بروقت انتخابات ،آئینی تقاضا


نثار حسین
پاکستان میں انتخابات کے انعقاد کو بروقت یقینی بنانے پر تاحال تمام جماعتوں کا بیانیہ ایک جیسا ہے ،پاکستان پیپلزپارٹی پارٹی نے شروع سے ہی بروقت انتخابات کا مطالبہ کیا جبکہ پی ٹی آئی نے پہلے قبل ازوقت الیکشن کروانے کے مطالبے پر زبردست احتجاج کا اعلان کیا بعد ازاں اسمبلی کی مدت پوری ہونے پر پی ٹی آئی قیادت بھی دیگر جماعتوں کی طرح بروقت شفاف الیکشن کا مطالبہ دہرارہی ہے ۔الیکشن کے بروقت انعقادکے یقینی بنائے جانے کے معاملے پر تحفظات کا اظہار پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں بھی کررہی ہیں ،اتحادی جماعتوں سے لے کر اپوزیشن تک سبھی نے مقررہ آئینی مدت کے اندر الیکشن کے شفاف انعقاد کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے دوسری طرف الیکشن کمیشن آخر بروقت انتخابات کرانے سے گریزاں کیوں ہے ؟اس حوالے سے ایک طویل بحث چھڑی ہوئی ہے جس میں الیکشن کیمشن کبھی اپنے اختیارات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے الیکشن کی تاریخ مانگنے والے ریاستی اداروں پر برہم نظر آتا ہے تو کبھی نئی حلقہ بندیوں کے معاملات نمٹانے کے بعد نئے انتخابات کے اعلان کی جانب اشارہ کیاجاتا ہے ۔ماہرین کا خیال ہے کہ بروقت شفاف انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت ہی ملکی مسائل کا حل تلاش کرسکتی ہے ،نگراں حکومت ازادانہ منصفانہ انتخابات کروا کر سرخرو ہو گی۔قومی اسمبلی تحلیل ہونے سے چند گھنٹے قبل ایوان بالا سینیٹ نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان سے آئین کے آرٹیکل 224 میں دیے گئے وقت کے اندر انتخابات کے انعقاد کے لیے اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا گیاتھا ۔قرارداد میں تمام ریاستی اداروں سے بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ آئینی مدت کے اندر انتخابات کے انعقاد کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں۔ قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد نوے دن کے اندر انتخابات کا انعقاد کرانا لازمی ہے۔تاہم اس آئینی تقاضے کے باوجود سابق وفاقی وزرا یہ باور کراتے رہے کہ کچھ آئینی وجوہات کے سبب الیکشن کے انعقاد میں دو سے تین ماہ تک کی تاخیر ہو سکتی ہے۔ادھر الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ قانون کے مطابق مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیوں کے بغیر انتخابات نہیں ہوسکتے ۔قبل ازیں صدر کی جانب سے الیکشن کی تاریخ طے کرنے کیلئے چیف الیکشن کمشنر کو مذاکرات کی دعوت دی گئی تھی صدر عارف علوی نے الیکشن کی تاریخ طے کرنے کیلئے جو خط الیکشن کمیشن کو لکھا اس پر الیکشن کمیشن کی جانب سے جوابی خط میں کہا گیا تھا کہ اب الیکشن ایکٹ کی سیکشن 57 میں 26 جون کو ترمیم کردی گئی ہے، اس ترمیم سے قبل صدر الیکشن کی تاریخ کے لیے کمیشن سے مشاورت کرتا تھا، مگر ترمیم کے بعد الیکشن کمیشن کو ازخود تاریخ یا تاریخیں دینےکا اختیار ہے۔الیکشن کمیشن کے اس جواب کے بعد ایوان صدر میں خاموشی ہے شہر اقتدار میں نگران حکومت کے طویل ہونے کی خبروں میں بھی صداقت دکھائی نہیں دیتی ۔الیکشن کیمشن کی جانب سے انتخابات کرانے سے گریز پر نگراں حکومت کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو کسی آئینی ادارے نے مسترد نہیں کیا اور ذمہ دار حکومت کے ناتے ہم آئینی ادارے الیکشن کمیشن کے پیچھے کھڑے ہیں۔نئی حلقہ بندیوں کا فیصلہ نگران حکومت نے نہیں بلکہ گزشتہ منتخب حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں کیا تھا اور الیکشن کمیشن آئین و قانون کے مطابق جب مناسب سمجھے گا انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے گا۔ان حالات میں دیکھا جائے تو قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد سینیٹ کا وجود ہی جمہوریت کو ٹریک پر رکھنے کی ایک امید سمجھا جارہا ہے ،بروقت الیکشن کا انعقاد ایک آئینی تقاضا ہے اس میں تاخیر بہرحال غیر ئینی ہوگی تاہم الیکشن بروقت کروانے کیلئے معرض وجود میں آنے والی نگران حکومت بر وقت انتخابات کروانے کے لئے پر عزم نظر اتی ہے دوسری طرف چند ماہ بعد جب مارچ کے مہینے میں سینیٹ کے آدھے ارکان آئینی مدت پوری ہو نے پر ریٹائرڈ ہو جائیںگے تو یہ ادارہ سینیٹ کے نئے الیکشن تک ازخود تحلیل تصور ہوگا ،اس صورت میں عام انتخابات کا التوا ملک میں آئینی بحران پیدا کردے گا۔ملکی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہوجائیں گے ۔بے شمار مسائل کا شکار پاکستان اب کسی نئے المیے کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔تمام محب وطن سیاستدان، ادارے اور سٹیک ہولڈرز الیکشن کے بروقت انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے آگے آئیں،ملکی اداروں کو ساتھ ملا کر ہرحال مقررہ مدت کے دوران الیکشن کرانے کی تاریخ طے کریں ۔پاکستان کی بقا اور سلامتی کیلئے تمام خطرات ٹالنے کا حل بھی بروقت الیکشن کا انعقاد ہی ہے ،قوم بھی یہی چاہتی ہے اور نگران حکومت نے بھی اپنی آئینی ذمے داری نبھانے کے لئے تیاری شروع کر دی ہے۔