لینڈ ریفارمز سے ایم ڈبلیو ایم کو زیادہ تکلیف، امجد حسین ایڈووکیٹ

گلگت (سٹاف رپورٹر) پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر و رکن اسمبلی امجد ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ لینڈ ریفارمزبل گلگت بلتستان کے عوام کو ان کا جائز حق دینے اور ماضی کی زیادتیوں کا ازالہ کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے حکومت نے ایک شفاف، قانونی اور منصفانہ نظام اور قانون متعارف کروایا ہے جس سے زمینوں کی بندر بانٹ کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے۔ اولڈ اسمبلی ہال میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے صوبائی صدرامجد ایڈووکیٹ نے گلگت بلتستان لینڈ ریفارمز بل کے حوالے سے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل تاریخی پس منظر اور عوامی مفاد کے عین مطابق ہے جس کے ذریعے گلگت بلتستان کی زمینوں کو عوامی ملکیت قرار دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے اپوزیشن کے بعض اراکین اور سیاسی مخالفین نے اسمبلی میں اس بل پر بات کرنے کے بجائے بند کمروں میں سازشیں کیں اور بل کے حوالے سے عوام اور علما کرام میں غلط فہمیاں پھیلائیں۔ تاہم، عوامی سطح پر کسی قسم کا منفی ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما نے واضح کیا ہے کہ زمینوں سے متعلق حالیہ قانون سازی پر سب سے زیادہ تکلیف سابق وزیراعلی خالد خورشید اور مجلس وحدت المسلمین (ایم ڈبلیو ایم)کو ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم ڈبلیو ایم کے حامی علما اور اکابرین کو چاہیے کہ وہ بل کو اچھی طرح پڑھیں اور سمجھیں، کیونکہ موجودہ قانون مکمل طور پر عوامی مفاد میں بنایا گیا ہے۔امجد ایڈووکیٹ نے انکشاف کیا کہ خالد خورشید کی سابق حکومت کا قانون سراسر عوام دشمن تھا جس میں سرکاری زمینوں کو عوام سے دور رکھا گیا۔ پیپلز پارٹی نے نئے قانون کے تحت پہاڑ، گلیشیئرز اور چراگاہوں کو سرکاری ملکیت سے نکال کر عوامی ملکیت قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا اس قانون کے ذریعے جعلی انتقالات اور دستاویزات کا راستہ بند کیا گیا ہے اور اب ایک انچ زمین بھی کسی کو غیرقانونی طور پر الاٹ نہیں کی جا سکتی جلداس قانون پر عملدرآمد کا سلسلہ شروع ہورہا ہے اور پیپلز پارٹی اس حوالے سے کسی دبائو یا مصلحت کا شکار نہیں ہو گی۔ امجد ایڈووکیٹ نے واضح کیا کہ گلگت بلتستان میں زمینوں پر راجے اور مہاراجے کا تسلط 1936 سے قائم تھا جب پہلی بار یہاں نوتوڈ رول اور خالصہ سرکار جیسے قوانین نافذ کیے گئے۔ 1974 میں ذوالفقار علی بھٹو نے گلگت بلتستان میں لینڈ ریفارمز متعارف کروا کر جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ کیا اور پہلی بار عام لوگوں کو زمینوں کی ملکیت دی۔انہوں نے کہا کہ 1980 میں ایک سیکشن آفیسر کے ذریعے نوتوڑ رول کو دوبارہ نافذ کیا گیا جس کے تحت زمینوں کی بندر بانٹ شروع ہوئی۔ 1980 سے 1986 تک سرکاری اور عوامی سطح پر غیر قانونی زمینیں الاٹ ہوئیں لیکن 1986 کے بعد صرف سرکاری اداروں کو الاٹمنٹ کی اجازت دی گئی جبکہ عوام کو اس حق سے محروم کر دیا گیا۔ اس ناانصافی پر کسی سیاستدان نے آواز نہیں اٹھائی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ غیرقانونی الاٹمنٹس عام ہو گئیں۔ان کے مطابق نوتوڑ رولز میں شہری علاقوں میں سرکار کو صرف دس کنال زمین الاٹ کرنے کی اجازت اور دیہی علاقوں میں 50 کنال زمین الاٹ کرنے کا اختیار دیئے رکھا تھا جس کا سرکاری اداروں نے بھر پور فائدہ اٹھایا جبکہ جعلی انتقالات 1986 سے پہلے کے پرانے تاریخ سے مافیاز کرتے رہے اس نوتوڑ رول کو لینڈ ریفامز بل کے تحت ختم کردیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گلگت بلتستان کا کل رقبہ 28 ہزار مربع میل ہے جس میں صرف 3.7 فیصد جنگلات، 5 فیصد زرعی زمین اور 9 فیصد بنجر زمین شامل ہے کہ باقی علاقہ پہاڑوں پر مشتمل ہے ہم نے اس بل کے تحت سب کا مالک عوام کو بنادیا ہے۔امجد ایڈووکیٹ نے کہا 2016 میں پیپلز پارٹی نے نوتوڑ رول کے خلاف آواز بلند کی اور زمینوں کی غیرقانونی بندر بانٹ کے خلاف عوامی جدوجہد شروع کی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اس وقت کی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے مافیاز کو تحفظ دیا اور جب وہ ہتھکنڈے ناکام ہوئے تو علما اور عوام کو استعمال کرتے ہوئے لینڈ ریفارمز بل کے خلاف فتوی تک جاری کروائے گئے۔انہوں نے مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر حافظ حفیظ الرحمن کو کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کی مخالفت نہ کریں کیونکہ یہ خالصتا عوامی مفاد کے لیے بنایا گیا ہے۔ امجد ایڈووکیٹ نے گلگت بلتستان میں جاری بجلی بحران پر بھی بات کرتے ہوئے کہا حکومت نے بجلی کے شعبے میں سرمایہ کاری بڑھانے اور خطے میں بجلی کا بحران کو کم کرنے کے لیے اتھارٹی قائم کی ہے اس پر بھی مخالفین بلاوجہ تنقید کرتے ہیں اور نجکاری کا نام دیا جو سراسر عوام کوگمرہ کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے مخالفین کو مشورہ دیا کہ وہ تنقید سے پہلے لینڈ ریفارمز بل کو مکمل طور پر پڑھیں اور اگر کوئی ترمیم چاہتے ہیں تو اسے عوام کے سامنے لائیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں