آج دنیا بھر میں محنت کشوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے تاریخ بتاتی ہے کہ 1889ء میں محنت کشوں کے نمائندوں کی طرف سے محنت کشوں کی بین الاقوامیت کے بینر تلے دوسری انٹرنیشنل کا قیام عمل میں لایا گیا جس کی افتتاحی کانگریس میں یکم مئی 1886ء میں محنت کشوں کی سفید جھنڈے اٹھائے۔ ڈیوٹی کا دورانیہ کم کرنے کیلئے شروع کی جانیوالی تحریک پر ریاستی جبر ، فائرنگ اور شکاگوکی گلیوں میں بہنے والے مزدور کے خون کی وجہ سے مزدوروں کو ملنے والی حاصلات کو سامنے رکھتے ہوئے سرخ جھنڈے کو محنت کشوں کے عالمی نشان کے طور پر منظور کیا گیا اور یکم مئی کو عالمی یوم مزدور ٹھہرایا گیاجس کے بعد پوری دنیا کے محنت کش ہر سال یکم مئی کو شہدائے شکاگو کی ان عظیم قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ محنت کشوں کے مسائل کے حوالہ سے اس دن کو تجدید عہد کے طور پر مناتے ہیں۔ یکم مئی کے تاریخی پس منظر سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ محنت کشوں نے سرمائے کے تسلط اور جبر کیخلاف محنت کشوں کے مشترکہ مفادات کے لئے لڑائی کا آغاز کیا تھا لیکن آج عالمی یوم مزدور کو حکمران طبقات مختلف این جی اوز کے ذریعے اور ریاستی سطح پر پروگرامات کا انعقاد کرتے ہوئے محنت کشوں کی عالمی جڑت کو توڑنے اور اس دن کی تاریخی حیثیت کو مسخ کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔دوسری طرف محنت کشوں کی اپنی جدوجہد کی نتیجے میں حاصل کی گئی حاصلات کو چھیننے کا عمل بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہر سماجی معاشی ڈھانچہ ایک وقت تک انسانیت کو ترقی دینے کا باعث بنتا ہے لیکن اس میں ہر لمحہ ہونیوالی تبدیلیوں اور تضادات کی بنا پر ایک و قت میں وہی سماجی ڈھانچہ ذرائع پیداوار کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہوئے انسانی ترقی میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ جہاں عالمی مالیاتی زوال نے سرمایہ داری نظام کی تاریخی متروکیت کو سامنے لایا وہاں اس زوال کے گہرے اثرات محنت کشوں کی زندگیوں پر بھی پڑے ہیں۔ حکمران طبقات بحران سے نکلنے اور مالیاتی اداروں کے قرضوں کی ادائیگی کیلئے محنت کشوں کو دی جانیوالی حاصلات تنخواہوں میں مختلف قسم کی کٹوتیوں، نئے ٹیکسز کے نفاذ ،الاؤنسز میں کٹوتیوں ، تعلیم ، صحت اور انفراسٹرکچر کی تعمیر میں کمی کی صورت میں کرتے ہوئے اپنی عیاشیوں کو جاری رکھنے اور سرمایہ داری کے موجودہ بحران سے نکلنے کی بے سود کوششوں میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف پوری دنیا میں محنت کش اور نوجوان اس نظام کے خلاف وسیع بنیادوں پر برسر پیکار نظر آتے ہیں۔ عرب دنیا سے لیکر افریقہ، یورپ ، امریکہ اور جنوبی ایشیاء تک محنت کشوں اور نوجوانوں کی لڑائی اس نظام کیخلاف منظم ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ آج مزدور تحریک کو کرنا پڑ رہا ہے وہ پھر ایک بین الاقوامی انقلابی مارکسی نظریات کی حامل قیادت ہے جس کی عدم موجودگی یا کمزوری کے باعث ان تحریکوں کو کوئی واضح راستہ نظر نہیں آرہاجیسا کے عظیم انقلابی رہنما لیون ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ سرمایہ داری کا بحران سمٹتے ہوئے قیادت کا بحران رہ جائے گا۔ امریکہ اور یورپ سمیت عرب دنیا میں سائنسی سوشلزم کے نظریات کی مانگ میں ایک بار پھر اضافہ ہو رہا ہے جو مستقبل میں مزدور تحریک کے مزید منظم ہونے اور سرمایہ داری کے خاتمے اور عالمی مزدور راج کے قیام کا باعث بن سکتا ہے۔ سٹالنزم کے دو مراحل کے نظریات اور سوشل ڈیموکریسی کے اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے اصلاحات کے نظریات تاریخ کے ہاتھوں متروک ہو چکے ہیں۔ آج سرمایہ داری نظام کے پاس اس بحران سے نکلنے کا کوئی واضح راستہ نظر نہیں آرہا، سامراج بحران سے نکلنے کیلئے انسانیت کو وسیع بنیادوں پر جنگ و جدل اور بربریت کی اندھی کھائیوں میں دھکیلتا جا رہا ہے۔ عراق ، افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں پر فوجی جارحیت اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں اب یہ بربریت بلوچستان اور گلگت بلتستان میں بھی پھیل چکی ہے جو صرف اور صرف سامراجی عزائم ، محنت کشوں کے استحصال اور قدرتی وسائل پر قبضے کے حصول کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ سرمایہ داری نظام عالمی طور پرانسانیت کو ترقی دینے میں ناکام ہو چکا ہے ،دو مراحل کی تھیوری پر مبنی سٹالنسٹ نظریات اور اسی نظام کے اندر اصلاحات پر مبنی سوشل ڈیموکریسی کے نظریات کی بھی تاریخی متروکیت ثابت ہو چکی ہے تو انسانیت کے پاس اس بربریت اور سامراجی استحصال سے نجات کا سوشلزم کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچ جاتا۔ 1886ء کو اسٹارک ہارویسٹر کے 80ہزار مزدوروں نے اپنے مطالبات حکومت تک پہنچانے کے لئے احتجاج شروع کیا۔ فیکٹریوں میں دوران کام مزدور محنت طلب کام کی زیادتی کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے تھے اور مزدوروں کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ تنخواہ میں اضافہ کیا جائے۔ ان مطالبات کے سلسلے میں دوسرے روز یکم مئی 1886ء کو بھی شکاگو کے سارے کارخانوں میں مکمل ہڑتال رہی۔ 3مئی کو ہڑتالی مزدوروں نے بہت بڑا جلسہ کیا جس میں سرمایہ دار نے اپنا رنگ دکھایا، اس جلسے میں پولیس نے بلاوجہ فائرگ کی جس میں 5 مزدور ہلاک ہو گئے۔ان مزدوروں کی المناک موت پر 4 مئی کو شکاگو شہر کے مارکیٹ چوک ایک اور بڑا جلسہ اور مزدور ریلی ہوئی۔ مزدور لیڈروں نے اس جلسے میں 3 مئی کو ہلاک ہونے والے مزدوروں کے ضمن میں احتجاجی تقاریر کیں۔ اسی اثناء میں ایک پولیس آفیسر کیپٹن بون اسلحہ سے لیس 180 سپاہیوں سمیت جلسہ گاہ میں داخل ہوا اور جلسہ ختم کرنے کا حکم دیا۔ اس وقت جلسے کے آخری مقرر سیموئیول فلیڈن تقریر کر رہے تھے اور انکی تقریر کے دوران ہی جلسہ گاہ کے قریب ایک بم دھماکہ ہوا جس سے چند پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے۔ کیپٹن بون نے طیش میں آکر مزدوروں پر گولیاں چلانے کا حکم دیا۔ دہشتگردانہ انداز کی فائرنگ سے مزدوروں کا خون سینوں سے نکل کر زمین پر بہنے لگا۔ایک مزدور نے اپنی قمیض خون میں ڈبو کر اس کا جھنڈا بنا دیا ۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں محنت کشوں کے مسائل کو اجاگرکرنے کے لئے مختلف تقاریب’سیمینار منعقد کئے جاتے ہیں۔ لیکن اس دن کی اہمیت سے ناآشنا پاکستان کا مزدور طبقہ اس دن بھی روز گار کا متلاشی نظر آتا ہے ‘اور یہ مزدور سڑک کنارے اپنے اوزاروں سمیت کسی مسیحا کی تلاش میں بیٹھے رہتے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں اس دن کو مزدوروں کی جانب سے انتہائی قومی جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے لیکن پاکستان میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔مزدروں کا خیال ہے کہ یکم مئی کی افادیت اپنی جگہ پر!لیکن روزانہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور کیلئے یہ دن کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔ یہ دن ان لوگوں کیلئے معنی خیز ہے جن کی آمدنی اچھی ہو حکومت کی جانب سے کی جانے والی یکم مئی کی چھٹی بھی یہی لوگ اپنی فیملی کے ہمراہ وقت دیکرگزارتے ہیں۔ پاکستان میں مختلف تنظیمیں احتجاجی مظاہرے کرتی ہیں جب کہ ایوان میں موجود اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مزدوروں کی تنخواہوں میں اضافے کیلئے بل پیش کئے جاتے ہیں۔حکومت کی جانب سے ان پر عمل بھی کیا جاتا ہے اور آٹے میں نمک برابر تنخواہوں میں اضافہ بھی کیا جاتا ہے۔اور ہر حسب سابق ہر بجٹ میں مزدوروں کی تنخواہوں میں ہزارروپے اضافہ کیا جاتا ہے۔لیکن حکومتی اعلان سے ناخوش مزدروں کا کہناہے کہ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ تنخواہ ایک سہانا سپنا سا لگتا ہے۔حکومت تنخواہ میں اضافے کا اعلان کرکے اپنی ذمہ داری پوری سمجھتی ہے جبکہ ان پر عمل درآمد کروانا حکومت اپنا فرض نہیں سمجھتی ۔حکومت مہنگائی کو دیکھ کر ہماری تنخواہوں میں اضافہ کرے بلکہ اس پر عملد آمد بھی کروائے۔یکم مئی کے حوالے سے دنیا میں بڑے بڑے اجتماع منعقد کیے جاتے ہیں جن میں لاکھوں کی تعداد میں مزدرو طبقہ شرکت کرتا ہے۔پاکستان میں ‘پی آئی اے ‘پورٹ ورکر ز ‘ینگ ڈاکٹرز ‘ہیلتھ ورکز ‘واپڈا’ یونیورسٹیز ‘کالجز ااور اسکول کے اساتذہ کی تحریکیں موجودہ نظام کی مہنگائی ‘برطرفیوں اور نجکاری کے خلاف ہیں ‘حکمران طبقہ پھر بھی ہی ثابت کررہا ہے کہ سرمایہ داری کا کوئی متبادل نہیں۔محنت کشوں کے ساتھ طلبہ ‘نوجوان’ہاری اور کسان یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ اس نظام میں کوئی مستقبل ہے۔محنت کش عوام چاہتے ہیں کہ مزدرو طبقے کی اپنی جدوجہد سے ہی ممکن ہے جس کے پاس صلاحیت موجود ہے کہ وہ سماج کو تبدیل کرسکے کیونکہ سماج کی ترقی اور پیداوار کا انحصار محنت کش طبقے کی محنت پر انحصار کرتا ہے۔
یکم مئی:یوم مزدور
- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل
