بجلی کے نرخوں میں کمی کی امید

0

عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے کیپٹیو پاور پلانٹس پر لیوی سے حاصل ریونیو کی مد میں بجلی ٹیرف میں ایک روپے فی یونٹ کمی پر اتفاق کیا ہے، تمام صارفین کو بجلی کی قیمتوں میں کمی کا ریلیف ملے گا۔آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے بجلی صارفین کے لیے ریلیف پیکیج پر بھی کام جاری ہے، آئی ایم ایف کی منظوری سے پیکیج کا اعلان کیا جائے گا۔آئی ایم ایف ذرائع کے مطابق کیپٹو پاور پلانٹس پر عائد کی گئی لیوی سے حاصل آمدنی کی مد میں بجلی کی قیمت میں ایک روپے فی یونٹ کمی کا ریلیف صارفین کو دینے پر اتفاق کیا گیا ہے۔صدر مملکت کیپٹوپاور پلانٹس پر بیس فیصد تک لیوی لگانے کے لیے گزشتہ ماہ آرڈیننس جاری کرچکے ہیں اور پہلے مرحلے میں پانچ فیصد لیوی بھی عائد کی گئی ہے۔ آئی ایم ایف نے پراپرٹی سیکٹر کے ٹیکس کم کرنے پر اتفاق نہیں کیا، تاہم پراپرٹی سیکٹر کی ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ زرعی ٹیکس کی وصولی کا اطلاق یکم جنوری 2025 سے کیا جانا ہے،آئی ایم ایف کے مطابق ایف بی آر کے ٹیکس ٹارگٹ کو کم نہیں کیاجائے گا، کلائیمٹ فنڈز کے ایک ارب 30 کروڑ ڈالرز قرض پروگرام سے مشروط ہوں گے، کاربن لیوی کا اطلاق وہیکلز پالیسی کے تحت کیا جاسئیگا اور کاربن لیوی یکم جولائی سے نافذ العمل کی جا سکتی ہے۔دوفوری کو وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کی ایک اور شرط پوری کر دی تھی، کیپٹو پاور پلانٹس پر مرحلہ واربیس فیصدتک لیوی لگے گی، صدرمملکت نے کیپٹو پاور پلانٹس پر لیوی عائد کرنے کے لیے آرڈیننس کی منظوری دے دی تھی۔اس آرڈیننس کے تحت کیپٹو پاور پلانٹس پر مرحلہ واربیس فیصد لیوی عائد کی جائے گی، فوری طور پرپانچ فیصد نافذالعمل ہوگئی، کیپٹو پاور پلانٹس پر جولائی 2025 میں لیوی کی شرح دس فیصد اور فروری 2026 میں 15 جبکہ اگست 2026 میں کیپٹو پاور پلانٹس پر لیوی 20 فیصد ہو جائے گی۔پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ نے اسٹاف لیول ایگریمنٹ کے تحت نئی کاربن لیوی متعارف کرانے، بجلی کے نرخوں میں کمی، پانی کی قیمتوں میں اضافے اور آٹوموبائل سیکٹر کو عالمی تجارت کے لیے کھولنے پر اتفاق کیا ہے۔اس طرح پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی امداد کا مجموعی حجم آٹھ ارب تیس کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔یہ معاہدہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے، منظوری کے بعد پاکستان کو ای ایف ایف کے تحت تقریبا ایک ارب ڈالر تک رسائی حاصل ہو جائے گی، جس کے بعد اس پروگرام کے تحت مجموعی طور پر دوارب ڈالر پاکستان کو موصول ہوجائیں گے۔اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کی یادداشت سے متعلق ایس ایل اے سے واقف سینئر عہدیداروں نے بتایا کہ وزیر اعظم کی جانب سے بجلی کے اوسط نرخوں میں تقریبا سات روپے فی یونٹ کمی کا اعلان چند دنوں میں کیا جائے گا، لیکن اس کا اطلاق یکم اپریل 2025 سے ہوگا۔کاربن لیوی، پانی کی قیمتوں اور آٹوموبائل پروٹیکشن ازم جیسے دیگر بڑے اقدامات بتدریج کیے جائیں گے، جن پر عمل درآمد یکم جولائی 2025 سے شروع ہوگا۔توانائی کی سبسڈی میں کمی اور سخت ترقیاتی اخراجات کے ذریعے آئندہ بجٹ میں مجموعی طور پر مالی استحکام جاری رہے گا۔ حکومت نے لاگت کو کم کرنے کے لیے بجلی پر جی ایس ٹی کی شرح میں کمی کی درخواست کی تھی، آئی ایم ایف نے جی ایس ٹی کے نظام میں مزید بگاڑ کی اجازت نہیں دی، لیکن بجلی کے نرخوں کی تلافی کے لیے زیادہ پیٹرولیم لیوی کے استعمال کی اجازت دی۔پیٹرولیم لیوی میں دس روپے فی لیٹر اضافے سے تقریبا ایک روپے 80 پیسہ فی یونٹ بجلی کا تخمینہ لگایا گیا تھا، بجلی کی خریداری کے تمام معاہدوں اور زیر التوا سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ سے ہونے والی بچت کے مشترکہ اثرات کا مطلب ہے کہ مجموعی نرخوں میں تقریبا سات روپے فی یونٹ کمی ہوگی، جس کا اعلان وزیر اعظم اپنی پسند کی تاریخ پر کریں گے۔حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات اور کوئلے سمیت تمام ہائیڈرو کاربن پر کاربن لیوی متعارف کرانے کا وعدہ کیا ہے، جو تین سے پانچ روپے فی لیٹر یا اس کے مساوی ہوگی، یہ لیوی آہستہ آہستہ بڑھے گی، اور اس کی آمدنی ماحولیات سے متعلق مخصوص اخراجات کی مد میں خرچ کی جائے گی۔مالی سال 2030 سے آٹوموبائل سیکٹر کے لیے اوسط تجارتی ٹیرف کو بھی اب سے تقریبا 10.5 فیصد سے کم کرکے چھے فیصد کردیا جائے گا، آئی ایم ایف اور حکام دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ آٹو سیکٹر کو طویل عرصے سے بہت زیادہ تحفظ حاصل تھا اور یہ ختم ہونا چاہیے۔ان دونوں اقدامات کی کابینہ کی منظوری آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کی جائے گی، اور پھر فنانس بل 26’2025 کے ذریعے یکم جولائی 2025 سے عمل درآمد کے لیے پیش کیا جائے گا، ذرائع کا کہنا ہے کہ پانی کی قیمتوں کی منظوری بھی صوبوں کی مشاورت سے دی جائے گی اور اس سے علیحدہ طور پر دیکھا جائے گا۔آئی ایم ایف نے چیلنجنگ عالمی ماحول کے باوجود میکرو اکنامک استحکام کی بحالی اور اعتماد کی بحالی میں گزشتہ 18 ماہ کے دوران پاکستان کی نمایاں پیش رفت کو سراہا۔اگرچہ معاشی نمو معتدل ہے، افراط زر 2015 کے بعد سے اپنی کم ترین سطح پر آگیا ہے، مالی حالات میں بہتری آئی ہے، خودمختار ی کے پھیلائومیں نمایاں کمی آئی ہے اور بیرونی توازن مضبوط ہے۔عالمی مالیاتی فنڈ نے بڑھتے ہوئے منفی خطرات پر بھی روشنی ڈالی، اور ممکنہ میکرو اکنامک پالیسی میں کمی کے خلاف متنبہ کیا، جس کی وجہ سے پالیسیوں میں نرمی کے دبا کے ساتھ ساتھ اجناس کی قیمتوں میں جغرافیائی سیاسی مسائل، عالمی مالیاتی حالات سخت ہونے، یا بڑھتی ہوئی تحفظ پسندی، جو مشکل سے حاصل کردہ میکرو اکنامک استحکام کو کمزور کر سکتی ہے۔ماحولیات سے متعلق خطرات پاکستان کے لیے اہم چیلنج ہیں، جس کی وجہ سے موافقت کے اقدامات سمیت لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران حاصل ہونے والی پیش رفت کو جاری رکھا جائے، پبلک فنانس کو مزید مستحکم کرکے لچک پیدا کی جائے، قیمتوں میں استحکام کو یقینی بنایا جائے، بیرونی بفرز کی تعمیر نو کی جائے اور نجی شعبے کی قیادت میں مضبوط، جامع اور پائیدار ترقی کی حمایت میں خرابیوں کو ختم کیا جائے۔حکام مالی سال 25 میں جی ڈی پی کے کم از کم ایک فیصد کے بنیادی سرپلس کے حصول کی راہ پر گامزن ہیں اور مالی سال 26 کے بجٹ میں استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔ موجودہ اخراجات کو بجٹ سے زیادہ بڑھانے سے گریز کرتے ہوئے حکومت توانائی کی سبسڈی میں مزید کمی کرے گی اور ترقیاتی اخراجات کو ترجیح دے گی۔حکومت محصولات کو متحرک کرنے، اخراجات کی کارکردگی اور شفافیت میں اضافہ جاری رکھے گی، اور ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرے گی۔ صوبوں میں زرعی انکم ٹیکس کے نظام کا اطلاق یکم جولائی 2025 سے ہوگا اور مالی سال 26 میں زیادہ سے زیادہ مالی منتقلی کو یقینی بنایا جائے گا۔پاکستان نے اعداد و شمار کی بنیاد پر مناسب سخت مانیٹری پالیسی برقرار رکھنے کا بھی عہد کیا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ افراط زر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے درمیانی مدت کے ہدف پانچ سے سات فیصد کے اندر برقرار رہے اور ایف ایکس ریزرو بفرز کی تعمیر نو کرتے ہوئے ایکسچینج ریٹ لچک کی حمایت کرنے کے لیے مکمل طور پر فعال غیر ملکی زرمبادلہ مارکیٹ کو برقرار رکھا جائے۔توانائی کے شعبے میں لاگت میں کمی لانے والی بنیادی اصلاحات قابل عملیت میں اضافہ اور کم ٹیرف کو جاری رکھیں گی، سیکٹر کے گردشی قرضوں کے اسٹاک اور بہائو کو کم کرنے کے لیے ٹیرف ایڈجسٹمنٹ ترجیح رہے گی، حکومت لاگت سے متعلق اصلاحات میں تیزی لائے گی، جن میں ڈسٹری بیوشن کی استعداد کار کو بہتر بنانے، بجلی کو بجلی کے گرڈ میں ضم کرنے، ٹرانسمیشن سسٹم کو بہتر بنانے، غیر موثر پیداواری کمپنیوں کی نجکاری اور قابل تجدید توانائی کو اپنانے جیسے اقدامات شامل ہیں۔حکومت تمام ایس او ایز میں ایس او ای گورننس فریم ورک کو مکمل طور پر نافذ کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو آگے بڑھائے گی، جب کہ پاکستان ساورن ویلتھ فنڈ کے لیے مناسب گورننس میکانزم اور حفاظتی اقدامات اپنائے گی۔آر ایس ایف کے تحت حکومت ہر سطح پر عوامی سرمایہ کاری کے عمل کو مضبوط بنائے گی تاکہ ایسے منصوبوں کو ترجیح دی جاسکے جو آفات سے نمٹنے میں اضافہ کرتے ہیں۔پانی کے نایاب وسائل کے استعمال کی کارکردگی کو بہتر بنانا، ڈیزاسٹر فنانسنگ پر بین الحکومتی کوآرڈینیشن کو بڑھانا، معلومات کے فن تعمیر کو بہتر بنانا، مالی اور کارپوریٹ ماحولیات سے متعلق خطرات کے انکشاف، اہم آلودگی اور صحت کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے سبز نقل و حرکت کو فروغ دیا جائے گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف کے ساتھ عملے کی سطح کے معاہدے کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ اضافی ٹیکس اقدامات کی ضرورت کے بغیر حاصل کیا گیا، جو حکومت کے عزم اور منصوبہ بندی کا ثبوت ہے۔انہوں نے معاشی استحکام کے حصول کے عمل کے دوران قیمتوں میں اضافے کا بوجھ اٹھانے والے عوام کو درپیش مشکلات کا اعتراف کیا، انہوں نے تنخواہ دار افراد کو بھی خراج تحسین پیش کیا جنہوں نے ٹیکس وصولی میں بڑا حصہ ڈالا۔ حکومت کو آئی ایم ایف سے ایک ارب تیس کروڑ ڈالر ملیں گے جس سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر آٹھ ارب تیس کروڑ ڈالر تک بڑھ جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں