چھوٹی چھوٹی خواہشات

پروفیسر قیصر عباس

اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے ۔اگرچہ فرشتے بھی اللہ تعالی کی مخلوق ہیں مگر انسان اور فرشتوں میں بنیادی طور پر یہ فرق ہے کہ اللہ تعالی نے فرشتوں کو نفسانی خواہشات سے ماورا رکھا ہے ۔جب کہ انسانی جبلت میں خواہشات کا ایک لا متناہی سلسلہ رکھا ہے ۔ایک خواہش پوری ہوتی ہے تو انسان دوسری خواہش کے پیچھے بھاگتا ہے دوسری خواہش پوری ہونے کے بعد تیسری اور پھر چوتھی یوں خواہشات کا یہ سلسلہ قبر کی دیواروں تک لے جاتا ہے مگر زندگی کے آخری لمحے میں بھی خواہش برقرار رہتی ہے کہ کاش ۔زندہ رہنے کے لئے چند دن اور مل جائیں۔خواہشات بڑی بھی ہوتی ہیں اور چھوٹی بھی۔بعض خواہشات کی تکمیل کے لئے آگ کے دریا بھی عبور کرنا پڑتے ہیں اور بعض خواہشات پلک جھپکنے میں ہی پایا تکمیل تک پہنچ جاتی ہیں ۔ کچھ خواہشات انتہائی معصومانہ ہوتی ہیں جب کہ کچھ خواہشات کی تکمیل کے لئے انسانوں کو انسانوں کے سروں کو بطور سیڑھی استعمال کرنا پڑتا ہے ۔ملک خداداد میں معصوم خواہشات کا اظہار اس طبقے کی طرف سے کیا جاتا ہے جن کے جنبش ابرو کو سمجھ کر احکامات صادر کئے جاتے ہیں قارئین کو یاد ہوگا کہ سندھ کی ایک شہزادی کے دل میں ایک معصوم خواہش نے جنم لیا کہ میں نے بلامقابلہ قومی اسمبلی کا رکن بننا ہے تو اس کے مقابلے میں گیارہ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیے گئے یوں سندھ کے شاہی خاندان کی دختر نیک اختر بلا مقابلہ ایوان زیریں کی رکن بن گئی ۔پنجاب کی ایک شہزادی کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ منتخب عہدہ کے باوجود فورس کا یونیفارم زیب تن کرنا ہے تو فورا اس خواہش کا احترام کرتے ہوئے اس کا انتظام احسن و قابل ستائش طریقہ سے کر لیا گیا اور انتظام کرنے والے داد و تحسین کے مستحق ٹھہرے۔اب ایک نئی خبر منظر عام پر آئی ہے کہ ہمارے وزیر خارجہ جناب اسحاق ڈار کے دل میں بھی ایک معصوم سی خواہش نے جنم لیا کہ وزیر خارجہ کے ساتھ ساتھ انہیں ڈپٹی وزیراعظم بھی ہونا چاہئے ۔اگرچہ 1973کے آئین میں اس قماش کا کوئی عہدہ سرے سے موجود ہی نہیں لیکن چونکہ یہ خواہش سابق وزیراعظم بلکہ تین دفعہ کے وزیر اعظم کے سمدھی کے دل میں جاگی تو سابق وزیراعظم کے برادر اصغر نے فورا اس پر عمل درآمد کروانے کے لئے اسٹےبلشمنٹ ڈویژن کو احکامات جاری کر دئے۔یوں عزت مآب سینیٹر سابق وزیر خزانہ اور موجودہ وزیر خارجہ جناب اسحاق ڈار ملک عزیز کے دوسرے ڈپٹی وزیراعظم بن گئے ہیں۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے2008 میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو مسلم لیگ نون بھی اس حکومت کا حصہ تھی مگر اس مخلوط حکومت میں جلد ہی اختلافات پیدا ہوگئے اور مسلم لیگ نون اس حکومت سے علیحدہ ہوگئی یاد رہے یہ اختلافات کسی اصولی موقف کی بنیاد پر نہیں بلکہ مفادات کے ٹکراﺅ کی وجہ سے پیدا ہوئے جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو اپنی حکومت بچانے کے لئے مسلم لیگ قاف کی ضرورت پڑی جسے زرداری صاحب ماضی قریب میں قاتل لیگ بھی کہہ چکے تھے مگر برا ہو ہوس اقتدارکا جس نے قاتل لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت کے پاس جانے کے لئے زرداری صاحب کو مجبور کر دیا۔اگرچہ آصف علی زرداری کا چوہدری شجاعت حسین کے پاس جانا آسان نہیں تھا چوہدری شجاعت نے بھی اس صورتحال اور مجبوری کا پورا اٹھایا اور زرداری صاحب کے سامنے چوہدری پرویز الہی کی ایک معصوم خواہش کا اظہار کر دیا کہ چھوٹے چوہدری صاحب مطلب چوہدری پرویز الہی کو ڈپٹی وزیراعظم بنا دیا جائے۔اس خواہش کو پورا کرنابھی آسان کام نہیں تھا کیونکہ بے نظیر بھٹو نے اپنے قتل سے پہلے اپنے ایک انگریز صحافی دوست کو خط لکھ کر اس بات سے آگاہ کر دیا تھا کہ اگر مجھے قتل کیا گیا تو یہ تین لوگ ذمہ دار ہوں گے ان میں پہلا نمبر جنرل پرویز مشرف ‘دوسرا چوہدری پرویز الہی اور تیسرا نمبر پی ٹی آئی کی حکومت کے وزیر داخلہ برےگیڈئر اعجاز شاہ تھا جو جنرل مشرف کے دور میں ڈی جی آئی بی تھے ۔لیکن اقتدار کی مجبوریوں کے تحت زرداری صاحب کو سمجھوتہ کرنا پڑا اور پھر پرویز الہی ملک عزیز کے پہلے ڈپٹی وزیراعظم نکے وزیر اعظم بن گئے ۔اب اگر بات کی جائے دوسرے ڈپٹی وزیراعظم نکے وزیراعظم کی تو اسحاق ڈار کسی تعارف کے محتاج نہیں وہ پاکستان کے تین دفعہ وزیر خزانہ رہ چکے ہیں پہلی دفعہ جب 1997میں میاں نواز شریف دو تہائی اکثریت سے وزیراعظم بنے تو جناب اسحاق ڈار کو اس ملک کے خزانے کا قلمدان سونپا گیا مگر میاں صاحب دو تہائی اکثریت کا بوجھ برداشت نہ کر سکے اسحاق ڈار کی قسمت نے یاوری نہ کی اور ڈار صاحب کو اپنے ہی وزیر اعظم کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننا پڑا۔اس کے بعد 2013 میں جب ایک بار پھر سے مسلم لیگ نون کی حکومت بنی تو وزارت خزانہ کےلئے میاں صاحب کے لطف کرم کا ابر ایک بار پھر سے اسحاق ڈار پر ہی برسا ۔لیکن شو مئی قسمت کہ پاناما پیپرز کا سانپ پٹاری سے نکل آیا جس نے میاں نواز شریف کی حکومت کو ڈس لیا اور میاں صاحب کے ساتھ ساتھ اسحاق ڈار کی بھی چھٹی ہوگئی ۔میاں نواز شریف صاحب کی نااہلی کے بعد مسلم لیگ نون کی طرف سے شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بنے تو وزیر خزانہ کا قلمدان کراچی سے تعلق رکھنے والے مفتاح اسماعیل کو سونپ دیا گیا۔2018 کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت بنی مگر اپریل 2022کو تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے عمران خان کو ایوان وزیراعظم چھوڑنا پڑا اور ملک کی باگ ڈور مسلم لیگ نون کے صدر میاں شہباز شریف نے سنبھال لی اور وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو بنا دیا گیا مگر اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد ملک کے خزانے کی چابی ایک دفعہ پھر سے جناب اسحاق ڈار کے ہاتھ لگ گئی کیونکہ مفتاح اسماعیل کو ہٹا کر اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنا دیا گیا۔فروری 2024 کے انتخابات کے بعد بننے والی حکومت میں اگرچہ وزارت خزانہ کا قلمدان اسحاق ڈار کو نہیں دیا گیا کیونکہ جن صاحب کو یہ قلمدان دیا گیا ہے وہ طاقتور حلقوں کے زیادہ نزدیک سمجھے جاتے ہیں۔ اس لئے ڈار صاحب نے اپنی ایک اور چھوٹی اور معصوم خواہش کا اظہار فرمایا کہ مجھے ڈپٹی وزیراعظم نکا وزیراعظم بنا دیا جائے ڈار صاحب کی اس خواہش کی تکمیل کے لئے فوری طور احکامات جاری کر دئے گئے اور یوں ڈار صاحب کی ایک معصوم اور چھوٹی سے خواہش پایا تکمیل تک پہنچ گئی ہے۔