گلگت (سٹاف رپورٹر)پشتنی باشندگان گلگت اپنے حقوق کے حصول اور ملکیت کے تعین کے لیے جرگے اور مذاکرات کے لئے تیار ہیں بارگو پائین والے ہمارے بھائی ہیں۔ ہم ان کی ملکیتی ایک انچ زمین لینے کا سوچ بھی نہیں سکتے نہ ہی اپنی ایک انچ زمین چھوڑ سکتے ہیں۔ دستاویزات اور ثبوتوں کے زریعے ہم اپنی ملکیت اور حدود کو ثابت کرینگے۔ تنظیم تحفظ حقوق پشتی باشندگان گلگت کے صدر شمشاد علی اور دیگر رہنماں نے عمائدین گلگت کے ہمراہ سنٹرل پریس کلب گلگت میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت کی تاریخی چراگاہ،تھول داس بالمقابل بینزل گلگت پر غیر مقامی اور غیر کیھوٹ دار افراد کی جانب سے غیر قانونی قبضہ کیا گیا ہے جس کی پشت پناہی بعض مقامی مافیاز کر رہے ہیں۔ مذکورہ چراگاہ جو کہ زمانہ قدیم سے اہلیان گلگت کی ملکیتی سرمائی چراگاہ ہے۔ اس پر غیر قانونی پلاٹ بندی کی گئی ہے درخت لگائے گئے ہیں اور بعض مقامات پر دیواربندی بھی کی گئی ہے۔انھوں نے کہا کہ اگست 2019 میں اس وقت کے ڈپٹی کمشنر نے ایف سی رینجرز اور گلگت اسکاٹس کی مدد سے قابضین کو بے دخل کرنے کی کوشش کی تھی مگر بعد ازاں آنے والے افیسران کی قانونی کوششوں کے باوجود اب تک اراضی واہگزار نہ کرائی جا سکی۔پریس کانفرنس میں عمائدین گلگت نے 1936 کے کشمیر سٹیٹ کے سرکاری ریکارڈ اور 1917 کی ایک مستند دستاویز کا حوالہ دیتے ہوئے دعوی کیا کہ تھول داس اور اس سے ملحقہ چراگاہی اراضی صدیوں سے گلگت کے باسیوں کی ملکیت رہی ہے اور بارگو پائین کی حدود تھول داس تک محدود ہیں۔انھوں نے بارگو پائین کے اس دعوے کو مسترد کیا کہ ان کی حدود قراقرم یونیورسٹی تک پھیلی ہوئی ہیں۔انھوں نے کہا کہ ایسے دعوں کی کوئی مصدقہ دستاویزات موجود نہیں اور کشیرو داس و کنوداس سے مبینہ چراگاہی “ماری” حاصل کرنے کے شواہد بھی دستیاب نہیں بلکہ بزرگوں کے مطابق یہ علاقے ایک طویل عرصہ تک غیر آباد رہے ہیں پریس کانفرنس میں تمام متاثرہ بستیوں کے رہنماں کو دعوت دی گئی کہ وہ مل بیٹھ کر باہمی افہام و تفہیم کے ذریعے بالخصوص جرگہ کے روایتی نظام کے تحت اس مسئلے کو حل کریں انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ اقدام تمام بستیوں کے اتحاد یگانگت اور حقوق کے تحفظ میں ایک پل کا کردار ادا کرے گا۔ اطلاعات کے مطابق مذکورہ چراگاہی اراضی بار گو پائین کے چند مافیا نے تھول داس میں مقیم غیر کھیوٹ دار غیر مقامی افراد کے ہاتھوں فروخت کیا ہے۔ عمائدین گلگت بے موقع پر ملاحظہ کیا اور حقیقت حال واضح ہو گئی کہ مافیا کے افراد نے مذکورہ چرا گا ہی اراضی کی پلاٹ بندی کر کے غیر کھیوٹ داروں کو غیر قانونی طور پر فروخت کیا ہے جنہوں نے وہاں پر درخت لگائے ہیں اور پلاٹوں کی ایک حد تک دیوار بندی بھی کی ہے۔ مذکورہ اراضی سے غیر قانونی قابضین کو انخلا کرانے اگست 2019 میں اس وقت کے ڈی سی نے ایف سی ، رینجرز اور گلگت سکاٹس کی نفری طلب کی تاکہ مذکورہ اراضی کو واگزار کرایا جاسکے۔۔ مذکورہ DC صاحب کے تبادلہ کے بعد یکے بعد دیگرے دیگر ڈی سی صاحبان نے فیصلہ پر عملدرآمد کرانے کے لئے قانونی دائرہ میں رہتے ہوئے کوششیں کیں لیکن بوجوہ تا ایں دم اراضی مذکور واہگزار نہ کرائی جاسکی۔بار گو پائین کے حدود کھول داس تک محدود ہیں جس کے ثبوت کے طور پر 1936 کا کشمیر سٹیٹ کا مرتب شدہ دستاویز موجود ہے جس کے تحت غمک لاٹ ، جرالی سے 5.5 میل بار گو پائین کے حدود ہیں جو کہ بمشکل تھول داس کے آغاز تک محدود ہوتے ہیں۔ اس سے قبل کشمیر سینٹ کا ایک مستند دستاویز مرتب 1917 کے تحت سالم حالی اہلیان گلگت کی چراگاہی اراضی ہے۔حالیہ دنوں میں بار گو پائین کے چند عمائدین نے ایک پریس کانفرنس میں یہ دعوی کیا کہ ان کے حدود قراقرم یونیورسٹی تک پھیلے ہوئے ہیں یہ ایک دعوی ہے جس کے لئے ان کے پاس کوئی دستاویزی ثبوت نہیں نیز یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ انہوں نے کشیر و داس و کنو د اس سے چرواہوں سے ماری حاصل کی ہے اس بات کے بھی شواہد موجود نہیں بلکہ ہمارے بزرگوں کے کہنے کے مطابق بار گو اور شروٹ راجہ گو ہر امان کے حملوں کے باعث ایک طویل عرصہ تک غیر آباد رہے۔مختصر یہ کہ یہ کوئی بڑا تنازعہ نہیں ہے بلکہ اہلیان گلگت ، گلگت بلتستان کے دارالخلافہ میں مقیم ہونے کے باعث نیز ( گلیت ست مسکو ) کا مرکز ہونے کے حوالہ سے اس امر کے خواہشمند ہیں کہ ہم اپنے تنازعات باہمی افہام و تفہیم اور جرگہ کے ذریعہ حل کریں ۔ سئیں جگلوٹ ، حراموش بگروٹ ، نومل ، دنیور، مناور ، سکوار، برمس کھر ، پورہ بسین سے لے کر بار گوشروٹ شکیوٹ کے پشتنی باشندگان سب ہمارے بھائی ہیں اور ان بستیوں کے لائق اور ذمہ دار افراد کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ آئیں اور ان علاقوں کے تنازعات کو بذریعہ جرگہ حل کریں۔ ان تمام بستیوں کے عوام کے اتحاد و یگانگت نیز حقوق اور حدود کے حصول کے لئے یہ تنظیم ان شا اللہ ہمیشہ پل کا کردار ادا کریگی۔
دستاویزی ثبوت سے اپنی ملکیت اور حدود ثابت کریں گے، پشتنی باشندگان
- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل
