سستے انصاف کی فراہمی کے تقاضے

چیف جسٹس گلگت بلتستان جسٹس علی بیگ نے کہا ہے کہ ججزکا جدید قوانین سے آگاہ رہنا بنیادی ضرورت ہے ججز من گھڑت اور بے بنیاد مقدمات کے تدارک کے لئے ابتدائی مرحلے میں مقدمات کی جانچ پڑتال کو یقینی بنائیں اور نوے دنوںکے اندر صوبائی حکومت سے جواب دعوی مانگیں اور مقررہ وقت میں جواب دعوی نہ دینے کی صورت میں جرمانہ لگائیں، اسکے باوجود بھی جواب دعوی نہ دینے کی صورت میں مقدمے کو خارج کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام کٹیگری کے مقدمات کو یکم جولائی تک نمٹایا جائے، وراثت اور زمینوں کے دیوانی مقدمات میں باریک بینی سے کام لیتے ہوئے محکمہ مال کے ریکارڈ کو مد نظر رکھا جائے تاکہ عدالتوں کے فیصلوں کی بنیاد پر کسی کی حق تلفی نہ ہو گلگت میں جعلی انتقالات کے حوالے سے مقدمات میں اضافہ ہو رہا ہے اس لئے محکمہ مال کے ریکارڈ کی اچھی طرح سے جانچ پڑتال کریں۔ چیف جسٹس علی بیگ نے مزید کہا کہ فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کیلئے ججز کو سختی سے کام لینا ہوگا، سختی سے مراد یہ نہیں ہے کہ فریقین اور وکلاکو بے جا الجھایا جائے بلکہ تمام مقدمات میں قانونی لوازمات کو پورا کیا جائے، مقدمات میں تاخیری حربے استعمال کرنیوالے فریقین کیخلاف جرمانے لگائیں اور مروجہ قوانین کے مطابق کارروائی کریں۔چیف کورٹ عوام کو سستا اور فوری انصاف کی فراہمی کیلئے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے ماتحت عدالتوں کے ججز بھی زیر سماعت مقدمات کے فیصلوں میں تیزی لائیں تاکہ عوام کا جو اعتماد عدالتوں پر قائم ہے وہ مزید مضبوط ہو۔ریاست کے تین ستونوں میں اہم ترین ستون عدلیہ ہے اگر عدلیہ مضبوط ہوگی لوگوں کو انصاف کی فراہمی کا عمل جاری ہوگا تو ریاست آئین و قانون پر چلتے ہوئے تیزی سے ترقی کی منازل طے کرسکتی ہے۔انصاف کی فراہمی میں اس تاخیر کا سبب کسی حد تک عوام اور زیادہ حد تک عدلیہ اور وکلا ہیں۔ ہمارے ہاں غیرسنجیدہ اور غیرضروری مقدمات کی بھرمار ہے جس کی وجہ سے عدالتی بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ صرف فیصلوں میں تاخیر ہوتی ہے بلکہ اہم مقدمات کی شنوائی میں بھی دیر ہو جاتی ہے۔غیرضروری مقدمات پر وفاق اور صوبائی حکومتوں کے بے تحاشہ مالی وسائل کا بھی ضیاع ہوتا ہے۔ مختلف حکومتوں نے اس سلسلے میں اقدامات اٹھائے ہیں لیکن اس کے باوجود ان غیرضروری اور غیرسنجیدہ مقدمات میں کمی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔مقدمات کے فیصلوں کی تاخیر کی ایک بہت بڑی وجہ فیصلہ تحریر کرنے میں تاخیر اور غیرضروری طور پر مقدمات کو طوالت دینا بھی شامل ہے۔ کچھ حد تک ججوں کی کم تعداد بھی اس طوالت کی ایک بڑی وجہ ہے لیکن اوسطا ججوں کے مقدمات سننے اور فیصلہ کرنے کا دورانیہ پاکستان میں بہت طویل ہے۔عموما یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ نچلی عدالتوں میں جج غیرضروری اور غیرسنجیدہ مقدمات میں درخواست گزار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے جس سے اس قسم کی مقدمہ بازی کی حوصلہ شکنی نہیں ہوتی۔ججوں کی موسم گرما میں طویل تعطیل بھی مقدمات میں تاخیر کا ایک بڑا سبب ہے۔ یہ تعطیل برطانوی راج کی ایک نوآبادیاتی روایت ہے۔ برطانوی راج میں ججوں کو دو مہینوں کی چھٹی اس لیے دی جاتی تھی کہ انہیں انگلستان سال میں ایک مرتبہ جانے کی اجازت ہوتی تھی اور سفر میں دس سے پندرہ دن لگ جاتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے لیے ہندوستان کے شدید گرم موسم میں عدالتی کام جاری رکھنا کافی مشکل ہوتا تھا۔پاکستان میں لگ بھگ ڈھائی مہینے تک چھوٹی بڑی تمام عدالتیں گرمیوں کی چھٹیوں کے باعث بند پڑی رہتی ہیں۔ عدالتوں سے منسلک سرکاری ملازمین کو حاصل یہ سہولت ملک میں کسی دوسرے ادارے کو حاصل نہیں ہے۔ موجودہ دور کی آسانیوں کے باعث اس نوآبادیاتی روایت کو ختم کرکے زیر سماعت مقدمات کی تعداد میں بہت حد تک کمی کی جاسکتی ہے۔ججوں کی غیرمتعلقہ معاملات میں دلچسپی انصاف کی فراہمی میں مزید تاخیر پیدا کرتی ہے۔ مقدمات کی سماعت اور فیصلوں میں تاخیر میں وکلا کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ ان کے معاشی مفادات کی وجہ سے مقدمات میں تاخیر ان کے لیے سودمند ہوتی ہے۔ اس لیے وکلا کی ایک بڑی تعداد مقدمات میں التوا کی کوششیں کرتی رہتی ہے۔وہ معمولی وجوہات کی بنیاد پر یا عدالتوں کے عملے کو رشوت دے کر مقدمات کو طول دیتے ہیں۔ نچلی عدالتوں میں وکلا جب چاہتے ہیں وہ عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے، ضروری کاغذات جان بوجھ کر دیر سے جمع کراتے ہیں اور جب چاہیں التوا حاصل کر لیتے ہیں۔ اکثر چھوٹی چھوٹی وجوہات کی بنیاد پر وکلا تنظیمیں ہڑتال کر کے عدالتوں میں مقدمات میں التوا کرا دیتی ہیں۔وکلا اصلاحات کا راستہ بھی روکتے ہیں۔موجودہ نظام انصاف سے عوامی غصہ، اس کی سست روی اور ناکامی کو بھانپتے ہوئے ہی ہر ضلع میں ماڈل کورٹس کے قیام کا اعلان کیا گےا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان ماڈل کورٹس کے باوجود مقدموں کی تعداد میں کمی یا انصاف مہیا کرنے کی رفتار میں کوئی خاص تیزی نہیں آئی ہے۔ہماری اعلی عدلیہ کو اس ناکامی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اصلاح کا سلسلہ اپنے آپ سے شروع کرنا چاہیے۔ نچلی عدالتوں کی بری کارکردگی کی ذمہ داری بھی اعلی عدلیہ پر آتی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 203 ہائی کورٹس کو اختیار دیتا ہے کہ وہ نچلی عدالتوں کے کام کی نگرانی کریں۔ یہ بہت بڑی آئینی طاقت ہے جس کے ذریعے نچلی عدالتوں میں انتظامی اصلاحات کا سلسلہ شروع کیا جا سکتا تھا مگر بدقسمتی سے ہائی کورٹس اس معاملے میں کوئی قابل ذکر پیش رفت کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ انصاف کی تیز تر فراہمی کے لئے یہ ضروری ہے کہ وسیع عدالتی تربیت کے علاوہ ہمارے عدالتی عمل میں ٹےکنالوجی کے استعمال کو متعارف کرایا جائے۔ مقدمات کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے معاملات کو درست تناظر میں سمجھنا اور تھوڑے ہی عرصے میں درست فیصلے کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ نئے قوانین کا تعارف ، قانونی چارہ جوئی کی نوعیت میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں اور مقدمات کو مقررہ وقت کے ساتھ طے کرنے کی ضرورت نے بھی ججوں کے لئے قانون اور طریقہ کار سے متعلق تازہ ترین معلومات کا حصول ضروری بنادیا ہے۔ عوام عدلیہ سے بہت زیادہ توقعات رکھتے ہیں۔معاشرہ توقع کرتا ہے کہ جج باشعور ، سمجھدار ، جذبہ حب سے سرشار ، باوقار اور غیر جانبدار ہوں گے۔ عدالتی نظام میں مقدار کی نسبت معیار کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اور ان ضروریات کو پورا کرنے کے لئے تربیت کے طریقہ کار ، علم ، ٹےکنالوجی اور عدالتی مہارت کو اپ ڈیٹ کرتے رہنا بہت ضروری ہے۔ اس طرح آغاز کی سطح اور خدمات کی تربیت کے مرحلے میں بھی توقع کے مطابق ججوں کو تعلیم دینے میں ریاستی جوڈیشل اکیڈمیوں کا کردار بہت اہم ہوجاتا ہے۔ہر شخص کے لئے آخری سہارا عدلیہ ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ عدلیہ کے نظام پر لوگوں کو اعتماد ہے۔تیز رفتار ، قابل رسا اور کم اخراجات والے انصاف کی فراہمی کے مقصد کیساتھ لوگوں کو ان کی زبان میں عمل کو آسان بنانے کے لئے ٹےکنالوجی کا استعمال کےا جائے ۔ ثالثی، مصالحت، لوکل عدالتوں جیسے متبادل نظامِ عدل کے دائرہ کار کو بڑھاےا جائے۔عدالتی نظام کا مقصد صرف تنازعات کو حل کرنا نہیں بلکہ انصاف کو برقرار رکھنا ہے اور انصاف کو برقرار رکھنے کا ایک طریقہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر جیسی رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔ صرف عدالت کے کام یا نظام کی کمی کی وجہ سے انصاف میں تاخیر نہیں ہوتی۔ بہت سے مواقع پر مدعی اور مدعا علیہ اس کو حربے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وہ مسلسل مقدمات کی کاروائیوں کو ملتوی کرانے کا سہارا لے کر قوانین اور طریقہ کار وغیرہ میں موجود خلا کی بنیاد پر مقدمے کی طوالت جاری رکھتے ہیں۔عدلیہ کےلئے ضروری ہے کہ وہ عدالتی کارروائی اور طریقہ کار میں موجود اس خلا کو دور کرنے میں چوکس رہتے ہوئے فعال کردار ادا کرے۔ یہ مقصد قومی اور بین اقوامی سطح پر کی جانے والی جدت طرازیوں کو اپنا کر اور بہترین طریقوں کے اشتراک سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ صر مملکت بھی کہہ چکے ہےں کہ دنیا بھر میں لوگ انصاف کی فراہمی کو تیز کرنے اور مسائل کے فوری حل کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، حالیہ سالوں میں پاکستان میں بھی وفاقی محتسبین کی مدد سے سائلین کے مسائل کے حل میں تیزی آئی ہے۔ہمارے ہاں عدالتی نظام پر عدم اعتماد کی بہت سی وجوہات ہیں مگر بنیادی وجہ جلد انصاف کا میسر نہ ہونا اور مناسب سزاﺅں کا بروقت اطلاق نہ ہونا ہے۔ ہمارے ہاں تو ہر طرح کی برائی کا سکہ چلتا ہے، کہیں تعلقات، کہیں اثر رسوخ تو کہیں دباﺅ اور دھمکیاں مجبور کو مجبور ترین بنا دیتی ہیں اور وہ کبھی بھی انصاف حاصل نہیں کر پاتے۔ ان حالات و واقعات کے تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کے کیسز کو فوری سنا جائے، فیصلے قانون کے مطابق فوری کیے جائیں، مظلوم کی داد رسی کی جائے اور اسے تنہا نہ ہونے دیا جائے۔ سزا کا اطلاق بلاتفریق سب پر یکساں اور فوری کیا جائے، قبےح جرائم کی عبرتناک سزائےں دی جائےں تاکہ جرائم کی شرح میں کمی ہو سکے۔