عاشق حسین سفر
محترم قارئین آپ سب بھی اس بات سے یقینا اتفاق کریں گے کہ زبان اردو جس کو لوگ پہلے ریختہ اور اردو معلی کے نام سے جانتے تھے ایک ایسی زبان ہے جو کئی زبانوں سے مل کر بنی ہے۔ اردو زبان میں جہاں کچھ دوسری زبانوں نے اپنا حصہ ڈالا ہے یا ڈال رہی ہیں، وہیں فارسی اور عربی بھی پوری شد و مد کے ساتھ اردو کو ایک زبان کی شکل دینے کے لیے ہر طرح کی امداد کرتے ہوئے نظر آتی ہیں ۔ امداد چاہے حروف تہجی کے لحاظ سے ہو ، رسم الخط کے حوالے سے ہو ، مختلف الفاظ کی فراہمی کی شکل میں ہوں یا کسی اور صورت اور میں ۔ الغرض ہر طرح کا تعاون کر رہی ہیں۔اردو کے خزانے میں الفاظ کی بہت ہی کمی ہے جس کی وجہ سے اس زبان میں اپنی مافی الضمیر دوسروں تک پہنچانے کے لیے اکثر کسی دوسری زبان مثلا ہندی ،سنسکرت، فارسی یا عربی کے مختلف لفظوں سے مدد لینی پڑتی ہے ۔عربی زبان میں ایک اسم ہے اسم تفضیل جس کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ اسم التفضیل اسم اشتق من فعل لیدل علی الموصوف بزیادتہ علی غیرہ یعنی اسم تفضیل فعل سے بنا وہ اسم مشتق ہے جو اس بات پر دلالت کرے کہ موصوف میں وہ صفت دوسروں سے زیادہ پائی جاتی ہے۔عربی میں اسم تفضیل اکثر افعل کے وزن پر آتے ہیں اور فعلی بھی استعمال ہوتا ہے ۔ افعل مذکر کے لیے اور فعلی مونث کے لیے ۔عربی کے بہت سارے اسم تفضیل اردو میں بھی مستعمل ہیں ۔مثلا اصغر ،اکبر ،صغری، کبری وغیرہ جن کے بالترتیب معانی ہیں سب سے چھوٹا کسی دوسرے شخص۔چیز سے چھوٹا ،سب سے بڑا۔دوسرے سے بڑا، سب چھوٹی ۔دوسرے سے چھوٹی ، اور سب سے بڑی۔دوسرے سے بڑی ۔اس تناظر میں ہم محترم افضل روش کے نام کا تجزیہ کریں تو یہ نام اسم با مسمی نظر آتا ہے۔ لفظ افضل بھی اسم تفضیل ہے جس کا مطلب ہے سب سے زیادہ فضیلت والا کسی دوسرے سے زیادہ فضیلت والا ۔ دوسرا لفظ روش طور، طریقہ ،انداز اور اسلوب کے معنی میں مستعمل ہے۔ اگر ہم افضل کے ساتھ روش کا سابقہ لگائیں تو اس کے معنی سب سے بہتر انداز، بہتر طریقہ ،بہتر اسلوب وغیرہ لے سکتے ہیں لہذا افضل روش کو سب سے بہتر انداز اور اسلوب والا شاعر و ادیب قرار دینے میں حق بجانب ہے جو ان کا ذاتی نام بھی ہے اور صفاتی نام بھی ۔افضل روش کی ذات کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے ۔نامی گرامی اور مقبول شخصیت ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔ اپنی مادری زبان بلتی اور اردو سے بہت لگاﺅ رکھتے ہیں۔ دونوں زبانوں میں شاعری بھی کرتے ہیں اور کئی اصناف ادب میں نثر بھی لکھتے ہیں ۔ بلتی زبان سے جنون کی حد تک محبت کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ بلتی زبان کے متروک اور قدیم الفاظ کو اپنی نظم اور نثر دونوں میں جا بجا استعمال کرتے ہیں تاکہ نوجوان نسل اپنی زبان کے ان الفاظ سے آگاہ ہو سکیں اور یوں یہ الفاظ زندہ رہیں ۔ ان کی اردو نظم و نثر میں بالعموم اور بلتی نظم و نثر میں بالخصوص بلتستان کی تہذیب و ثقافت، طرز و تمدن ، تاریخ و ادب ، مذاہب و عقائد، رہن سہن کے طور طریقے اور آداب معاشرت سے ان کی والہانہ محبت جا بجا نظر آتی ہیں۔ افضل روش کو افضل روش کہنا اس لیے بھی جچتا ہے کیوں کہ وہ صرف اس لیے نہیں لکھتے کہ ادب برائے ادب کے نظریے کے تحت بس لکھنا چاہیے بلکہ وہ نظم اور نثر دونوں کو محبت، چاہت ، مزاحمت ،عقیدت ،آگاہی اور بیداری کا وسیلہ سمجھ کر لکھتے ہیں۔ انقلاب ان کی شاعری کا خاص موضوع ہے اس لیے بلتستان کے کئی شاعر اور ادیب انہیں سر زمین بلتستان کا شاعر انقلاب بھی کہتے ہیں ۔ روش صاحب نے بلتی ادب میں کئی اہم کارنامے انجام دئے ہیں جس کے باعث آپ کو بلتستان کے دوسرے شاعروں اور ادیبوں میں نمایاں امتیاز حاصل ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں ۔
سب سے پہلا امتیاز یہ ہے کہ ماں پر بلتی زبان میں سب سے پہلی نظم جو پر درد ہونے کے ساتھ ساتھ ماں کی عظمت کی عکاس ہے، آپ کی فکر رسا سے ہی خلق ہوئی ہے ۔یہ نظم آج کل زبان زد خاص و عام ہے جس کا مطلع یوں ہے ۔
”نی انو ننگنو نا اونگ مو لا سکیدے ریا دوک توک
ربیسے مید سوک پہ نہ سپل بینگ نو بیسینگ چا دوک توک “
ترجمہ:مری ماں اکثر مرے گھر واپس آنے کی تمنا کرتی ہوگی۔ اگر مری قسمت میں پردیس میں بھٹکنا لکھا نہ ہوتا تو میں کیوں کر رہتا۔
نظم کے مقطع میں اپنے آپ سے اس انداز میں شاکی ہے۔
انو نا تھوک پہ یولینگ کھیانگ مہ مگو چا لے روش
کھری بڑنگ کھوق لا کھیرے سنینگ چی میدوگ ردوا دوک توک“
ترجمہ: اے روش تم ماں سے ملنے گاﺅں کیوں نہیں جاتے، شاید تمہارے سینے میں دل نہیں پتھر ہو گا ۔
آپ کا دوسرا بڑا امتیاز ہے بلتی زبان میں افسانہ کی پہلی کتاب ”فہ ہرتخ“کا خالق ہونا ہے۔ اس کتاب میں تقریبا گیارہ افسانے ہیں جن میں رنٹھق، سون بور ، نمروز ،بیانو ،مک کھڑب وغیرہ شامل ہے۔
تیسرا امتیاز جو کہ آپ کو کچھ مہینوں پہلے ہی حاصل ہوا ہے ”شہ سر“جیسی کتاب کا مصنف ہونا ہے۔ ”شہ سر“بلتی زبان میں لکھا گیا سب پہلا ناول ہے۔
یہ کارنامے یقینا بلتستان اور بلتی زبان پر افضل روش صاحب کے بڑے احسانات ہیں ۔ ان کی ہر کتاب تفصیلی تبصرے کی متقاضی ہے جن پر مستقبل قریب میں قلم اٹھانے کی کوشش کروں گا۔ ہماری دعا ہے کہ خدا ان کے قلم کو اور زیادہ روشنائی بخشے ۔آمین