گلگت( نامہ نگار)وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان اور امجد حسین ایڈووکیٹ نے جمعرات کے روز گلگت میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ خالصہ سرکار کے کالے قانون کے باعث گلگت بلتستان کے عوام اپنی زمینوں کے مالکانہ حقوق سے محروم تھے۔ آج اللہ کے فضل و کرم سے ہمیں یہ توفیق ہوئی کہ ہم نے تمام جماعتوں کو ساتھ ملاکر اس کالے قانون کا خاتمہ کردیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ سابق حکومتوں نے بھی لینڈ ریفارمز بل پر کام کیا تاہم اس کو پائیہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکے۔ انہوں نے کہا ہے کہ لینڈ ریفارمز بل پاکستان پیپلز پارٹی کے انتخابی مہم کا منشور میں شامل تھا۔ الیکشن کے بعد جب تحریک انصاف کی حکومت بنی تب بھی امجد حسین ایڈووکیٹ نے بل ٹیبل کیا تھا تاہم اس وقت ماحول ساز گار نہیں تھا۔ انہوں نے کہا ہے کہ بل جب کابینہ سے پاس کیا تو کچھ اداروں کی طرف سے ری ایکشن آیا اور کچھ خامیوں کی نشاندھی کی گئی۔ بڑی رکاوٹ کے بعد ہماری قومی حکومت نے اس بل کو پاس کرکے عوام کو مالک بنادیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ قانون سازی کے لئے لوگوں سے پوچھا گیا ہوا۔ پاکستان کے دیگر صوبوں میں عوام کے منتخب نمائندے قانون سازی کرتے ہیں ہم منتخب نمائندے ہونے کے باوجود اس قانون سازی کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا بلکہ ان کی تجاویز بھی بل میں شامل کیں۔ وکلا کے ساتھ5گھنٹوں کی طویل بحث کے بعد وکلا نے بھی تسلیم کیا۔ آج مفاد پرست اور مافیاز ہمارے اوپر تنقید کرتے ہیں۔ اس قانون سازی کو خراب کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن ہم نے مخالفین کی گھنٹوں کی تقریریں اور گالیاں اس لئے تحمل سے سن لیا تاکہ عوامی مفاد کو نقصان نہ پہنچے۔ اس موقع پر رکن اسمبلی امجد حسین ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ نوتوڑ رول اور خالصہ سرکار کا قانون غیر اسلامی، غیر شرعی تھا جو ہمارے اسلامی قانون کے منافی تھا۔ اس قانون کو ختم کرنا ہم عبادت سمجھتے تھے جس میں اللہ کے کرم سے کامیاب ہوئے۔ انہوں نے لینڈ ریفارمز ایکٹ کی ایک ایک شق کی تفصیل سے تشریح کرتے ہوئے کہا ہے کہ قانون کے تحت قابل تقسیم اور ناقابل تقسیم تمام زمینوں کی مالک عوام ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون کے بننے سے لینڈ مافیاز کو پریشانی کا سامنا ہے۔ کیوںکہ لینڈ نے محکمہ مال کے پٹواریوں سے ملی بھگت کرکے غریبوں کی زمینوں کو ہڑپ کیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس قانون کے بننے سے بااثر لوگ متاثر ہوئے ہیں جو ملی بھگت سے زمینوں پر قبضے کرتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ ریونیو ریکارڈ کے مطابق جتنی زمین خالصہ سرکار تھی وہ عوام کی ملکیت میں آگئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوامی مفاد کے لئے مختص زمین ایک فیصد سے دس فیصد تک ہوسکتی ہے۔ اس پر بھی ملکیت عوام کی ہوگی۔ پہاڑ، جنگلات ، جھلیں، دریا ،ندی نالے انفرادی طور پر تقسیم نہیں ہوں گی بلکہ گائوں کے لوگ ان سے اجتماعی مفاد حاصل کریں گے۔ انہوں نے کہا ہے کہ گلگت شہر میں اگر گاوں کے پشتنی باشندوں سے زمین خریدی گئی ہے تو اس پر کوئی مسلہ نہیں لیکن اگر جعلی انتقالات والی زمین خریدی گئی ہے تو پھر ان کے خلاف اس قانون کے تحت کارروائی ہوگی۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ تقسیم کا طریقہ کار صرف بندوبستی اضلاع پر ہوگا۔ غیر بندوستی اضلاع اپنے قدیم رواج کے مطابق زمینیں تقسیم کرنے کے حقدار ہوں گے۔ انہوں نے آخر میں کہا ہے کہ اس قانون کے بعد گلگت بلتستان میں وزیر اعلی ، چیف سیکریٹری ، کلکٹر اور ڈپٹی کلکٹر کسی کو ایک کنال زمین انتقال نہیں کرسکتے ہیں۔ آج خالصہ سرکار کے ساتھ ساتھ الاٹمنٹ کا باب بھی بند ہوگیا۔
لینڈ ریفارمز پرتنقید کرنے والے مفاد پرست اور مافیا، وزیراعلیٰ
- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل
