لیہ شہر کا بلتستان ہاﺅس

احسان علی دانش

ہمارے استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر ظفر عالم ظفری کی دعوت پر ہم ایک بار پھر جنوبی پنجاب کے شہر لیہ گئے۔ ڈاکٹر صاحب ہر سال دعوت کا اہتمام کرتے ہیں اور ہم ہر سال خوشی خوشی دعوت قبول کرتے ہیں۔ یوں میانوالی سے مظفر گڑھ تک کے سارے علاقے کی سیر ڈاکٹر صاحب کی لگژری کار میں کر جاتے ہیں۔ لیہ شہر میں ہماری آمد پر استقبال سے ہماری جامد پر خدا حافظ تک چوکس رہتے ہیں اور اپنے علاقے میں موجود خدا کی ساری نعمتوں سے فیضیاب کراتے ہیں۔ اب کے بار بھی حسب روایت بس ٹرمینل پر تیار کھڑے تھے اور دوسری لمحے ہم لیہ کے بلتستان ھاﺅس میں استراحت فرمانے لگے تھے۔ اس بار آپ نے تھل کے وہ علاقے دکھائے جہاں ریت کے بڑے بڑے ٹیلے ہیں اور مقامی زمیندار ان ٹیلوں پر چنا کاشت کرتے ہیں۔ یہاں میں رب کی کاریگری اور لوگوں کا توکل دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ یہ ٹیلے ازل سے پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہے ہیں۔ ان ٹیلوں کی قسمت میں آسمانی بارش کے علاہ زمینی کسی نہر سے کوئی علاقہ نہیں۔ جس کے سبب یہاں گندم، کپاس، چاول، گنا جیسی بڑی فصلیں پیدا ہونے کا سوال پیدا نہیں ہوتا تاہم چنا وہ فصل ہے جس کے لئے ایک آدھ بار بارش کا پانی ملے تو یہ تیار ہوجاتی ہے وگرنہ سردیوں کے کچھ دن چھانے والے دھند کے سائے بھی اس کی نشو و نما کے لئے سود مند ہوسکتے ہیں۔ میری میزبان محترم ڈاکٹر ظفر عالم صاحب نے فرمایا دانش میاں سرائیکی بیلٹ کی یہ پوری پٹی چنا کی پیداوار کے لئے مشہور ہے اور مزے کی بات بنا پانی کے یہاں کی پیداوار ملکی ضرورت پوری کر کے باہر کے کئی ممالک کو ایکسپورٹ بھی کی جاتی ہے۔ تھل کے ریتلے ٹیلوں سے اتر کر ہم سیدھا کینو ، سنگترہ شکرہ والے باغ میں پہنچے جہاں ایک ایک پیڑ پر پانچ پانچ من پھل لگے ہوئے تھے۔ کینو کے خاندان کے ساری پھل ہمارے گلگت بلتستان میں پیدا نہیں ہوتے اس لئے ہم نے چوکیدار کی اجازت سے فوٹو گرافی کی۔ آٹھ دس مربع پر پھیلے ہوئے اس باغ میں لا تعداد پیڑ تھے اور ہر پیڑ پر منوں پھل لگے ہوئے تھے اور منوں پھل پیڑوں کے نیچے تیار ہو کر گرے ہوئے تھے۔ میرا جی للچایا کے پیڑ سے براہ راست توڑ کر ایک کینو کھاﺅں۔ چوکیدار سے جب ہم نے اجازت چاہی تو پہلے تذبذب کا شکار ہوگیا مگر جب میرا تعارف کیا گیا تو صرف ایک پھل توڑنے کی اجازت مل گئی۔ میں نے ایک پھل توڑا اور اسے کھانے کے لئے چھیلنا شروع کیا تو چوکیدار صاحب میرے ساتھ ساتھ رہا اور چھلکے کے ہر ٹکڑے کو اٹھایا اور مٹی کھود کر اس میں دفن کر دیا۔ میں نے جانا شاید یہ یوریا کا کام کرتا ہو گا اس لئے ایک ٹکڑے کو ضائع ہونے سے بچایا۔ مگر جب وجہ پوچھی تو میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ وہ نہایت کسمپرسی میں کہنے لگا، جناب آپ ہمارے دور کے مہمان ہیں۔ آپ نے پھل توڑنے کی خواہش کا اظہار کیا تو میں نے اجازت دے دی مگر شام کو مالک آتا ہے اسے یہ چھلکے نظر آئے تو میری شامت آئے گی اور تنخواہ سے کٹوتی ہوگی لہذا اس ڈر کے مارے چھلکوں کو ٹھکانے لگاتا ہوں۔میں نے اپنے استاد محترم سے استفسار کیا حضور مربعوں میں زمین ہے، سیکنڑوں ایکڑ ہیں، ہزاروں میں پیڑ ہیں اور ٹنوں میں پھل، ایسے میں راہ گیر اگر ایک آدھ کھا جائیں تو مالک کی آمدنی میں کتنی کمی واقع ہوگی؟ ہمارے گلگت بلتستان میں جب ہم پودے لگاتے ہیں تو اس ننھے سے پودے کے کان میں باقاعدہ کہا جاتا ہے۔ ”یارگو یاری زو ، تھورگو تھوری زو“آگے پیچھے اوپر نیچے کی طرف سفر کرنے والے راہ گیرو یہ پھل تمہارے لئے ہیں۔ تم اس سال جی بھر کے کھاﺅگے تو آئندہ بھر پور پھل لگیں گے ، مگر یہاں پر نظام کچھ اور ہے۔ میری اس تفصیل پر استاد صاحب نے چوکیدار کے بارے میں دوسری منطق بیان فرمائی۔ فرمانے لگے۔دانش میاں یہ چوکیدار لوگ بڑے ایماندار ہوتے ہیں اور وہ اس سارے باغ کو ایک طرح سے امانت مانتے ہیں اور یہ اپنی اس امانت میں کبھی بھی خیانت کا احتمال تک ہونے نہیں دیتے۔ یہ لوگ اپنے مالک کے بڑے وفادار ہوتے ہیں اور ایک دانہ کا فرق آنے نہیں دیتے۔ لوگ زمینوں سے زائد فائدے اس طرح حاصل کرتے ہیں۔ مگر دانش باغ کے پھل سے کیا لینا دینا ہے۔ آپ کے لئے منڈی بھری پڑی ہے۔ اسی منڈی سے آپ کو میں وقت وقت کے پھل بھیجتا ہوں۔ آج بھی دو چار بوری کینو آرڈر کریں گے۔خود بھی کھاﺅ دوستوں کو بھی کھلاﺅ ۔اللہ اللہ خیر صلا۔ باغ کے ایک طرف ایک لامحدود کھیت میں تاحد نظر سرسوں کے پھول کھلے ہوئے تھے۔ ہم یہاں وارفتگی میں گنگنا رہے تھے۔ اب نہ کھلے گی سرسوں اب نہ لگے گی مہندی پاﺅں میں۔ اب نہ اگیں گے چاند ستارے۔ دو دل ٹوٹے دو دل ہارے ۔ استاد صاحب فرماتے تھے کہ یہاں کے لوگ اپنی ضرورت کی گندم اور سرسوں رکھتے ہیں باقی مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں۔ زمینوں سے لاکھوں کماتے ہیں اور خوشگوار زندگی گزارتے ہیں۔اب کے بار اگلے دن کی سیر کے لئے یہاں کے سلسلے سکالر برادر وسیم مہدی کو فون کیا اور وہ اپنا سب کام دھندہ چھوڑ کر پہنچ گئے۔ وسیم کی گاڑی میں فتح پور، بیکن کالج، کروڑ اور کئی مقامات دیکھے۔ وسیم ایک پر خلوص انسان کا نام ہے جس نے گلگت بلتستان کے ڈاکٹر مظفر کی تخلیقات کو موضوع بنا کر ایم فل مکمل کیا ہے اور دو سالوں کے اندر ڈاکٹریٹ کی ڈگری ان کی جھولی میں خود بخود گر جائے گی۔ ڈاکٹر ظفر صاحب کے ہمراہ رات کا کھانا بھی وسیم بھائی کے گھر کھایا جہاں ان کے بڑے بھائی مسعود مہدی صاحب کی محبتوں کے ہم اسیر ہوگئے۔ اس ٹور میں استاد محترم کی محبتیں اور نوازشات اپنی جگہ مگر پنجاب کا موسم طبیعت کے بالکل برعکس تھا۔ ہم گلگت بلتستان سے اس لئے پنجاب آئے تھے کہ سردیوں کے کچھ دن آرام سے گزرےں مگر پنجاب میں دھند کی موجودگی میں ایسی سردی تھی جیسی سردی ہم اپنے علاقے میں چھوڑ کر آئے تھے۔ شکر ہے استاد صاحب کے گھر، گاڑی، وسیم کے گھر ہر جگہ ائیر کنڈیشن سسٹم تھا اور ٹمپریچر نہایت معتدل رہتا تھا۔ ورنہ ہم پنجاب کی ٹھنڈ کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے اور ایک نئی بیماری میں مبتلا ہوتے۔ اس ٹھنڈے موسم کو دیکھ کر مجھے ایسا لگا جیسے خود میری اپنی کوئی دعا قبول ہو گئی ہے۔ میں نے ملتان کی گرمی دیکھ کر ایک دفعہ یہ دعا مانگی تھی۔

ایک گزارش ہے ہماری یہ شہ شاہان سے

موسموں کو کر ذرا تبدیل اپنی شان سے

کچھ شمالی سردیاں لے جائیے پنجاب میں

اور ادھر کچھ گرمیاں ہی لائیے ملتان سے