ہتک عزت بل: ےہاں پگڑی اچھلتی ہے۔۔۔

رانا فیضان علی

آزادی صحافت کے بلند بانگ نعروں کے جلو میں گزشتہ ماہ پنجاب اسمبلی سے ہتک عزت بل کی منظوری گھٹن و حبس زدہ ماحول میں روشنی کی اےک اےسی کرن ہے جس سے لامحالہ پگڑیاں اچھلنے کا سلسلہ بند ہونے کی امےد کی جا سکتی ہے۔پاکستان میں دوسروں کی تضحےک اور بے جا تنقےد معمول بن چکی ہے ۔فےک نےوز کے طوفان بدتمےزی کی گرد نے ماحول کو آلودہ کر رکھا ہے۔نہ خود احستابی ہے نہ احتساب کا چلن‘ےبوست زدہ افراد نہ جانے اپنے کونسے احساس کمتری کی آبےاری کرتے ہوئے فےک نےوز سے حظ اٹھاتے ہےں ‘مزاح اور تضحےک میں فرق ناپےد ہو چکا ہے۔ خبر کی تہہ میں پوشےدہ سچائی کی تلاش کے بجائے خبر دےنے کی دوڑ سے تحقےق کا عنصر عنقا ہو چکا ہے۔ اس امر کا احساس و ادراک مفقود ہے کہ اخبار کے صفحات پر شائع چند سطرےں اور الےکٹرانک مےڈےا و سماجی وےب سائٹس پر نشر کیے جانے والے الفاظ کے نشتر کسی کی پور پور کو زخمی اور اسے ذہنی و نفسےاتی بےمارےوں میں مبتلا کر کے نہ صرف بستر مرگ پر پہنچا سکتے ہےں بلکہ معاشرے‘ فےملی حلقہ احباب میں اس کی بدنامی کا باعث بھی بن سکتے ہےں۔چڑےاں چگ گئےں کھےت کے مصداق اگر بعد ازاں تردےد بھی کر دی جائے تو اس کی پےشانی پر لگی ےہ کالک کسی طور مٹائی نہےں جا سکتی کےونکہ ےہ ضروری نہےں ہے کہ اس کی بدنامی کے ضمن مں سنی جانے والی خبر کی تردےد سے بھی وہ ناظرےن و قارئےن آشنا ہوں۔اس تناظر میں بہتر راستہ ےہی ہے کہ خبر کو اس وقت تک شائع ےا نشر نہ کےا جائے جب تک اس کی سچائی کے مسلمہ ہونے اور ثبوت و شواہد کی موجودگی کا ےقےن نہ ہو جائے۔عزت اچھال کر معذرت کرلےنے کی کوئی توجےہہ نہےں ہے۔ اس کا تدارک اسی صورت ممکن ہے کہ جسے خبر کے پلےٹ فارم کے ذرےعے اپنی انا ‘ضد اور مخالفت کی سان پر چڑھاےا گےا ہے اسے اس کی سزا ضرور ملنی چاہےے۔ پوری دنےا میں ےہی طرےقہ کار نافذ ہے اور ترقی ےافتہ ممالک نے فےک نےوز کے بارے میں انتہائی سخت قوانےن تشکےل دےے ہوئے ہےں‘ وہاں بھاری جرمانوں کے ساتھ ساتھ متعلقہ چےنل اور اخبار کی بندش سے بھی گرےز نہےں کےا جاتا ےہی وجہ ہے کہ ہمارے مےڈےا کی بہ نسبت ان کے مےڈےا کو عالمی سطح پر زےادہ مستند تصور کےا جاتا ہے۔حال ہی میںپنجاب حکومت نے ہتک عزت قانون 2024 کی ایوان سے جو منظوری لی ہے اس کے مطابق بل کا اطلاق پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر ہوگا۔ جس کے تحت پھیلائی جانے والی جھوٹی اور غیر حقیقی خبروں پر ہتک عزت کا کیس ہو سکے گا۔ بل کا یوٹیوب، ٹک ٹاک، ایکس (ٹوئٹر)، فیس بک، انسٹا گرام کے ذریعے پھیلائی جانے والی جعلی خبروں پر بھی اطلاق ہوگا۔کسی شخص کی ذاتی زندگی اور عوامی مقام کو نقصان پہنچانے کیلئے پھیلائی جانے والی خبروں پر قانون کے تحت کارروائی ہوگی، ہتک عزت کے کیسز کیلئے خصوصی ٹربیونلز قائم ہوں گے جو چھ ماہ میں فیصلہ کرنے کے پابند ہوں گے۔بل کے تحت 30 لاکھ روپے کا ہرجانہ ہوگا، آئینی عہدوں پر موجود شخصیات کے خلاف الزام تراشی کی صورت میں ہائی کورٹ کے بنچ کیس سننے کے مجاز ہوں گے۔ خواتین اور خواجہ سراﺅں کو کیس میں قانونی معاونت کےلئے حکومتی لیگل ٹیم کی سہولت میسر ہوگی۔حےرت انگےز اور افسوسناک امر ےہ ہے کہ اپوزیشن نے ہتک عزت بل کو مستردکرتے ہوئے بل سے متعلق دس سے زائد ترامیم پنجاب اسمبلی میں جمع کرائی ہےں۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق نے بل کے اہم نکات اور اپوزیشن کے اعتراضات کا جواب دیا اور تمام ترامیم مسترد کردی گئیں۔ اپوزیشن نے بل کو کالا قانون قرار دیا اور بل کی کاپیاں پھاڑ کر احتجاج کیا۔حکومت نے صحافتی تنظیموں کی جانب سے بل موخر کرنے کی تجویز بھی مسترد کردی۔ صحافتی تنظیموں نے وزیر اطلاعات پنجاب سے ملاقات میں بل کوکچھ روز موخر کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا تھاکہ صحافتی تنظیمیں بل سے متعلق اپنی تجاویز دینا چاہتی ہیں۔ ہتک عزت قانون کا بل وزیر پارلیمانی امور مجتبی شجاع الرحمن نے ایوان میں پیش کیا تھا جس پر صحافیوں نے پریس گیلری سے احتجاجا واک آﺅٹ کیا۔ےہ تو کہا جا سکتا ہے کہ اس بل کے بارے میں آراءو تجاوےز پر غور کےا جا سکتا تھا لےکن اس بل کے ےکسر استرداد کا کوئی منطقی جواز نہےں ہے۔ےہ اعتراضات آزادی صحافت کو ےقےنی بنانے کے لےے نہےں بلکہ بے لگام آزادی کے تسلسل پر دلالت کرتے اور جوابدہی کے عمل سے انکار کے مترادف ہےں ۔ہمارے ہاں نظرےاتی صحافت کی بجائے موضوعاتی اور وکالتی صحافت کا زور ہے۔پاکستان میں صحافت دنےا کے کسی بھی ملک سے زےادہ آزاد ہے لےکن آزادی کی حدود و قےود کو پرکاہ کے برابر بھی اہمےت نہےں دی جاتی۔کےا ےہ بتاےا جا سکتا ہے کہ وہ کون سا ملک ہے جہاں کے صحافی کو اتنی سہولیات حاصل ہیں کہ وہ جب چاہے، جیسے چاہے بغیر ثبوت کے کسی بھی شریف آدمی یا ادارے کو بلاوجہ اپنے مقاصد کی خاطر بدنام کر دے اور اسے کسی پےلٹ فارم پر اپنی اس حرکت پہ احتساب کے عمل سے بھی نہ گزرنا پڑے ۔ اگر حکومت پاکستان یا خفیہ ادارے کسی صحافی یا میڈیا ہاﺅس کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا لبادہ اوڑھاےا جاتا ہے ےہ سوچے بغےر کہ جسے بدنام کےا جا رہا ہے کےا اس کے انسانی حقوق نہےں ہےں۔وہ کس سے فرےاد کرے؟کہاں اپنا دکھڑا روئے؟کےسے اپنی عزت نفس کے مجروح ہونے کا ماتم کرے؟اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کے نےم مردہ جسم کو کہاں دفنائے؟ کوئی تو اےسا فورم اور قانون ہو جس کے تحت متاثرہ شخص انصاف حاصل کر سکے ۔ کوئی بھی ایسا ادارہ کےوں نہیں ہے جو حقیقی معنوں میں چھان بین کر کے ایک ایسا لائحہ عمل اپنا سکے جس کے ذریعے کسی بھی پاکستانی شہری کے حقوق کی پامالی نہ کی جا سکے۔کےا صحافتی اداروں اور صحافتی تنظےموں کو صحافت کی بدنامی کا موجب بننے والی کالی بھےڑوں سے اس مقدس و پےغمبرانہ شعبے کو پاک کرنے کےلئے حکومت کا ساتھ نہےں دےنا چاہےے۔ہتک عزت بل پر اب تک جو اعتراضات اٹھائے گئے ہےں ان میں کوئی وزن دکھائی نہےں دےتا۔اےک وقت تھا جب صحافت اخلاقےات کے پرچار کا بہت بڑا ذرےعہ تھی پھر پرائیویٹ چینلز کا دور آےا تو صحافت اخلاقےات کی دوڑ سے نکل کر ریٹنگ کی مےراتھون میں شامل ہو گئی ۔ خبر کی درست یا غلط صحت کے پےمانے بدل گئے۔ ملک و قوم کے مفاد کو بھی پس پشت ڈالا جانے لگا ۔ بحث و مباحثے اخلاقیات کی حدود میں ہیں یا نہیں ‘تحرےر و گفتگو کے معیار و انداز کے سطحی ہونے پر بھی جبےنےں شکن آلود نہ ہوئےں۔سنجیدہ پروگراموں کی بجائے ‘گالم گلوچ و سنسنی خیز ٹاک شوز جس میں ہاتھا پائی کا عنصر غالب ہو کو پذےرائی ملنے لگی۔دراصل اےسے افراد نے اس شعبے کا رخ کےا جن کا صحافت سے دور کا بھی واسطہ نہےں تھا ‘نہ ہی انہےں صحافت کی الف ب کا پتہ تھا ۔وہ ناجائز ذرائع سے کمائی گئی اپنی بے پناہ دولت کے تحفظ‘ ٹےکس کی بچت اور بلےک مےلنگ کے ذرےعے مال اکھٹا کرنے کےلئے اس دشت کی سےاحی میں غوطہ زن ہو گئے۔ ان کا مطمح نظر زےادہ سے زےادہ دولت کا حصول تھا خواہ ان کے الفاظ اور پروگراموں کے ذرےعے قوم کی اجتماعی غےرت کا جنازہ ہی کےوں نہ نکل جائے۔پاکستان کا ےہ واحد شعبہ ہے جس کےلئے کسی تجربے اور کوالےفےکےشن کی ضرورت نہےں‘ کسی بھی فےلڈ سے تعلق رکھنے والا ہاتھ میں مائےک اور گلے میں کارڈ لٹکا کر صحافی بن جاتا ہے‘ڈاکٹرز و انجےنئرز تجزیہ کار، اینکرپرسن اور کالم نگاربن گئے ہیں۔ تعلےم و تجربے کی کوئی قےد نہےں ‘چند دن کام کرنے کے بعد سےنےئر صحافی کا ٹےگ از خود لگا لےا جاتا ہے۔ اےڈمنسٹرےشن‘ کمپےوٹر سےکشن‘ بزنس‘اشتہارات وغےرہ سے تعلق رکھنے والے بھی بڑے فخر سے خود کو صحافی کہلوانے لگتے ہےں۔کےا کسی ڈاکٹر کے مدد گار کے طور کام کرنے والا برسوں کے تجربے کے باوجود بھی خود کو ڈاکٹر کہلوا سکتا ہے لےکن صحافت کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والا خود کو صحافی کہلانے میں کوئی عار محسوس نہےں کرتا‘ ےہاں تجربہ کار و ناتجربہ کار‘ صحافت کی ڈگری رکھنے والا اور چند جماعتےں پڑھنے والا سب اےک ہی صف میں کھڑے محمود واےاز کا نظارہ پےش کر رہا ہوتا ہے ۔صحافتی قوانےن سے ناآشنا افراد دھڑلے سے صحافت کر رہے ہےں اےسے میں انہےں ملک و قوم کے وقار کا احساس کس طرح ہو سکتا ہے ‘ وہ کےسے جان سکتے ہےں‘ ان کے پاس موجود معلومات کا شائع کرنا کس حد تک درست ےا غلط ہے۔ اس سے ملک و قوم کو کتنا نقصان ہو سکتا ہے ۔صحافت میں دےگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہےں لےکن اس کےلئے اس شعبے کا علم حاصل کرنا ضروری ہے بصورت دےگر اس کا وہی نتےجہ نکلے گا جوسائےکل چلانے والے کو ہےلی کاپٹر اڑانے کے لےے دےنے کا ہو سکتا ہے۔صحافت آزاد ہونی چاہئے لےکن ےہ آزادی کس قدر ہو اس کا تعےن نہ کرنا ےا نہ کرنے دےناجنگل کو آگ لگانے کی اجازت دےنے جےسا ہے۔کےا ہم نہےں جانتے کہ ہمارے چےنلز پر بےٹھے ہوئے نام نہاد پروفےشنلز قوم کو ماےوسی وناامےدی کی دلدل میں دھکےلنے کے علاوہ کےا کر رہے ہےں‘ ہر وقت تشکیک، سنکی پن، نفرت، شکستگی کا اظہار کےا صحافت ہے،انہےں ہرسو اندھےرا ہی دکھائی دےتا ہے‘ ہر لحاظ سے مثبت اقدامات کی تعرےف و حوصلہ افزائی کرتے ہوئے بھی ان کی زبانےں گنگ ہو جاتی ہےں ۔ پارٹی بن کر فےصلے کرنا‘ اپنے نظرےات تھوپنا‘ اپنے کہے کو حرف آخر تصور کرنا‘ آئےن نو سے ڈرنا اور طرز کہن پر اڑنا جن کا وتےرہ ہو‘ زمےں جنبد نہ جنبد گل محمد کے سے روےے اختےار کرنا اگر صحافت ہے تو اےسی صحافت سے اس شعبے کا عدم وجود ہی قوم کے لےے کسی نعمت سے کم نہےں۔ آزادی رائے سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے وطن عزیز کو مشکلات کا شکار کرنا ےا عالمی برادری میں اس کی بدنامی کا موجب بننا ہرگز صحافت نہےں۔کےا مےڈےا کو کسی ضابطہ اخلاق کا پابند نہےں ہونا چاہےے؟پچھتہر سال گزرنے پر بھی مےڈےا ہاﺅسز کوئی ضابطہ اخلاق مرتب کرنے میں کامےاب نہےں ہو سکے کےونکہ انہےں ےہ پسند ہی نہےں کہ انہےں کسی قانون قاعدے کا پابند بناےا جائے ےہی وجہ ہے کہ جب بھی حکومتی سطح پر صحافت کو قوانےن کے دائرے میں لانے کےلئے کوئی قدم اٹھاےا جاتا ہے تو اعتراضات کا طومار باندھتے ہوئے ہڑتالوں‘ احتجاج اور واک آﺅٹ سے کام لےا جاتا ہے۔اپوزےشن کی جانب سے ہتک عزت بل کی ہر فورم پر مخالفت کا اعلان درست نہےں ہے۔ اگر بل کی بارہ شقوں میں تضاد ہے تو اس پر گفت و شنےد کا راستہ اختےار کےا جا سکتا ہے گورنر پنجاب نے بھی اس پہ نظرثانی کے بعد دستخط کرنے کا کہا ہے لہذا عقلمندی کا تقاضا ےہ ہے کہ بل کی محالفت کرنے کی بجائے اس کے مثبت پہلوﺅں کو پےش نظر رکھا جائے۔