جوش قومی ادبی سیمینار

عاشق فراز

شاید ہی نثر و نظم کا کوئی طالب علم ہوگا جس نے جوش صاحب کی یادوں کی بارات نہ پڑھی ہوں۔ جوش صاحب سے ہماری اپنی شناسائی بھی طالب علمی کے دور میں اسی کتاب کے توسط سے ہوئی تھی اور ان کی شاعری اور مرثیہ نگاری سے واقفیت اگلے مرحلے میں ہوئی۔یوں تو ناول، شاعری اور افسانے پڑھنے کا شوق تو سکول دور سے چڑھا تھا لیکن کالج کی سطح پر یہ شوق کچھ زیادہ ہی فزوں تر ہو گیا تھا۔ ڈگری کالج سکردو کی لائبریری غالبا بلتستان کی واحد لائبریری تھی جس میں کافی تعداد میں اچھی اور معیاری کتابیں موجود تھیں۔ کالج میں داخلہ ملتے ہی پہلا کام لائبریری کا کارڈ بنانے کا تھا تاکہ کتابیں جلد سے جلد اپنے نام ایشو کی جاسکےں۔کتابیں پڑھنے کے اسی شوق نے جوش صاحب سے متعارف کیا اور کالج لائبریری سے یادوں کی بارات ہاتھ لگی تھی۔اوائل عمری میں جوش صاحب کے طرز تحریر اور بیاں کی بیباکی کو دیکھ کر بدن میں کچھ جھرجھری سی دوڑ گئی تھی کیونکہ اس طرح کے لٹریچر کی سمجھ نہیں تھی۔ بعد ازاں جب مطالعے میں کچھ وسعت آئی تو معلوم ہوا کہ جوش صاحب کون ہیں اور ان کا علمی قد کاٹھ کتنا اونچا ہے۔جوش صاحب کی برسی کے موقع پر اکادمی ادبیات اسلام آباد میں ایک تقریب ہوئی جس میں اہم علمی و ادبی شخصیات نے شرکت کی۔ڈاکٹر روش ندیم نے جوش صاحب کے تخلیقی رحجانات اور فنی محاسن کو بڑے دلچسپ پیرائے میں بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ جہاں جوش صاحب نے شاعری میں انقلاب اور بغاوت کی بات کی ہے وہیں پر انہوں نے محبوب کے کلاسیکل تصور کو بھی بدل دیا ہے۔ان کے مطابق کلاسیکی شاعری کا محبوب انانیت اور ایک لحاظ سے elite طرز فکر کا عملی اظہار تھا جبکہ جوش صاحب نے اس روش سے انحراف کیا اور اسے عام بنادیا۔ روش ندیم کے مطابق کلاسیکل عہد کا جاگیردارانہ ماحول نے معاشرتی تفہیم بھی اپنے انداز سے کی تھی لہذا جمالیات میں بھی یہی عنصر زیادہ شدومد سے کار فرما تھا۔ ان کے مطابق جوش صاحب نے محبوب کے اشرافی طرز تصور کو بدل ڈالا جو ادبی کائنات میں ایک بڑی جست کہی جاسکتی ہے۔محمد اظہار الحق کے نظم و نثر میں ایک الگ تازگی اور فرحت موجود ہے۔ ان سے پہلا تعارف تو ان کے اخباری کالموں کے توسط سے رہا جن کی ہیت اور طرز بیانی کچھ الگ تھی۔ جب سے ہم نے اخبارات پڑھنا شروع کیا تب سے کالم نگاری میں ارشاد احمد حقانی ، ڈاکٹر جمیل، افتخار عارف ،جالبی، منو بھائی ، محمود شام، عطا الحق قاسمی ، کشور ناہید ،اطہر عباس ، ناصر زیدی ، اظہر سہیل ، مجیب الرحمن شامی، حسن نثار، ایاز امیر وغیرہ چھائے ہوئے تھے۔ بعد ازاں سہیل وڑائچ ، حامد میر ، حسن مجتبی ، سہیل مسعود ، رﺅف کلاسرا ، جاوید چودھری ، نسیم زہرا، سلیم صافی کے نام اخباروں کے ایڈیٹوریل صفحات کی زینت بنے۔ متذکرہ بالا تمام شخصیات کے طرز تحریر اور اسلوب مختلف رہا ہے اور مختلف حوالوں سے ان کی تحریریں پسند تھیں۔ محمد اظہار الحق گو کہ نووارد نہیں مگر ان کے ادبی و علمی کام سے شناسائی بہت بعد میں ہوئی۔محمد اظہار الحق نے کالم نگاری میں اپنا الگ راستہ تراشا اور زباں کے الگ ذائقے سے روشناس کرایا آج کل تلخ نوائی کے عنوان سے ان کا کالم روزنامہ دنیا میں شائع ہوتا ہے۔ ان کی شاعری اور دیگر نثر میں بھی جدت اور کمال کی ندرت پائی جاتی ہے جس پر پھر کبھی بات کی جائے گی۔اس تقریب کی صدارت محمد اظہار الحق نے کی اور انہوں نے مختصر مگر پراثر انداز میں جوش صاحب کا خاکہ کھینچا جس سے سب لطف اندوز ہونے۔ ان کا کہنا تھا کہ اکثر سوانح حیات لکھنے والے اپنے بارے میں زیادہ جھوٹ اور دوسروں کے بارے میں کچھ زیادہ ہی سچ لکھ دیتے ہیں۔ مگر جوش صاحب نے اس بدعت کے الٹ کام کیا ہے اور اپنے بارے میں صرف سچ لکھا ہے اور یہ جرات اظہار کی بلند علامت ہے۔محمد اظہار الحق صاحب نے یہ بھی خوب کیا کہ جوش سمیت ہر بڑے شخص کو اس کی جغرافیائی بود و باش کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہئے کیونکہ ہر بڑا صاحب علم شخص خواہ غالب ہوں، میر ہوں، اقبال ہوں یا جوش وہ ہر کسی کے ہوتے ہیں اور ان کیا گیا کام سب کی میراث میں شامل ہے۔محفل میں شامل گلگت بلتستان کی ادبی شخصیت بشارت ساقی کا ذکر بھی لازمی ہے اس لئے نہیں کہ وہ ہمارے دوست اور عزیز ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ جوش صاحب کے بڑے مداح ہیں۔ ساقی نے دو طرح کا کمال کام کیا ہوا ہے گو کہ اس دور مادی پرستی میں شاید دماغ کا خلل سمجھا جائے گا ۔ ان کے گھر میں غالبا گلگت بلتستان کی پہلی نہ سہی تو دوسری یا تیسری بڑی لائبریری موجود ہے اور کتابیں خریدنا اب باقاعدہ ایک جنون بن گیا ہے۔دوسرا کام انہیں علاقے کے ہسٹاریکل اور کلچرل Artifacts میں بیحد دلچسپی ہے اور سینکڑوں چیزیں جمع کر چکے ہیں۔ جب بھی پنڈی آنا ہو تو یا پرانی کتابوں کی دکانوں پر یا بھابھڑا بازار ، صرافہ بازار اور گنج منڈی کی پرانی Antique دکانیں ہی ان کی جائے مسکن ہوتی ہیں۔جوش صاحب کے مداح ہونے کی وجہ سے انہوں نے ان کی پرانی کتابیں ، پہلے ایڈیشنز ، مخطوطات ، خطوط اور ان کے مرثیوں کا سارا ذخیرہ جمع کر رکھا ہے۔ پاکستان اور اس سے باہر بھی جوش صاحب کے بڑے مداحوں اور قلم کاروں سے ساقی کے ذاتی روابط ہیں بلکہ اس حوالے سے ڈاکٹر ہلال نقوی جو جوش صاحب کے حوالے سے سب سے زیادہ کام کر رہے ہیں ان سے ساقی کا ہر دوسرے روز فون پر رابطہ رہتا ہے اور آپس میں جوش صاحب کی کتابیں شئیر کرتے رہتے ہیں۔ علاہ ازیں ان کا کینیڈا میں ڈاکٹر تقی عابدی صاحب سے بھی بڑا یارانہ ہے اور ساقی کی دعوت پر ڈاکٹر صاحب سکردو بھی تشریف لائے اور کئی ادبی محفلوں کو رونق بخشی تھی۔22 فروری کو اکادمی ادبیات اسلام آباد میں جوش صاحب کے بیالیسواں یوم وفات کے حوالے سے ایک قومی ادبی سیمینار منعقد کیا گیا۔ اس سیمنار کے حوالے سے پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس میں پچھلے ہفتے منعقدہ مادری زبانوں کا ادبی میلہ میں اطلاع دی گئی تھی۔سیمنار کی صدارت افتخار عارف نے کرنی تھی اور غالبا وہ لاہور لٹریری فیسٹیول کے حوالے سے لاہور میں تھے اس لئے شریک نہ ہوسکے لہذا یہ ذمہ داری منفرد انداز کے قلم کار اور کالم نگار محمد اظہار الحق کے کندھوں پر رکھی گئی۔منتظمین میں جوش فاﺅنڈیشن ، زاویہ اور اکادمی ادبیات کا ادارہ شامل تھا اور جوش فاﺅنڈیشن کی طرف سے فرخ جمال موجود تھے جو جوش صاحب کے نواسے ہیں۔تقریب میں اکادمی ادبیات کی چیئرپرسن ڈاکٹر نجیبہ عارف ، حسن عباس رضا ، ڈاکٹر روش ندیم ، بریگیڈیئر محمد اکرم، ارشد چہال سمیت کئی اہم ادبی شخصیات نے شرکت کی۔ نظامت کی ذمہ داری مشہور شاعر محبوب ظفر نے خوب نبھایا اور جوش صاحب کی نظموں اور اشعار سے محفل کا لطف بڑھایا۔

اشعار کو زر تار قبا دیتا ہوں

افکار کو آہنگ بنا دیتا ہوں

الفاظ کو بخشتا ہوں شکلِ اصنام

آواز کو آنکھوں سے دکھا دیتا ہوں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں