......جائیں تو جائیں کہاں

لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ میں پی ٹی آئی کارکنوں کی نظربندی کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران ایڈووکیٹ شوکت رﺅف صدیقی کے اعتراضات پر جسٹس چودھری عبدالعزیز برہم ہوگئے۔وکیل نے کہا کہ عدالت ہمارے کارکنوں کو ریلیف نہیں دے رہی نہ ہمیں سن رہی ہے، حکومت کا رویہ دیکھیں جو سپریم کورٹ کے سامنے جاکر دھرنا دیتے ہیں انکو کچھ نہیں کہا جاتا۔جسٹس چودھری عبدالعزیز نے کہا کہ عدالت آپ کے دلائل کے بغیر ہی آپکے بندوں کو رہا کررہی ہے آپکو تحمل سے بات سننی چاہیے، مجھے سیاسی بحث میں نہ الجھائیں آپ نے جو کرنا ہے کریں آپکی درخواست نہیں سنوں گا۔پی ٹی آئی کے وکلا کی عدالت کے ریمارکس کے دوران مسلسل دخل اندازی پر فاضل جج شدید برہم ہوگئے۔جسٹس چودھری عبدالعزیز نے کہا کہ مجھے بھی تھریٹس ہیں میں گھر سے اکیلا عدالت کیلئے نکلتا ہوں‘ کوئی گن مین ساتھ نہیں رکھتا، میری علیل والدہ بیڈ پر آخری سانسیں لے رہی ہیں میں یہاں سیاسی بحث نہیں قانون کے مطابق فیصلے کرتا ہوں، جو شخص جلاﺅ گھیراﺅ مقدمے میں نامزد ہے عدالت اسکو کیسے ریلیف دے۔ایک موقع پر جسٹس چودھری عبدالعزیز نے پی ٹی آئی کے وکلا سے کہا آپ نہیں جاتے تو میں خود سیٹ چھوڑ کے چلا جاتا ہوں، آپ کے لوگوں نے سرکاری اداروں پر حملے کئے کسی پبلک اور پرائیویٹ پراپرٹی کو نہیں چھوڑا، ملک کا ستیاناس کرکے اب آپ عدالتوں پر ہی اعتراض کرتے ہیں جو آپ کو ریلیف دیتی ہیں۔پرتشدد احتجاج ہماری رگوں میں سراےت کر چکا ہے اسے نفسےاتی مسئلہ بھی کہا جا سکتا ہے۔پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت اس وقت اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گیا تھا، جب حکومت نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو مبینہ بدعنوانی کے ایک مقدمے میں گرفتار کر لیا۔ اس کے بعد ملک بھر میں پرتشدد احتجاج کا، جو سلسلہ شروع ہوا اس میں بڑے پیمانے پر سرکاری املاک اور ٹرانسپورٹ کو نقصان پہنچا۔ بعض سیاسی مبصرین کے خیال میں ان تمام تر مشکلات اور چیلنجوں کے باوجود عمران خان اپنا جارحانہ طرز سیاست بدلنے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔تحریک انصاف کے کارکنوں کی طرف سے عمران خان کی گرفتاری کے خلاف جی ایچ کیو کے علاوہ کور کمانڈر لاہور کے گھر پر دھاوا بولنے کے بعد فوج کی جانب سے ایک سخت بیان جاری کیا گیا تھا۔ بعد میں عمران خان کی رہائی کا حکم دینے والی سپریم کورٹ کے ججوں نے بھی اس پرتشدد احتجاج کی مذمت کی۔عمران خان کی شروع دن سے یہ حکمت عملی رہی ہے کہ وہ اپنے مخالفین کے خلاف ایک ایسا بیانیہ ترتیب دیتے ہیں، جس کے بعد یا تو ان کا فریق زچ ہو کر صلح صفائی کا راستہ اختیار کرتا ہے یا تو وہ پھر خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت جانتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق اس وقت عمران خان کی جماعت کے چالیس سے زائد اہم ترین رہنما بشمول ارکان پارلیمنٹ حکومتی قید میں ہیں اور ایسے میں بظاہر عمران خان کو مفاہمت کا رویہ اپناتے ہوئے انہیں رہا کرانے کے لیے حکومت سے بات چیت کرنی چاہیے۔ تاہم اس کے برعکس عمران خان اس بارے میں بھی کسی طرح کا سمجھوتا کرتے دکھائی نہیں دیتے۔اس وقت دکھائی یہ دے رہا کہ عدالتوں سے عمران خان کو بے مثال ریلیف دیا جار ہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عمران خان حکومتی اداروں کے درمیان اختلافات کا فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں۔تاہم مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کے شکار ملک میں مزید عدم استحکام روکنے کے لیے عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مفاہمت کی راہ اپنانی چاہیے۔ اگر دونوں جانب سے مفاہمت کی راہ نہ اپنائی گئی تو یہ ملک سمیت کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہو گا۔ پنجاب پولیس کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق عمران خان کی گرفتاری کے بعد شروع ہونے والے احتجاج کے دوران پرتشدد کارروائیوں میں صوبے میں 145 سے زیادہ افسران اور اہلکار زخمی ہوئے ہیں جن میں ساٹھ سے زیادہ کا تعلق لاہور سے ہے۔ شرپسند عناصر نے ساٹھ سرکاری گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا۔پنجاب پولیس کے اعلامیے کے مطابق اب تک سرکاری و نجی اداروں پر حملوں، توڑ پھوڑ اور جلاﺅ گھیراﺅ میں ملوث تےن ہزار سے زیادہ شرپسندوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔مذکورہ مسئلے پر جو احتجاج کیا گیاوہ ملکی تاریخ کا بدترین احتجاج تھا سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا ‘ جی ایچ کیو پر حملہ کیا گیا لاہور کور کمانڈر ہاﺅس کو آگ لگائی گئی‘ پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کو جلایا گیا ہے‘ فوجی قافلوں پر حملے کیے گئے اس میں نقصان ہمارے ملک کا ہی ہے جو توڑ پھوڑ ہوئی ہے وہ دوبارہ ملکی خزانے سے ہی پیسہ نکلے گا مرمت ہو گی ۔جب احتجاج ہوتا ہے تو سب سے پہلے روڈز بلاک ہوتی ہےں جسکی وجہ سے لوگوں کی آمدورفت متاثر ہوتی ہے ‘بازار وغیرہ بند ہوجاتے ہیں جسکی وجہ سے کاروبار متاثر ہوتا ہے اور معاشی نقصان ہوتا ہے روڈز بلاک ہونے سے نہ صرف مسافروں کو مشکلات کاسامناکرناپڑتا ہے بلکہ ایمبولینس سروس بھی متاثر ہوتی ہے جس سے لوگوں کاہسپتال پہنچنابھی مشکل ہوجاتاہے اس سے بڑھ کر کچھ لوگ جلاﺅ گھیراﺅ لوٹ مار کرتے ہیں جس سے ملک وقوم کی بدنامی توہوتی ہی ہے ساتھ ہی ساتھ لوگوں کانقصان بھی ہوتاہے ۔سرکاری گاڑیاں جلائی جاتی ہےں یا سرکاری ملازمین پر تشدد کیاجاتاہے اس تمام صورتحال میں ملک وقوم کانقصان ہوتاہے ایساکسی بھی سیاسی جماعت اور کارکنوں کو نہیں کرناچاہیے کیونکہ احتجاج کامقصد ےہ ہرگز نہےں ہونا چاہےے۔عالمی سطح پر بھی ہمےں پرتشد احتجاج کی صورت نظر آتی ہے لےکن پاکستان میں ےہ سلسلہ کچھ زےادہ ہی ہے۔کچھ عرصہ قبل فرانس میں مظاہرین نے کئی شہروں میں سڑکوں پر نکل پرتشدد احتجاج کیا اور پیرس کے ایک تاریخی مرکز میں آگ لگائی‘ ملک بھر میں ریٹائرڈ سرکاری ملازمین احتجاج کے لیے نکلے۔ایمانوئل میخواں کے فرانس میں دوسری مدت کے لیے صدر منتخب ہونے کے بعد یہ ان کے خلاف سب سے بڑی عوامی احتجاج کی لہر تھی۔مظاہرین نے سٹی ہال کے پورچ میں آگ لگائی ۔غصے سے بھرے مظاہرین کی بڑی تعداد نے سڑکوں اور گلیوں کا رخ کیا۔پیرس شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں ہوئیں جہاں اہلکاروں نے آنسو گیس کے شیل پھینکے اور احتجاج کرنے والوں پر لاٹھی چارج کیا۔ بعض جگہوں پر مظاہرین نے گلیوں میں کوڑے کو آگ لگائی جس کے بعد فائر فائٹرز کو بجھانے کے لیے آنا پڑا۔ ملک بھر میں سکیورٹی فورسز کے 150 اہلکار زخمی ہوئے جبکہ 172 افراد کو حراست میں لیا گیا جن میں سے 72 کو پیرس شہر میں گرفتار کیا گیا۔پیرس شہر میں 140 مقامات پر آگ لگائی گئی۔ یہ تشدد پیرس آنے والے ٹھگوں نے کیا جو پولیس اہلکاروں اور سرکاری عمارتوں پر حملہ آور ہوئے مگر ہمارے ہاں ےہ معمول بن چکا ہے کہ مظاہرے آخر کار تشدد میں تبدےل ہو جاتے ہےں۔عمران خان کی گرفتاری کے بعد نجی و سرکاری اداروں پر حملوں، توڑ پھوڑ اور تشدد میں ملوث شرپسند عناصر کی گرفتاریوں کا عمل جاری ہے۔ ےہ کہا جا رہا ہے کہ جلاﺅ گھیراﺅ،تشدد اور نجی و سرکاری املاک نذر آتش کرنے والے شرپسند عناصر کو بہر صورت کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔ جناح ہاﺅس پر حملے، توڑ پھوڑ میں ملوث نو سو افراد کی شناخت تصاویر، ویڈیو اور سوشل میڈیا اکاﺅنٹس کی مدد سے کرلی گئی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ سیف سٹیز اتھارٹی نے تمام تر ویڈیوز ، تصاویر اور لوکیشنز قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فراہم کیں ، سی ٹی ڈی حکام نے سوشل میڈیا اکاﺅنٹس ٹریکنگ کی مدد سے تین سو شرپسندوں کے کوائف اکٹھے کرلیے جن کی نگرانی کا عمل مزید تیز کردیا گیا ہے۔ملزمان کی جلد گرفتاری کے لیے جیوفینسنگ کا عمل بھی شروع کردیا گیا اور نو مئی کی تمام مشتبہ کالز کو شارٹ لسٹ کرکے کالرز کو شامل تفتیش کیا جارہا ہے۔ہم دےکھتے ہےں کہ امرےکہ میں احتجاج کے لےے اصول مقرر ہےں‘ احتجاجی مظاہروں کے لیے اجازت نامہ حاصل کرنا لازمی ہوتا ہے مگر مقامی حکومتوں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ تمام درخواست دہندگان پر یکساں معیارات کا اطلاق کریں اور احتجاج کے موضوع کو زیرغور نہ لائیں۔ عام طور پر اجازت نامہ جاری کرنے سے اس وقت انکار کیا جاتا ہے جب احتجاجی مظاہرے سے عوامی سلامتی کو خطرات لاحق ہوں یا تشدد کی نیت سے مظاہرہ کیا جا رہا ہو۔نیویارک سٹی میں احتجاجی مظاہرین اگر عوامی املاک پر لاﺅڈ سپیکر یا اس جیسے آلات استعمال کریں، عوامی پارک میں بےس سے زائد افراد اکٹھے ہوں، سڑک پر مارچ کریں یا پچاس اس سے زائد گاڑیوں کا جلوس نکالیں تو ایسی صورتوں میں انہیں نیویارک سٹی کی طرف سے اجازت نامے کی ضرورت ہوتی ہے۔نیو یارک سٹی میں اگر احتجاجی مظاہرین ٹریفک میں خلل ڈالے بغیر یا لاﺅڈ سپیکر یا اس جیسے آلات استعمال کیے بغیر فٹ پاتھ پر اکٹھے ہوں تو اجازت نامے کی ضرورت نہیں ہوتی۔مقامی حکومت کی زمین یعنی سڑکوں، فٹ پاتھوں اور زیر زمین چلنے والی ٹرین کے سٹیشنوں پر کیے جانے والے مظاہروں کے لیے اجازت ناموں کی ضرورت نہیں ہوتی بشرطیکہ مظاہرین فٹ پاتھ استعمال کرنے والے راہگیروں کو نہ روکیں‘مظاہرین کی تعداد پچاس سے کم ہو اور مظاہرہ سڑک پر نہ کیا جائے‘احتجاج جو بغیر کسی مداخلت کے خود بخود ختم ہو جائے‘وفاقی حکومت کی املاک میں نیشنل مال بھی شامل ہے جہاں نیشنل پارک سروس کے مطابق، ہر سال کم و بیش 750 مظاہرے ہوتے ہیں۔ ہمےں بھی احتجاج ضروری کرنا چاہےے لےکن اس سے کاروبار زندگی متاثر نہےں ہونا چاہےے۔