خدا کی ناراضگی

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

میں حسبِ معمول صبح کے وقت اپنے دفتر کی کا ر پارکنگ میں پہنچا ہی تھا ۔ ابھی میری گاڑی اچھی طرح رکی بھی نہ تھی کہ جہازی سائز کی بہت بڑی کا لے رنگ کی گاڑی میں سے ڈرائیور اور ملازم تیزی سے اتر کر میری طرف لپکے یاتو وہ اپنے مالک سے بہت پیار کر تے تھے یا پھر اس کی خوشامد یا حکم پر میری طرف دوڑے تھے ۔ میں سمجھا شاید کوئی شدید بیمار مریض گاڑی میں ہے اور وہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہے لیکن جب میں نے گا ڑی کی طرف دیکھا تو ایک نوجوان امیر زادہ بڑے کرو فر سے فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا۔ اس کے علاوہ گاڑی میں اور کو ئی بھی نظر نہ آرہا تھا میری گاڑی جیسے ہی رکی دونوں ملازموں نے تیزی سے میرا فرنٹ دروازہ کھولا اور کہا جناب ہم آپ کا ہی انتظار کر رہے تھے آپ جلدی سے ہما رے صاحب کو مل لیں وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔میں نے غور سے ملازموں کو دیکھا تو مجھے لگا ان میں سے ایک سے میں چند ماہ پہلے مل چکا ہوں ۔ میں بغور سوالیہ نظروں سے اس کو دیکھ رہا تھا اس کی آنکھوں میں بھی آشنائی کی لہریں دوڑ رہی تھیں اس کے تاثرات چہرہ آنکھیں اور تھوڑی بے تکلفی یہ بتا رہی تھی کہ وہ پہلے بھی مجھ سے مل چکا ہے میری سوالیہ نظروں کو دیکھ کر وہ خو د ہی اپنا تعارف کرا نے لگا کہ میں چند ماہ پہلے آپ کے پاس آیا کر تا تھا میرے مالک بیمار فالج زدہ تھے ۔ جو یہاں نہیں آسکتے تھے تو آپ میرے کہنے پر ان کے گھر بھی گئے تھے اس کے یاد دلانے پر مجھے یا د آگیا وہی بوڑھا ارب پتی جو اپنی زندگی کی آخری سانسیں موت کی دہلیز پر گن رہا تھا اور اس کے گھر والے اس کی موت کی دعا ئیں مانگ رہے تھے۔ اِس واقعہ کو میں وقت کی گردش نا می کالم میں بیان کر چکا ہوں ملازم کے بتا نے پر مجھے اس ارب پتی کا مغرور بیٹا بھی یا د آگیا جو با پ کی اربوں کی دولت کے نشے میں دھت فرعون بنا ملازموں کو ڈانٹ رہا تھا۔ خادموں اور خواجہ سراﺅں کی ایک پو ری فوج تھی جو اِس امیر زادے کی ابروئے چشم پر حرکت کر رہی تھی یہ مغرور امیر زادہ چنگیزی انداز میں گھر پر حکو مت کر رہا تھا اِس کا انداز بتاتا تھا کہ زندگی موت تک اس کے قبضے میں ہے۔ باپ بستر مرگ پر لیٹا آخری سانسیں لے رہا تھا اور یہ باپ کی ساری جائیداد اپنے نام کرو ا کر خود کو سلطانِ اعظم بنا کر بیٹھا تھا کہ میں دنیا کا خو ش قسمت ترین شخص ہوں میں وسیع و عریض لمبی چوڑی جائیداد اور اربوں کے بنک بیلنس کے بل بو تے پر دنیا جہاں کی ہر نعمت آسانی سے خرید سکتا ہوں۔ مجھے آج بھی یاد تھا جب یہ بار بار کہہ رہا تھا کہ میں والد صاحب کو یو رپ امریکہ یو کے گھما کر لایا ہوں دنیا جہاں کے ڈاکٹروں کو چیک کروا چکا ہوں اور دنیا کی مہنگی ترین لیبارٹریوں سے سارے ٹیسٹ بھی کروا چکا ہوں اور اِس نے اپنی بے پناہ دولت کے بل بوتے پر باپ کے کمرے کو منی ہسپتال میں تبدیل کر دیا تھا۔ مہنگی ترین مشینیں اور میڈیکل اسٹاف والد صاحب کی نگہداشت پر مامور کیا ہوا تھا ۔جائیداد کے پیپرز اپنے نام کروانے کے بعد والد اِس کے لیے کوڑے کا ڈھیر بن چکا تھا جو اپنی زندگی گزار چکا ہے اب اِسے والد صاحب کی ضرورت بھی نہیں تھی ۔اِس کے ساتھ اِس کے گھر والے بھی ملے ہو ئے تھے اور یہ خو شامدیوں کی فوج میں گھرا انسان کوکیڑے مکوڑے سمجھ کر بیٹھا تھا۔ اِس کو یو رپ امریکہ کے دورے مختلف ملکوں میں اپنی جائیدادیں اور بنک بیلنس کا بہت زیا دہ زغم تھا کہ میں دنیا کے تمام ذرائع اور اسباب رکھتا ہوں میں دنیا کی ہر چیز خرید سکتا ہوں میرے تعلقات بڑے با اثر لوگوں سے ہیں میں معاشرے کا بااثر طاقت ور انسان ہوں ہزاروں لوگ میری سلنطت میں کام کر تے ہیں جن کی روزی روٹی کا وسیلہ میں ہی ہوں میں جوان ہوں اور میرے پاس دولت کے انبا ر لگے ہیں ۔اِس دولت سے میں ہر چیز پر قادر ہو چکا ہوں دولت کی چکا چوند نے اِس کی بینائی چھین لی تھی ۔ہر ہر مسئلے کی چابی دولت کو ہی سمجھ بیٹھا تھا کہ میں جس انسان کو بھی چاہوں اسے خرید سکتا ہوں میں دنیا کا کامیاب ترین انسان ہوں اور جب میں اِس کے والد صاحب کے ملازم کے بار بار کہنے پر اِس کے گھر گیا تو اِس کا تکبرانہ رویہ مجھے بھی گراں گزرا تھا کیونکہ یہ روحانیت اوردعا پر یقین ہی نہیں رکھتا تھا ۔مادیت پرستی میں غرق یہ انسان اپنی دولت کے نشے اور گھمنڈ میں مست انسانوں کو کیڑے مکو ڑے سمجھ رہا تھا اِس کو اپنے والد کی بیما ری کا کو ئی ملال یا پریشانی نہ تھی بلکہ یہ دولت اور اقتدار پانے کے نشے میں غرق تھا۔ فیملی ممبران کو فتح کر نے اور جا ئیداد اپنے نام کروانے کے بعد یہ اِس غرور میں مبتلا تھا کہ میں نے اپنی عقل شعور اور تعلقات سے والد صاحب کی تما م جائیداد اور بنک بیلنس اپنے نام کروالیا ہے اب تمام جائےداد اوراربو ں روپوں کا اکلوتا وارث میں ہی ہوں میں نوجوان ہوں اور ابھی میری پوری زندگی پڑی ہے۔ میں جس طرح چاہوں اِس دولت کو استعمال کروں‘ جس کو چاہوں خریدوں‘ جس کو چاہوں بیچ دوں ملازمین کی ایک پو ری فوج تھی جو اِس کے سامنے ہاتھ باندھے ہر وقت کھڑی رہتی تھی اِس نے اپنے آرام و سکون اور عیش کے لیے فارم ہاﺅس اور پا کستان کے بڑے شہروں میں پر تعیش بنگلے اور ملا زمین کی فوج رکھ چھوڑی تھی تا کہ یہ اپنی زندگی کو پو ری طرح enjoyکر سکے مجھے آج بھی اس بو ڑھے ارب پتی کا بے رونق چہرہ یاد تھا۔ فالج نے اس کے پو رے جسم پر قبضہ کر رکھا تھا وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا۔ بوڑھا ارب پتی گھر کے ایک کو نے میں بے یا رومددگار نرسوں کے حوالے تھا۔ میڈیکل مشینیں اور نرسوں کو رکھنے کی وجہ بھی اپنی شہرت اور دوسروں پر رعب ڈالنا تھا کہ میں تو والد صاحب کے لیے گھر میں ہی ہسپتال بنا دیا ہے۔ یہ سب اِس نے اپنے والد صاحب کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ لوگوں کو دکھانے کے لیے کہ میں یہ سب کر سکتا ہوں ۔میں جب اِس امیر زادے کے گھر گیا تھا تو اِس نے مجھے بھی خریدنے کی کو شش کی تھی لیکن میں اِس کی دولت اِس کے منہ پر مار کر چلا آیا تھا اور آج یہ میرے پاس آیا تھا یہ میرے لئے حیران کن تھا کیونکہ میری اِس کی پہلی ملا قات خوشگوار نہیں تھی میری اندر بغاوت کی لہریں دوڑنے لگیں مجھے غصہ بھی آنے لگا لیکن چند لمحوں کے اندر ہی میری فطری شرافت اور انسانوں سے پیار میرے اوپر غالب آگیا لہذا میں اس کی گا ڑی کی طرف بڑھا اور جا کر اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا ۔امیر زادہ بہت کمزور ہو چکا تھا اس کا سارا کروفر اور غرور ہوا میں تحلیل ہو چکا تھا۔ میں سپا ٹ نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا وہ عاجز لہجے سے بولاسر آپ جب میرے گھر آئے تھے تو چند دن بعد ہی میرے والد صاحب وفات پا گئے اور میری خوشیاں ان کے ساتھ ہی رخصت ہو گئیں ۔ان کے جانے کے چند دن بعد ہی میں پراسرار بیما ری کا شکار ہو گیا کوئی وائرس میری انتڑیوں یا معدے میں چلا گیا گندم چاول کی کوئی بھی چیز مجھے ہضم نہ ہو تی۔ میں دودھ اور پھلوں پر گزارا کرتا دنیا جہاں کے ڈاکٹروں کو دکھایا۔ مہنگی ترین لیبارٹریوں کے دھکے کھائے لیکن بیماری بڑھتی چلی گئی ۔مہنگی اور جدید ترین دوائیوں سے بھی بیما ری نہیں گئی۔ اِس پراسرار وائرس کا ابھی دنیا میں علا ج دریا فت ہیں نہیں ہوا میں جو پیسے کو ہر مسئلے کا حل سمجھتا تھا پانی کی طرح پیسہ بہایا لیکن شفا نہ ملی اب تو دودھ اور فروٹ بھی ہضم نہیں ہوتے۔ پیچش اور قے نے میری جان نکال دی ہے میں جو ساری زندگی بابوں کے خلاف رہا اب ایک در سے دوسرے در دامن پھیلائے جا رہا ہوں لیکن شفا مجھ سے روٹھ چکی ہے اب آپ کے در پر آیا ہوں میری مدد کریں اس کا چہرہ آنسوﺅں اور بے بسی سے بھیگ چکا تھا میں بو لا تم نے تکبر سے خدا کو ناراض کیا تھا۔ جاﺅ غریبوں کی مدد کرو ان کے لیے کو ئی ادارہ بناﺅ تاکہ تمہا ری غریب پروری دیکھ کر خا لقِ کائنات کا پیمانہ رحمت چھلک پڑے اور تمہارے کشکول میں بھی صحت کے چند قطرے پڑ جائیں اس نے وعدہ کیا اور چلا گیا اور میں سوچنے لگا خد اکی لاٹھی جب حرکت میں آتی ہے تو انسان کو اپنی اوقات یاد آجا تی ہے ۔