کے سزا و جزا کا ایک قابل عمل طریقہ کار وضع کرنے کا ان کا عزم بھی انتہائی قابل ستائش ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ انہیں ان نیک مقاصد میں کامیاب کرے۔ ضرورت اس امر کی ہمارے تمام سیاسی رہنما اپنے ذاتی اور گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر ان انقلابی اصلاحات کو پایہِ تکمیل تک پہنچانے میں جناب چیف سیکرٹری کے ساتھ بھرپور تعاون کریں اور بیوروکریٹس اور تمام محکموں کے سربراہان بھی ان اصلاحی اقدامات کو عملی جامہ پہنانے میں ان کے شانہ بشانہ کام کریں۔ سرزمین امن ضلع گنگچھے کے ایک فرزند کی حیثیت سے ہم جناب چیف سیکرٹری اور دیگر متعلقہ حکام اور یہاں کے سیاسی نمائندوں کی توجہ اس دور افتادہ ضلعے کے چند توجہ طلب مسائل کی طرف مبذول کرنا چاہیں گے۔ چند ماہ قبل جناب چیف سیکرٹری نے ضلع گنگچھے کا دورہ کر کے یہاں کے مسائل کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی یقین دہانی کرائی اس سے کہاں کے بہت سے شعبوں میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی۔ تاہم بہت سارے مسائل اب بھی ان کی توجہ کے منتظر ہیں۔ سب سے پہلے یہاں کے تعلیمی نظام کی اصلاح وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لئے محکمہ تعلیم ضلع گنگچھے اپنے طور پر بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔ تاہم کچھ بنیادی مسائل ایسے ہیں جو حکام بالا کی توجہ کے طالب ہیں۔ ضلع گنگچھے کے بہت سے سکول اس جدید دور میں پینے کے پانی، واش روم، اور حفاظتی چاردیواری جیسی بنیادی سہولیات سے یکسر محروم ہیں۔ سفری سہولیات کے فقدان کے پیش نظر یہاں کے اکثر سکول سرکاری منظوری کے بغیر مڈل اور ہائی کلاسز چلانے پر مجبور ہیں۔ درجنوں سکولوں کا پی سی فور پچھلے کئی سالوں سے منظوری کا منتظر ہے۔ اگر ان کے پی سی فور کی بروقت منظوری دی جائے تو بہت سے دیہاتوں میں عمارات اور اساتذہ کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ بہت سی عمارات تیار ہونے کے باوجود سرکاری منظوری نہ ملنے کی وجہ سے کئی کئی سالوں سے بے کار پڑی ہوئی ہیں۔ سکولوں میں مفت کتابوں کی تقسیم کا مسئلہ بھی اساتذہ اور طلبا کے لئے درد سر بنا ہوا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات لگایا جا سکتا ہے کہ سال کا نواں مہینہ شروع ہو چکا ہے اور رواں تعلیمی سال کو ختم ہونے میں صرف دو ڈھائی مہینے رہ گئے ہیں لیکن کتابوں کی تقسیم کا عمل ابھی تک مکمل نہیں ہوا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ کچھ کلاسوں کی درسی کتابیں بھی تبدیل ہو گئی ہیں۔ سب سے زیادہ قابل رحم حالت یہاں کے پرائمری سکولوں کی ہے۔ جن کو چن چن کے علاقے کے کم تربیت یافتہ اساتذہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ستم ظریقی یہ ہے کہ تقریباً نوے فیصد پرائمری سکولوں میں صرف ایک یا دو اساتذہ متعین ہیں۔ جو چار پانچ کلاسوں کو پڑھاتے ہیں۔ جس سے تعلیمی سفر کے آغاز میں ہی معصوم بچوں کی فطری تخلیقی صلاحیتیں زنگ آلود ہو رہی ہیں۔ لہٰذہ ہماری جناب چیف سیکرٹری اور محکمہ تعلیم کے حکام بالا سے گزارش ہے کہ ہائی سکولوں کے ساتھ ساتھ تھوڑی سی توجہ پرائمری سکولوں پر بھی دی جائے۔ اگر پرائمری سطح پر ہی بچوں کی معیاری تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا جائے تو مڈل اور ہائی سکولوں کا معیار خود بخود بہتر ہو جائے گا۔ لیکن اگر آغاز سفر میں ہی بچوں کو اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانے کے قابل نہ بنایا جائے تو ہائی سکول تک پہنچتے پہنچتے تعلیم میں ان کی دلچسپی ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ جب پرائمری سکول کا فرسودہ نظام ہی انہیں تعلیم سے بیزار کر دے تو ہائی سکول میں بہم پہنچانے والی تمام سہولیات اور وسائل ان کے لئے بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ امید ہے کہ جناب چیف سیکرٹری اپنے اصلاحی ایجنڈے میں ضلع گنگچھے کے پرائمری سکولوں کو بھی ضرور شامل کریں گے۔تعلیم کی طرح صحت کے شعبے میں بھی ضلع گنگچھے شدید بحران کا شکار ہے۔ ضلع کا واحد مرکز صحت خپلو کا ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ہے۔ جہاں دور دراز سے روزانہ کی بنیاد سینکڑوں مریض علاج کے لئے آتے ہیں۔ لیکن اس میں ہر وقت ڈاکٹروں اور دیگر طبی سہولیات کی کمی کا سامنا رہتا ہے۔ گو کہ موجودہ انتظامیہ ہسپتال کے نظام کو بہتر سے بہتر بنانے میں کوشاں ہے۔ لیکن ضلع کا واحد مستند ہسپتال ہونے کی وجہ سے یہاں وسائل اور سہولیات اب بھی ناکافی ہیں۔ خاص طور پر خواتین کے لئے کسی مستقل گائناکالوجسٹ کے نہ ہونے سے یہاں کی غریب خواتین ایمرجنسی کیسز میں بھی کئی سو میل کا سفر طے کر سکردو جانے پر مجبور ہوتی ہیں۔ گائناکالوجسٹ کا بحران گزشتہ ایک دو سالوں میں ہی کئی قیمتی جانوں کے ضیاع کا باعث بنا ہے۔ جی بی حکومت نے کئی سال قبل اس ہسپتال کو 30 سے بڑھا کر 50 بستروں کی سہولت دینے کی منظوری دی تھی تاہم ابھی تک اس کا پی سی فور منظور نہیں ہوا ہے۔ اور یہاں 30 بستروں کی سہولیات بھی پوری نہیں ہیں۔ ضلع گنگچھے کا ایک انتہائی اہم مسئلہ بجلی اور پانی کا ناقص نظام ہے۔ خاص طور ضلعی ہیڈکورٹر خپلو میں پینے کے پانی کا بحران دن بہ دن شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ یہاں رہنے والے غریب لوگوں میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس کے گھر میں پینے کا صاف پانی آتا ہو۔ پچھلے کءسالوں میں اس بحران کو حل کرنے کے لئے بہت سے منصوبے رکھے گئے۔ لیکن یہ پیچیدہ مسئلہ ابھی تک جوں کا توں ہے۔ زندگی کی سب سے بنیادی ضرورت پانی کے اس بحران کو حل کرنے کے لئے اعلی سطح پر ایک بڑے اور طویل المیعاد منصوبے کی ضرورت ہے۔ تاکہ شہر میں رہنے والے امیر غریب سب کو برابری کی بنیاد پر پینے کا صاف پانی میسر ہو۔ ہم امید کرتے ہیں کہ جناب چیف سیکرٹری حسب وعدہ جلد اس پسماندہ ضلع کا دوبارہ دورہ کر کے ان بنیادی مسائل کی طرف بھی اپنی نظر کرم ضرور فرمائیں گے۔ ہم ضلع گنگچھے کے متعلقہ محکموں کے ذمہ دار حکام اور عوامی نمائندوں سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ وہ بھی ضلع کے ان بنیادی مسائل کے حل کے لئے تعمیری کردار ادا کریں گے۔