سید مجاہد علی
یمن کے حوثیوں پر امریکہ و برطانیہ کے فضائی و میزائل حملوں کے بعد عرب ممالک نے علاقے میں جنگ کی صورت حال پر تشویش ظاہر کی ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اردن و مصر سمیت متعدد عرب ممالک نے کہا کہ وہ صورت حال کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہے ہیں۔ ترکیہ کے صدر طیب اردوان اور ایران نے ان حملوں کی مذمت کی ہے۔ صدر اردوان کا کہنا ہے کہ امریکہ بحیرہ احمر کو خون کا سمندر بنا دینا چاہتا ہے۔جمعہ کو بحیرہ احمر میں امریکی و برطانوی بحری بیڑے نے حوثی ٹھکانوں پر فضائی حملوں کے علاوہ متعدد راکٹ بھی داغے تھے۔ یہ حملے بظاہر اس علاقے میں تجارتی بحری جہازوں پر حوثیوں کے حملوں کے جواب میں کیے گئے تھے۔ اس سے پہلے بدھ کو سلامتی کونسل نے ایک قرارداد میں تجارتی بحری جہازوں پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان حملوں کو بند ہونا چاہیے کیوں کہ یہ غیر ضروری طور سے اشتعال پیدا کر رہے ہیں۔ البتہ حملوں کے بعد حوثی لیڈر عبدالمالک الحوثی نے ایک ٹیلی ویژن تقریر میں کہا ہے کہ ہمارے خلاف کسی بھی امریکی حملہ کا ترکی بہ ترکی جواب دیا جائے گا۔ حوثی ترجمان اس سے پہلے واضح کرتے رہے ہیں کہ وہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف تجارتی بحری جہازوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ حوثی ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم خاص طور سے ان جہازوں کو نشانہ بناتے ہیں جن کا کسی بھی طرح اسرائیل سے کوئی تعلق ہو۔ اب ایران کے حمایت یافتہ اس گروپ کے لیڈر الحوثی نے دعوی کیا ہے کہ امریکی و برطانوی حملوں کے بعد جوابی کارروائی ہوگی اور بحیرہ احمر میں مزید حملے کیے جائیں گے۔یمن کے حوثیوں پر امریکہ اور برطانیہ کے حملوں کے بعد ترکیہ کے صدر طیب اردوان نے سخت رد عمل دیا ہے۔ حالانکہ ترکیہ امریکہ و دیگر یورپی ملکوں کے عسکری اتحاد نیٹو کا رکن ہے لیکن مشرق وسطی اور اس سے ملحق علاقے میں پالیسیوں کے حوالے سے ترکیہ نے ہمیشہ امریکہ مخالف پالیسی اختیار کی ہے۔ صدر اردوان کا کہنا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کی کارروائی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ بحیرہ احمر کو خون کے سمندر میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ حوثی پر کیے گئے حملے غیرمعمولی سخت کارروائی ہے ۔ اس بیان میں صد اردوان نے اس تنازع کے پھیلنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ اس حوالے سے ماہرین بھی تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ اندازے کی ایک غلطی غزہ میں اسرائیل کی شروع کی گئی جنگ دیگر علاقوں تک پھیل سکتی ہے۔ البتہ امریکہ نے حوثی ٹھکانوں پر حملوں کے تناظر میں یہی تاثر دیا ہے کہ امریکہ تنازع بڑھانا نہیں چاہتا لیکن وہ اہم سمندری مواصلت کو لاحق خطرہ پر خاموش بھی نہیں رہ سکتا کیوں کہ اس سے اس کی معیشت و سےکیورٹی کو براہ راست خطرہ لاحق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غزہ پر اسرائیلی حملہ کے بعد امریکہ نے اس علاقے میں اپنے بحری بیڑے بھیجے تھے اور وہ یمن کے علاوہ شام اور عراق میں ایران نواز گروہوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ بعض صورتوں میں امریکی بحریہ نے شام و عراق میں محدود کارروائی بھی کی ہے۔امریکہ نے بحری تجارتی جہازوں پر حوثی حملوں کے بعد ایک طرف سلامتی کونسل سے مذمتی قرار داد منظور کروانے کا اہتمام کیا تو دوسری طرف بیس ممالک کے ساتھ مل کر آپریشن پراسپیریٹی کے نام سے ایک عالمی اتحاد بھی قائم کیا تھا۔ اس اتحاد کا مقصد یہی تھا کہ اگر کسی صورت میں امریکہ کوئی جنگی کارروائی کرتا ہے تو اسے عالمی برادری کا ردعمل قرار دینے کی کوشش کی جائے۔ اسی لیے جمعہ کو ہونے والے حملوں کا اعلان کرتے ہوئے صدر جو بائیڈن نے بتایا تھا کہ یہ حملے برطانیہ کے علاوہ آسٹریلیا، کینیڈا، بحرین اور نیدر لینڈ کے تعاون سے کیے گئے تھے۔ نیٹو اور اس کے بیشتر ارکان کے علاوہ دنیا بھر میں امریکہ کے دیگر حلیف ممالک نے ان حملوں کو عالمی تجارت کی حفاظت کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔ تاہم ناروے کے وزیر خارجہ ایسپن بارتھ آئیدے نے ایک طرف تجارتی جہازوں پر حوثی حملوں کو غلط کہا ہے اور امریکی کارروائی کی حمایت کی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس تشویش کا اظہار بھی کیا ہے کہ یہ تنازع مشرق وسطی کی بڑی جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سارے تنازع کی بنیاد غزہ کی جنگ ہے۔ ہم سب کو کسی بھی طرح اس جنگ کو روکنے کی کوشش کرنا چاہیے۔حوثی قبائل ایک مضبوط عسکری گروہ ہے جو یمن کے بڑے علاقے پر قابض ہے۔ یہ گروپ علاقے میں سعودی اثر و رسوخ کے خلاف 80 کی دہائی میں قائم ہوا تھا اور اسے ایران کی حمایت حاصل ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس گروپ کے پاس بےس ہزار نفوس پر مشتمل فوجی دستے ہیں۔ 2014 میں حوثیوں نے سعودی عرب کی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس کے بعد سعودی عرب نے اپنے حلیف ممالک کے ساتھ مل کر حوثیوں کے خلاف مسلسل کارروائی کی ہے لیکن ان کی عسکری قوت کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ البتہ یمن کے شہریوں کو بے پناہ صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اقوام متحدہ یمن کی صورت حال کو دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں شامل کرتی ہے۔ وہاں بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے تخمینہ کے مطابق سعودی عرب کی مسلط کی ہوئی جنگ میں ڈیڑھ لاکھ لوگ ہلاک ہوئے تھے جبکہ قحط یا خوراک کی قلت سے مرنے والوں کی تعداد دو لاکھ 30 ہزار کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔اب اگر سعودی عرب کی بجائے امریکہ اپنے حلیف ملکوں کے ساتھ مل کر اور اپنے بحری بیڑے کی بنیاد پر حوثیوں کے ساتھ کسی طویل المدت جنگ میں الجھنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ جنگ درحقیقت اسے تن تنہا ہی لڑنا پڑے گی۔ اس تنازع میں اسے کوئی بڑی حمایت میسر نہیں آ سکے گی۔ علامتی طور سے ہو سکتا ہے کہ درجنوں ممالک امریکی اتحاد میں شامل رہیں لیکن اس جنگ کے مصارف اور ذمہ داری بہر حال امریکہ ہی کو برداشت کرنا پڑے گی۔ صدر جو بائیڈن ایک جہاندیدہ سیاست دان ہیں لیکن ان سے اندازے کی یہ غلطی ہو رہی ہے کہ کوئی تنازع شروع کر کے اسے آسانی سے کسی انجام تک نہیں پہنچایا جاسکتا ہے۔ ایک بار جنگ میں ملوث ہونے کے بعد سفارت کاری کا مرحلہ مشکل ہوجاتا ہے اور کوئی بھی ملک تصادم میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ امریکہ نے ماضی قریب میں افغانستان اور عراق میں دہشتگردی ختم کرنے کی نیت سے جنگیں شروع کر کے دیکھا بھی ہے کہ کوئی بھی تصادم اسلحہ و بارود سے جیتنا ممکن نہیں ہوتا۔ 2021 میں امریکی افواج کو جس ہتک آمیز طریقے سے کابل چھوڑنا پڑا تھا، اسے امریکہ کی براہ راست شکست نہ بھی کہا جائے، پھر بھی اس نے امریکی غرور نخوت کے چہرے سے نقاب ضرور سرکا دیا تھا۔اسی لئے اسرائیل نے جب غزہ میں فوجی کارروائی کو طول دینا شروع کیا تو صدر بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو افغانستان میں امریکی جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے یہی سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ تنازع کو طول دینا کسی کے فائدے میں نہیں ہوتا اور اس سے کوئی بڑا مقصد بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ اب تین ماہ سے جاری جنگجوئی کے باوجود اسرائیل نہ تو کوئی بڑا ہدف حاصل کر سکا ہے اور نہ ہی اپنے یرغمالیوں کو رہا کروانے میں کامیاب ہوا ہے۔ اس کے برعکس غزہ میں انسانی جانوں کے شدید نقصان اور سویلین سہولتوں کو تباہ کرنے کے نتیجہ میں اسے دنیا بھر میں نسل کشی کے الزامات کا سامنا ہے۔ اب جنوبی افریقہ یہ تنازع ہیگ کی عالمی عدالت میں لے کر گیا ہے جہاں اسرائیل کے خلاف نسل کشی اور جنگی جرائم کے الزامات پر کارروائی ہو رہی ہے۔اس تناظر میں امریکہ اگر حوثیوں کے خلاف تسلسل سے کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ ایک نئے تنازع میں ملوث ہو کر اپنی معیشت اور عالمی سفارتی ساکھ کو شدید نقصان پہنچانے کا سبب بنے گا۔ اور اگر صرف ایک دو بار حملوں سے یہ تصور کر لیا جائے کہ حوثی خوفزدہ ہو کر بحری جہازوں پر حملے بند کر دیں گے تو اسے اندازے کی سنگین غلطی کہنا چاہیے۔ اس دوران میں یہ اندیشہ بہر حال موجود رہے گا کہ کسی بھی وقت کوئی ایسا سانحہ رونما ہو سکتا ہے جس سے یہ جنگ براہ راست دو ممالک کے درمیان شروع ہو جائے۔ امریکہ اور دنیا ایسی کسی جنگ کا بوجھ اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ حیرت ہے کہ امریکی حکومت نے حوثیوں پر حملہ سے پہلے ان سب اندیشوں کو مناسب طریقے سے جانچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔یمن پر حملوں کے بعد ایران کی وزارت خارجہ نے امریکہ و برطانیہ کی کارروائی پر رد عمل دیتے کہا ہے کہ یہ حملے ایک ایسے وقت میں کیے گئے ہیں جب کہ امریکہ کی طرف سے فلسطینیوں کے خلاف تقریبا 100 دن سے جاری صیہونی جنگ جوئی کی مکمل حمایت کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ حملے یمن کی خود مختاری کے خلاف ہیں اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں ۔ روس نے بھی ان حملوں کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ روسی وزارت خارجہ کی ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکہ نے حوثیوں کے خلاف سلامتی کونسل کی قرارداد کا غلط استعمال کیا ہے ۔ اس قرار داد میں حوثیوں سے بین الاقوامی جہازوں پر حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس دوران میں صرف حوثی لیڈر عبدالمالک الحوثی ہی نے امریکی حملوں کا جواب دینے کا اعلان نہیں کیا بلکہ حزب اللہ، حماس اور اسلامی جہاد نے بھی ایسے ہی اشارے دیے ہیں۔ حزب اللہ نے دعوی کیا ہے کہ ان حملوں سے واضح ہو گیا ہے کہ امریکہ پوری طرح اسرائیل کا پشت پناہ ہے اور غزہ کی جارحیت کا ذمہ دار ہے ۔اس مشکل سے نکلنے کے لیے امریکہ کو اسرائیل کی پشت پناہی کرنے کی بجائے، غزہ میں جنگ اور تباہ کاری رکوانے کے لیے تل ابیب پر دباﺅ ڈالنا چاہیے تاکہ فلسطین کے مسئلہ کو اس علاقے میں آباد سب لوگوں کے پرامن بقائے باہمی کے مقصد سے حل کرایا جا سکے۔ سات اکتوبر کو ہونے والی کارروائی کا حوالہ دے کر 75 سال کے مظالم اور نصف صدی سے زائد مدت تک فلسطینی علاقوں پر ناجائز قبضہ کے لیے دلیل نہیں دی جا سکتی۔ نہ ہی دنیا کے لوگوں کو اس سوال کا جواب دیا جاسکتا ہے کہ انسانی حقوق کا نام لینے والے ممالک کس منہ سے غزہ کے محصور اور بے وسیلہ لوگوں کے خلاف ایک طاقت ور ملک کی جنگ جوئی پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں بلکہ صدر بائیڈن کی سربراہی میں امریکہ تو نہایت ڈھٹائی سے نہتے شہریوں کو ہلاک کرنے کے لیے اسرائیل کو جنگی ہتھیار اور گولہ بارود بھی فراہم کر رہا ہے۔