جی ایچ کیو راولپنڈی میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے قیام کی 97 ویں سالگرہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاک چین تعلقات باہمی اعتماد اور ایک دوسرے کی حمایت کے غیر متزلزل یقین پر مبنی ہیں۔تقریب کے مہمان خصوصی پاکستان میں چین کے سفیر جیانگ زیڈونگ تھے، جبکہ چین کے دفاعی اتاشی میجر جنرل وانگ یانگ، چینی سفارتخانے کے حکام اور تینوں مسلح افواج کے اعلی حکام نے شرکت کی۔آرمی چیف نے چینی مہمانوں کو پی ایل اے کی سالگرہ کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ پیپلز لبریشن آرمی نے چین کے دفاع، سلامتی اور ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج اور پیپلز لبریشن آرمی کے تعلقات بے حد مضبوط ہیں، جبکہ دونوں ملکوں کی مسلح افواج کے درمیان فوجی تعاون آہنی بھائی چارے کی واضح مثال ہے۔چین کے سفیر نے پیپلز لبریشن آرمی کے قیام کی سالگرہ کی تقریب کی میزبانی کرنے پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے کہا کہ پاک فوج نے ہمیشہ انسداد دہشت گردی کے حوالے سے آگے بڑھ کر کردار ادا کیا ہے اور خطے میں قیام امن اور استحکام کے حوالے سے عظیم قربانیاں دی ہیں۔چین کے سفیر نے مزید کہا کہ ان کا ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہے، پختہ یقین رکھتے ہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان اور چین اور دونوں ملکوں کی مسلح افواج کے درمیان آہنی دوستی کو ختم نہیں کر سکتی۔پیپلز لبریشن آرمی عوامی جمہوریہ چین اور چین کی کمیونسٹ پارٹی کی مسلح افواج ہیں۔ اس کی پانچ پیشہ وارانہ شاخےں ہےں جوگراﺅنڈ فورس، بحریہ، فضائیہ، راکٹ فورس اور سٹرٹیجک سپورٹ فورس پر مشتمل ہے۔ےہ دنیا کی سب سے بڑی فوج ہے۔ ستمبر 2015 میں سیان جن پنگ، چین کی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری اور پی ایل اے کے کمانڈر ان چیف نے فوجی اہلکاروں کی تعداد میں 300000 کمی کا اعلان کیا۔ پی ایل اے کا نشان ایک سرخ ستارہ جو یکم اگست 1927 کی نان چنگ بغاوت کا حوالہ دیتے ہوئے ایک چینی رسم الخط میں لکھے آٹھ کے ہندسے پر مشتمل ہے۔پی ایل اے چین کی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی فوجی کمیشن کے ماتحت ہے۔ فوج کے سویلین کنٹرول کے اصول کے تحت، مرکزی فوجی کمیشن کا کمانڈر ان چیف عام طور پر چین کی کمیونسٹ پارٹی کا جنرل سیکرٹری ہوتا ہے۔ وزارت قومی دفاع جو ریاستی کونسل کے ماتحت ہے کا پی ایل اے پر کوئی اختیار نہیں اور مرکزی فوجی کمیشن کی نسبت بہت کم طاقتور ہے۔ وزارت دفاع کا بنیادی کردار ایک کمانڈنگ اتھارٹی کی بجائے غیر ملکی افواج کے ساتھ ایک رابطہ آفس کا ہے، جبکہ سیاسی افسران جو کمیسار کہلاتے ہیں کی فوج کے اندر سرایت مسلح افواج پر پارٹی اتھارٹی کو یقینی بناتی ہے۔ سیاسی اور فوجی قیادت نے مل کر پی ایل اے کو ایک پیشہ ور فوجی قوت بنانے کی ٹھوس کوشش کی ہے جس کی ذمہ داریاں قومی دفاعی،ملکی معیشت کی تعمیر اور ہنگامی ریلیف میں معاونت کی فراہمی تک محدود ہیں۔ اسلحہ آپریشنز اور جدید اسلحہ سمجھ سکنے والے خصوصی افسران کو آگے لانا پی ایل اے کے کردار کا تصور ہے۔ فوجی یونٹس ملک بھر کے پانچ تھیٹروں اور بےس سے زائد فوجی اضلاع میں تفویض کی جاتی ہیں ۔فوجی سروس لازمی قانون ہے۔ تاہم چین میں لازمی فوجی سروس چین کی آبادی سے رضاکارانہ فوج میں بھرتی ہونیوالوں کی ایک بڑی تعداد کی وجہ سے نافذ نہیں کی گئی۔ قومی ایمرجنسی کے زمانے میں مسلح پولیس اور پیپلز لبریشن آرمی ملیشیا ریزرو اور حمایتی عنصر کے طور پر پی ایل اے کے لیے کام کرتی ہیں۔اگرچہ پاکستان کی حکومت پاک چین دوستانہ تعلقات میں آنے والی کسی بھی کمی کی مسلسل تردید کررہی ہے لیکن اس سوال کا جواب سامنے نہیں آ رہا کہ چینی حکام نے خاموشی کے ساتھ حکومت تک اپنے تحفظات پہنچانے کی اپنی پرانی روایت کے برخلاف کھلم کھلا اپنے خدشات کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین بتاتے ہیں کہ چین کا سفارت کاری کا اپنا طریقہ ہے۔ ایک چینی وزیر لیو جیان چا کی اس تقریر نے مبصرین کو حیرت زدہ کر دیا جس میں انہوں نے سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے سامنے ملک میں پائی جانے والی سےکیورٹی کی صورتحال اور سیاسی عدم استحکام کے حوالے سے اپنے خدشات کا کھلم کھلا اظہار کیا۔ کئی مبصرین کا خیال ہے کہ یہ شاید ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی چینی رہنما نے پاکستان اور چین کے تعاون کو نقصان پہنچانے والی سلامتی کی صورتحال کے خطرات کے بارے میں اس طرح کھل کر بات کی ہو ۔ پاکستان میں چینی ورکرز کے خلاف بڑھتی ہوئی دہشت گردانہ کارروائیاں، پاکستان کا اندرونی عدم استحکام اور سی پیک منصوبوں کی سست رفتار بھی چین کے لیے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مخالف سیاسی جماعتوں کے افراد کی مخالفت میں چینی منصوبوں کو متنازعہ بنانے کے عمل کو بھی چین نے پسند نہیں کیا ہے۔ سیاسی حلقوں میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ چینی کارکنوں کے خلاف کارروائیوں میں امریکی ہاتھ بھی ہو سکتا ہے اور آئی ایم ایف کی پالیسیوں میں جکڑے پاکستان کے لیے ایک خاص حد سے آگے جانا آسان نہیں ہے۔ چےن کو پاکستان میں کام کرنے والے اپنے سےکیورٹی ورکرز کے خلاف ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں پر تشویش ہے۔ایک مقام پر دو بار دہشت گردی کی وارداتوں کا ہو جانا چین کے لیے قابل تشویش ہے۔ چینی آخر پاکستان کی مدد کے لیے آ رہے ہیں وہ یہاں مرنے کے لیے تو نہیں آ رہے۔پاکستان میں کئی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں لیکن یہ ہماری نالائقی ہے کہ ہم سی پیک کو اب تک اس معےار تک نہیں پہنچا سکے جہاں پر اسے ہونا چاہیے تھا۔ ان کے مطابق سی پیک منصوبوں کے پلان کے مطابق پاکستان میں سڑکوں ، بجلی اور فون کی سہولیات والے اعلی معیار کے اسپیشل اکنامک زونز بننا تھے جو نہیں بن سکے۔ےہ درست ہے کہ سی پیک منصوبہ آگے بڑھے گا۔ چین پاکستان کا ساتھ نہیں چھوڑے گا یہ بات بہت دکھ کا باعث ہے کہ بیرونی دنیا ہماری سیاسی قیادت پر زیادہ اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کوئی کمٹمنٹ کرلے تو اس کے پورا ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ آرمی ڈیلیور کر سکتی ہے۔پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ چین میں پاکستان کے آرمی چیف بھی ان کے ساتھ تھے۔ہم سمجھتے ہےں کہ صرف پاکستان کو ہی چین کی ضرورت نہیں بلکہ چین کو بھی پاکستان کی ضرورت ہے۔ خطے کی سیاست میں چین اور بھارت کے بابین اختلافات ہیں۔ چین کو یہاں ایک ایسے ملک کی ضرورت ہے جو بھارت کے مقابلے میں چین کا ساتھ دے۔ یہ ملک پاکستان ہی ہو سکتا ہے اور پاکستان کے ذریعے چین کو بیرونی تجارت کے لیے ایک سمندری راستہ بھی مل سکتا ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک پیچییدہ مسئلہ ہے اور دہشت گردی پر عوامی اور سیاسی حمایت کے بغیر قابو پانا مشکل ہوگا۔تحریک طالبان پاکستان، بھارتی خفیہ ایجنسی را اور عالمی سطح پر چین کی مخالفت کرنے والی قوتیں ہو سکتی ہیں۔ چینیوں کو بھی چاہیے کہ وہ افغانستان کی طرف سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کی روک تھام کے لیے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرےں۔چین اور پاکستان کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کو 73 سال ہو گئے ہےں۔ پاک چین تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے اور دونوں ممالک کے درمیان آج تک قائم یہ دوستی بے حد مضبوط اور گہری ہے۔ چین کے ساتھ ہمارا تعلق شاہراہ ریشم سے ہے اور یہ خطہ ، قدیم زمانے سے چین کے ساتھ تجارت کرتا آرہا ہے چین پاک اقتصادی راہداری اعلی معیار کی ترقی کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے، گوادر پورٹ ،چین پاکستان اقتصادی راہداری کے نقطہ آغاز میں سے ایک ہے۔ گزشتہ گےارہ سالوں میں گوادر پورٹ کی تعمیر سے متعدد نتائج حاصل ہوئے ہیں اس سے مقامی اقتصادی ترقی کو فروغ دینے میں مدد ملے گی اور دوسری طرف اس کا تعلق چین پاکستان دوستی سے ہے۔ پاکستان اور چین کو دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی تبادلوں ،تعاون اور اپنی دوستی کو مزید مضبوط بنانا چاہیے۔ہم سمجھتے ہےں کہ پالیسی کا تسلسل ہی چین کی کامیابی کا راز ہے اور صدر شی جن پھنگ نے پالیسی میں استحکام برقرار رکھ کر چینی عوام کے مفادات کا سب سے زیادہ تحفظ کیا ہے۔
