معاون خصوصی برائے اطلاعات اےمان شاہ نے کہا ہے کہ تمباکو کی مصنوعات معاشرے کی تباہی کا باعث بن رہی ہےں۔علاقے کو منشےات سے پاک کرنے کےلئے تمام وسائل برﺅے کار لائے جائےں گے۔حکومت تمباکو اےکٹ پر عملدرآمد ےقےنی بنائے گی۔تمباکو کی نئی مصنوعات پر مکمل طور پر پابندی عائد کی جائے گی۔منشیات کی لعنت پوری دنیا اور بالخصوص ہمارے ہاں وبا کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے سگریٹ نوشی،شیشہ، گٹکا سپاری، چرس،بھنگ،افیون اور ہیروئن کے علاوہ بہت سی منشیات کی قسمیں سننے میں آرہی ہیں،شراب تو صدیوں سے اس خطے میں بطور نشہ اور ام الخبائث مشہور رہی ہے،تمباکو نوشی اور نسوار کو تو یہاں نشہ سمجھا ہی نہیں جاتا حالانکہ تمباکو نوشی سب نشوں کی ماں ہے بالکل اسی طرح جس طرح شراب کو ام الخبائث کہا جاتا ہے،سگریٹ نوشی ہر نشے کی پہلی سیڑھی کی مانند ہے جو اس سیڑھی پر قدم رکھے گا اس کے لئے مہلک نشوں کی دنیا میں داخل ہونے کے دروازے کھلتے چلے جائینگے، اگرچہ سگریٹ نوشی،نسوار،گٹکا وغیرہ جیسے بظاہر بے ضرر اور مباح افعال صحت کے لیئے مہلک اور مختلف قسم کے کینسرز کا باعث ہیں جبکہ مذکورہ بالا دیگرنشوں کا جہاں تک تعلق ہے ان کے شکار تو جیتے جی مر جاتے ہیں انکی زندگیاں دوسروں کے لیئے عبرت کا نشان اور اپنے خاندان کی مالی اور معاشرتی بربادی کا باعث ہوتی ہیں یہ لوگ بہت کم عرصہ زندہ رہ پاتے ہیں۔ درحقیقت نشوں کی بنیادی وجہ ماں باپ کی غفلت،نشے کے عادی افراد سے میل جول، اپنے پسندیدہ فلمی ہیروز کی نقالی اور زندگی کی حقیقتوں سے فرار ہے یا پھر اتفاقاکسی نشے کی محفل میں کسی دوست یا رشتہ دار کے ساتھ شمولیت اور اہل محفل کا نشہ کرنے پر اصرارہوتا ہے جو ایسا کر گزرے اسکے لیے یہ لمحات ساری زندگی کا سیاپا بن جا تے ہیں، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر منشیات کے فروغ کا باعث ڈرامے،فلمیں اوراشتہارات ہیں جن میں ہیروز کو منشیات کا استعمال کرتے ہوئے یا خرید و فروخت کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے، منشیات کی روک تھام کے لیئے ایک ایسی ہمہ گیر تحریک کی ضرورت ہے جسکے ذریعے معاشرے میں منشیات کی لعنت کے پھیلاﺅ کے سارے عوامل کا قلع قمع کیا جا سکے اس تحریک کی کامیابی کے لیئے ملک کے ارباب اختیار،دانشور،اساتذہ، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا، اصلاحی انجمنوں،لوکل کونسلوں، قانون بنانے اور نافز کرنے والے اداروں کی مربوط کوشش اور عزم کی ضرورت ہے تاکہ منشیات فروشوں کو قرار واقعی سزائیں دلوانے کے علاوہ نشے کے شکار افراد کو معمول کی زندگی میں واپس لایا جا سکے، اس سلسلے میں ہماری حکومت اگر عظیم دوست چین کی مدد اور تجربے سے استفادہ کرے کہ کس طرح افیون کی عادی قوم ایک متحرک اور باعمل قوم بننے میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی تو اچھے نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے،اگر ہم نشے کے شکار لوگوں سے فوری اوربلا کسی خرچ کے نجات چاہتے ہیں تو ہمیں نشے کے عادی افراد کو چین کی حکومت کیساتھ مشورے اورباہمی منصوبہ بندی سے بطور امدادی لیبر سی پیک اور دیگر منصوبوں کی تکمیل کے لیئے کھپانے کا انتظام کرنا چاہیے اس طرح وقتی طور پرموجود نشے بازوں سے نجات اور انکی بحالی کا مسئلہ حل ہو جائیگا لیکن ہمیشہ کے لیئے منشیات کی لعنت سے ملک کو نجات دلانے کے لیئے منشیات فروشوں اور ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ ضروری ہی اس مقصد کے لیئے منشیات فروشی کو ملک و قوم سے غداری قرار دے کر خصوصی عدالتوں سے سزائے موت ،ضبطی جائیداد جیسی سزائیں دینے اور ان پر بلا رو رعائیت عمل درآمد کی ضرورت ہے، یہ منشیات فروش ہمارے معاشرے کے جانے پہچانے کردار ہوتے ہیں جن سے علاقے کے لوگ اور قانون نافذ کرنے والے بخوبی واقف ہوتے ہیں اس لیئے ان لوگوں کو قانون کی گرفت میں لانا اور قرار واقعی سزا دینا بالکل مشکل نہیں، ضرورت ایسے عدالتی طریقہ کار کی ہے جسکی بدولت منشیات فروشوں اور انکے معاونین اور سہولت کاروں کو دو ماہ کے عرصے میں کھلے عام سزائیں دی جاسکیں ۔اگر ایسا ہو جائے تو کوئی مائی کا لعل ایسا گھناﺅنا دھندہ کرنے کی جرات بھی نہیں کر سکے گا۔ حکومت کو منشیات کی تیاری میں استعمال ہونے والے ممکنہ کیمیکلز،مشنری کی تیاری، درآمد اور ترسیل پر کڑا حفاظتی نظام قائم کرنا چاہیے۔یہ ایک ہمہ جہت جدوجہد ہے جس پر نہایت دیانتداری اور قومی جذبے سے عمل درآمد کی ضرورت ہے،،منشیات کے خلاف جنگ جیتنے کا مطلب اپنی نسلوں کو محفوظ کرنے کی جنگ جیتنا ہے، کسی بھی برائی بالخصوص منشیات جیسی برائی کا کوئی خاص ٹھکانہ نہیں ہوتا یہ ہر جگہ اپنا شکار ڈھونڈ نکالتی ہے چاہے اس شکار ہونے والے کا تعلق ملک کے دیہاتوں، گوٹھوں، قصبوں اور شہروں کی کچی آبادیوں سے ہو یا شہروں کے پوش اور امیر ترین علاقوں سے،یہ بدی ایسا وائرس ہے جس کا شکار ہر عام اور خاص خاندان اور اس سے تعلق رکھنے والا ہر فرد ہو سکتا ہے اس لیے اس مسئلے کو کسی طبقے اور علاقے کا مسئلہ نہیں سمجھنا چاہیے ہر ذمہ داری کے منصب پر فائز شخص کو اسکے سد باب کے لیئے یہ سوچ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کہ اسکا شکار اس کا گھرانہ بھی ہو سکتا ہے لہذا یہ مسئلہ جتنا ایک فرد،خاندان اور علاقے کے لیئے گمبھیر اور خطرناک ہے اتنا ہی پورے ملک اور دنیا کے لیئے بھی ہے اس پر قابو پانے کے لیئے انفرادی،اجتماعی،ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مربوط جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اگر انجام گلستان کی فکر نہ کی گئی تو پھر اس کے بنجر بن جانے میںکوئی شک باقی نہیں رہ جائے گا۔ یہ بات تو طے ہے کہ منشیات کی لت ہماری کثیر آبادی کے ایک بڑے حصہ کو لگ چکی ہے۔ اور اب کچھ چونکا دینے والے انکشافات نے تو حساس لوگوں کے پاﺅں کی زمین سرکا کے رکھ دی ہے ۔ جنوبی کشمیر کے کئی علاقے خطر ناک حد تک اس وبائی مرض کی زد میں آچکے ہیں اور سرینگر کے کئی اطراف اور ڈاﺅن ٹاﺅن میں بھی یہ کیڑے نہ صرف سرایت کرچکے ہیں بلکہ نئی نسل کے اخلاقی و روحانی وجود کو کس قدر دیمک کی طرح اندر ہی اندر کھا رہے ہیں۔ عیاں ہونے لگا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ منشیات کے خلاف کریک ڈاﺅن کے اس سلسلے کو وسیع بنایا جائے اور سارے سماج کی اخلاقی موت واقع ہونے سے پہلے اس وبا کے خاتمہ کے لئے زندگی کے ہر طبقے کے لوگوں کو سامنے آنا ہوگا۔ ملوث افراد کو قانون کے تحت ادارے عبرتناک سزا دیں تاکہ پھر اس غلیظ کاروبار میں شامل ہونے کا خیال بھی کسی کے حاشیہ خیال میں نہ آئے۔اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ان عوامل کو بھی جاننے کی کوشش کی جائے کہ ہماری نئی نسل یعنی ہمارے کل کا ایک بہت بڑا حصہ کیوں اس خودکشی کی راہ پر گامزن ہے اور کیوں وہ اپنے وجود کے درپے آزار ہے۔ حق تو یہ ہے کہ ہم میں سے آج ہر شخص حصول سیم وزر کی دوڑ میں اس قدر منہمک ومشغول ہے کہ اسے نہ صرف یہ کہ اپنے گردوپیش کی کوئی خبر نہیں بلکہ مقام تاسف ہے کہ ہمارا خاندانی نظام بھی اس حد تک بگڑ چکا ہے کہ ایک ہی کنبے میں رہنے بسنے والے لوگ ایک ساتھ رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے اتنے دور ہوچکے ہیںکہ وہ ایک دوسرے پر کیا گزر رہی ہے،حالات وکوائف کیا ہیںاس سے قطعی طور نابلد نظر آتے ہیں۔ رشتوں کی دوڑمیں یہ لوگ ضرور بند ھے ہیںلیکن صبح پوپھٹتے ہی حصول معاش کیلئے نکلنے والے لوگ رات گئے جب واپس لوٹتے ہیں تو ایک دوسرے کے مسائل ومشکلات اور دکھ درد سے آگاہی حاصل کرنے کا نہ کوئی موقع فراہم ہوتا ہے اور نہ سکون کے ساتھ یکجا بسر کرنے کے کچھ لمحات ہمارے پاس ہوتے ہیں۔ نتیجہ کے طور پر ہماری نئی نسل جو لمحہ بہ لمحہ ہماری توجہ کی طالب تھی ہمارے ذہن ودل سے اوجھل ہوگئی۔ وہ یا تومسائل کے انبار تلے اس قدر دب گئی کہ کوئی حل بتانے والا باقی نہیں رہااور نہ کوئی ہمدردر ودوست اسے خود اپنے گھر میں ہی نظر آتا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ والدین اپنی ذمہ داریوں سے پوری طور عہدہ برآنہیں ہوتے۔اپنی اولاد کو صحت مند بنانے اور مادی لحاظ سے اسے سب سے اونچا دیکھنے کیلئے ہم کس حد تک نیچے جاتے ہیں۔ صبح گھر سے روانگی کے وقت سے شام اسکی واپسی تک بچوں کی کارگزاریاں کیا رہتی ہیں؟بچوں کی روزمرہ کی سرگرمیوں جیسے توجہ طلب اہم ترین امور کی طرف ہماری توجہ جاتی ہی نہیں جبکہ یہ بات الم نشرح ہے کہ اولاد کی تربیت شیشہ گری کا فن ہے۔ اور اس کیلئے والدین کا بہت ہی حساس ،ذہین، بالغ نظر اور بچے کی نفسیات سے واقف ہونا بہت ضروری ہے۔ نوجوانوں میں بڑھتی بے چینی اور ڈپریشن کی وجوہات جاننے کے ساتھ ان کا سدباب بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ، صحت مند سرگرمیوں سے متعلق ترغیب دے کر انھیں اس لت میں مبتلا ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سیاسی و مذہبی جماعتوں، سماجی تنظیموں، تعلیمی اداروں اور والدین کے ساتھ ساتھ میڈیا، ڈاکٹرز اور میڈیکل کے شعبے سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
پیپلز پارٹی نے بڑی وکٹیں گرادیں، ناشاد، آمنہ انصاری، اقبال حسن، حیدر خان، ڈاکٹر عباس، وزیر حسن، وزیرتاجور جیالے بن گئے
دو گھنٹے اضافی بجلی کیلئے دس لاکھ روپے روزانہ کے اخراجات
بارہ سو اساتذہ بیروزگاری سے بچ گئے، وزیراعلیٰ کا فیلوشپ پروگرام جاری رکھنے کا حکم
لینڈ ریفارمز ایکٹ علاقے کی زمینوں کے تحفظ کیلئے بہت ضروری ہے، بلاول بھٹو