یومِ تکبیر: رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

 خطے میں امن کی خواہش کو کمزوری سمجھنے والے بھارت کے ساتھ ہماری سرحدیں کبھی محفوظ نہیں رہیں۔ رات کے اندھیرے اور دن کے اجالے میں جب بھی موقع ملتا ہے بھارت جارحیت کا ارتکاب کرتا ہے۔ 1965 اور 1971 کی جنگ اسکی واضح مثال ہے محدود وسائل اور مالی مشکلات کے باوجود پاکستان اپنے دفاع سے کبھی غافل نہیں رہا، موجودہ حالات کے تناظر میں اگر ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھا جائے تو مجموعی طور ملکی حالات ہمیشہ نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں لیکن محب وطن سیاسی رہنماﺅں نے ملکی سلامتی اور خود مختاری پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ نامساعدحالات کے باوجود اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹوکی ہمت ‘جرات استقامت اور جذبہ حب الوطنی کے تحت پاکستان کو جوہری قوت بنانے کے جرات مندانہ فیصلے نے پاکستانی قوم کو دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قابل بنایا 1974 میں بھارت کے ابتدائی ایٹمی دھماکوں کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو جوہری قوت بنانے کا فیصلہ کیا انہوں نے ماےہ ناز سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان کی زیر نگرانی میں ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے منصوبے کا آغاز اس عزم کے ساتھ کیا کہ ہم گھاس کھائیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے، ”رزم حق وباطل ہو تو فولاد ہے مومن“عالمی دباﺅ اور معاشی مشکلات کے باوجود ڈاکٹر عبد القدیر خان، ڈاکٹر ثمر مند مبارک، ڈاکٹر اشفاق احمد اپنے دیگر ساتھیوں کی طویل جدو جہد اور انتھک محنت کے نتیجے میں ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ، اب وقت آگیا تھا کہ ایٹمی دھماکے کرکے باقاعدہ اعلان کیا جائے لیکن دنیا کے طاقتور ممالک ہرگز یہ نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان جوہری طاقت بنے عالمی سطح پر اقتصادی پابندیاں لگانے کی دھمکیاں مل رہی تھیں اور ہرممکن کوشش کی جا رہی تھی کہ پاکستان ایٹمی دھماکے نہ کرے، بھارت کی جانب سے پاکستان مخالف بیانات کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ 13مئی 1998 کو بھارت کی طرف سے مزید ایٹمی دھماکہ کرنے کے بعد خطے میں طاقت کا توازن توزن بگڑ گیا چنانچہ اس توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ پاکستان اس کا منہ توڑ جواب دے تاکہ جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن برقرار رکھا جا سکے چنانچہ 28 مئی 1998 کو اس وقت کے وزیراعظم محمد نواز شریف نے بین الاقوامی مخالفت اور امریکی دھمکیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے عالمی دباﺅ مسترد کر کے قومی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے بھارت کے تین ایٹمی دھماکوں کے مقابلے میں بلوچستان میں چاغی کے مقام پر پانچ ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بنا کر ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنا کر پاکستانی عوام اور عالم اسلام کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ 28مئی یوم تکبیر پاکستان اور مسلم امہ کی تاریخ کا اہم دن انتہائی اہمیت کا حامل ہے پاکستان اسلامی ممالک میں واحد ملک ہے جسے ایٹمی قوت ہونے کا اعزاز حاصل ہے 1971 کی جنگ کے بعد پاکستان کے پاس ایٹمی صلاحیت ہونے کی وجہ سے بھارت کی طرف سے پاکستان پر کبھی باقاعدہ جنگ مسلط کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ پاکستان کو ہمیشہ سے جنگی جنون میں مبتلا اپنے سے بڑی فوجی قوت اور دفاعی سازو سامان کے حامل ملک بھارت سے جارحیت کا سامنا رہا ہے۔ وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہتا ہے اور جب اسے موقع ملتا ہے وہ تھوڑی بہت چھیڑ چھاڑ ضرور کرتا ہے اس نے آج تک خطے میں مسلمانوں کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا مستحکم پاکستان اور مسلمانوں کی ترقی اسے ایک پل نہیں بھاتی۔ چند سال قبل بالا کوٹ کے مقام پر بھارتی فضائیہ کی جارحیت سے دشمن کے عزائم کھل کر سامنے آچکے ہیں اس موقع پر ہمارے شاہینوں نے جس جرات و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کے عزائم خاک میں ملائے کہ دشمن آئندہ اس قسم کی بزدلانہ کارروائی کرنے سے پہلے اپنا انجام ضرور یاد رکھے گا اس کے ساتھ ایک طویل عرصے سے ہم پر مسلط دہشت گردی کی جنگ میں دہشت گرد ہماری سیکےورٹی فورسز اور دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس جنگ میں سیکیورٹی فورسز اور پاک آرمی کے افسرز اور جوانوں کی ایک کثیر تعداد اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرچکی ہے ، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس دن ہم شہیدوں کے جنازے نہ اٹھاتے ہوں، پاکستان کا شمار مضبوط دفاع اور منظم فوج رکھنے والے ممالک میں ہوتا یے لیکن ایک منظم سازش کے تحت پاکستان کے مضبوط دفاعی حصار کو کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ملک دشمن قوتیں عوام اور فوج کے درمیان نفرت پھےلا کر دشمن کے ہاتھ مضبوط کرنے میں مصروف ہیں۔دشمن کے عزائم خاک میں ملانے والے ملکی سلامتی اور خودمختاری کی حفاظت کے ضامن قومی سلامتی کے اداروں کو سوشل میڈیا پر ہدف تنقید بنا کر دشمن کے مکروہ عزائم کی تکمیل کی جارہی ہے ۔دشمن ہمیشہ فوج اور عوام کے درمیان ٹکراﺅ کا خواہاں رہا ہے پاکستان کی آزادی اور خودمختاری ہمارے دفاعی اداروں کی مضبوطی سے مشروط ہے ۔غربت ‘بےروزگاری ‘مہنگائی اور دہشگردی کے ساتھ ایک اور بڑا چیلنج ریاست کے خلاف ان سازشی عناصرِ کا ہے جو عوام اور فوج کے درمیان نفرت پھیلا کر ملک میں انتشار چاہتے ہیں، دشمن قوتوں کا آلہ کار بننے کی بجائے آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنانے کیلئے تعلیم صحت اور ملک سے غربت،مہنگائی اور بےروزگاری پر قابو پانے کے لیے مشترکہ جدو جہد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دفاعی میدان میں ایٹمی طاقت کی طرح معاشی میدان میں بھی ہم اپنی طاقت کا لوہا منواسکیں کاش قوم کو ایسا لیڈر مل جائے جو یہ کہے کہ ہم گھاس کھائیں گے لیکن قرض نہیں لیں گے۔