اسمبلی اجلاس، لینڈ ریفارمز بل پر پھر لفظی جنگ، اپوزیشن کا بائیکاٹ

گلگت (نامہ نگار) لینڈ ریفارمز بل ایک بار پھر گلگت بلتستان اسمبلی میں زیر بحث رہا۔ شیخ اکبر رجائی نے شعرسنایا جبکہ سہیل عباس اور جاوید علی منوا نے ایک بار پھر بل پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ اپوزیشن رکن اسمبلی سید سہیل عباس نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لینڈ ریفارمز بل کے ثمرات گجر داس سے آنا شروع ہوچکے ہیں۔ امجد حسین ایڈووکیٹ کے عوام کو مالک بنانے کے بیان کے بعد لوگ زمین تقسیم کرنے گجر داس پہنچے تو ان پر مقدمہ درج کرکے حوالات میں ڈال دیا گیا۔ ہم نہیں چاہتے ہیں کہ عوام اور حکومت آمنے سامنے آئیںلیکن ہم حکومت سے کہنا چاہتے ہیں کہ آپ بل کی تشریح غلط انداز میں نہ کریں۔ امجد حسین ایڈووکیٹ اور وزرا اپنی تقاریر میں کچھ اور کہتے ہیں جبکہ بل میں کچھ اور لکھا گیا ہے۔ حکومت نے زمینوں کی تقسیم کا طریقہ کار دیا ہے اس سے موجودہ لوگوں کے پڑ پوتوں کو شاید زمین کے مالکانہ حقوق مل جائیں تو لوگوں کو بتایا جائے کہ آپ کے پڑ پوتوں کو زمین منتقل کی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ گوجر داس میں میڈیکل کالج کے لئے 1298 کنال زمین الاٹ کی گئی ہے۔ جبکہ میڈیکل کالج مناور منتقل کردیا گیا ہے۔ اس کے باوجود اس سے دس قدم آگے 700 کنال زمین دانش سکول کے لئے الاٹ کی گئی ہے۔ گانچھے میں وہی دانش سکول 200 کنال پر بن سکتا ہے تو گلگت میں 700 کنال کیوں؟ جب میڈیکل کالج مناور منتقل کیا گیا ہے تو پھر یہ 1198 کنال زمین کس کے لئے رکھی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشرکہ زمین (کامن لینڈ)کا لفظ اور اس کی تعریف کا سارا کریڈٹ سپیکر نذیر احمد ایڈووکیٹ کو جاتا ہے جس نے ہماری نشاندہی پر بل کا حصہ بنایا۔جس کے جواب میں وزیر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن حاجی رحمت خالق نے کہا کہ اپوزیشن عوام کو ورغلانا چاہتی ہے۔ عوام کو کس نے کہا ہے کہ قبل از وقت زمینوں کو تقسیم کریں۔ یہ اپوزیشن کی چال ہے کہ وہ عوام کو ورغلاکر حکومت سے لڑانا چاہتی ہے۔ جس پر اپوزیشن نے اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ایوان سے باہر چلے گئے۔ اپوزیشن کے بائیکاٹ کے باعث سپیکر نے اسمبلی اجلاس کو غیر معائنہ مدت کے لئے ملتوی کردیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں