بجلی چوری کی روک تھام کے تقاضے



نگران وزیراعظم کی ہدایت پر بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈائون شروع کردیا گیا ہے جس دوران لاہور میں  سابق رکن قومی اسمبلی سمیت تین سو سے زیادہ بجلی چوروں کے نام سامنے آئے ہیں۔ اسلام آباد پولیس نے کریک ڈائون کرتے ہوئے کئی بجلی چوروں کو گرفتار کرکے مقدمات درج کرلیے ہیں۔پشاور میں بھی قانون حرکت میں آگیا جہاں بجلی چوروں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے جب کہ میرپور خاص، نواب شاہ، حیدرآباد، ٹھٹھہ، بدین، ٹنڈو الہ یار اور سندھ کے دیگر شہروں میں بھی کارروائیاں کی جارہی ہیں۔بلوچستان کے علاقے نوشکی، پشین، خانوزئی اور لورالائی میں 67 بجلی چوروں کے کنکشنز منقطع اور برقی آلات ضبط کرلیے گئے جب کہ بجلی چوروں کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کیلئے درخواستیں متعلقہ تھانوں میں جمع کروادی گئی ہیں۔کوئٹہ میں تقریبا 2 کروڑ 30 لاکھ کی نادہندہ سیمنٹ فیکٹری اور 44 لاکھ روپے کی نادہندہ ایک آئس فیکٹری کے کنکشنز بھی بلوں کی عدم ادائیگی پر منقطع کردیے گئے ہیں۔ ملک میں ایک جانب بجلی بل غریبوں کی مہینہ بھر کی کمائی چھین رہے ہیں مگر طاقتور لوگ روزانہ اربوں کی بجلی چوری کرنے میں مشغول ہیں اور انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔ پاکستان میں ماہانہ 49 ارب، 9 کروڑ کی بجلی چوری کی جاتی ہے۔ روزانہ ایک ارب، 61 کروڑ کی بجلی کنڈے کی نذر ہو جاتی ہے۔ بجلی چوری اور بل وصولیوں میں ناکامی ملکی معیشت کیلئے بڑا خطرہ بن گئی ہے۔  ایک سال کے دوران ڈسکوز نے 116 ارب، 50 کروڑ یونٹس بجلی خریدی۔ ڈسکوز کی جانب سے 97 ارب ، 34 کروڑ یونٹس بجلی صارفین کو فروخت کی گئی۔ سال میں 19 ارب ، 17 کروڑ یونٹس چوری، کنڈے اور تکنیکی نقصانات کی نذر ہو گئے۔ پشاور الیکٹرک سپلائی سسٹم سے 77 ارب کی 5 ارب 70 کروڑ یونٹس چوری ہوئے۔ لاڑکانہ میں 60 فیصد، سکھر میں 40 فیصد صارفین کنڈے ڈالتے ہیں۔ بلوچستان کے علاقوں پشین، سبی، مکران، خضدار، لورالائی میں 90 فیصد سسٹم کنڈا کلچر پر چل رہا ہے۔ شہید بے نظیر آباد میں 21 فیصد کنڈا کلچر بڑھا۔ ٹھٹھہ، بدین ، سانگھڑ اور مٹیاری میں بھی کنڈا ڈالنے کا رواج بڑھ گیا۔ ضلع بنوں، ڈی آئی خان ، ٹانک اور شانگلہ میں 100 فیصد بجلی چوری کا انکشاف ہوا ہے۔بجلی صارفین کو فوری ریلیف دینے کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکا، نگراں حکومت نے کی بجلی چوری روکنے کے لیے ایک ہفتے میں کابینہ اجلاس میں آرڈیننس لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ آرڈیننس کے مسودے میں بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی کو بھی بجلی چوری تصور کیا جائے گا۔ حکومت ملک بھر میں انسداد چوری بجلی فورس قائم کریگی جس سے نہ صرف بجلی چوری پر قابو پانے میں مدد ملے گی بلکہ بجلی کے بلوں کی وصولی کو بڑھانے میں بھی مدد ملے گی۔ بجلی چوری اور عدم ادائیگی کو سنگین جرم تصور کیا جائے گا۔ حکومت نے لوگوں کی جانب سے اپنی چھتوں پر نصب سولر پینلز کی نیٹ میٹرنگ کے اقدام کا بھی جائزہ لینا شروع کر دیا ہے جیساکہ اس کی وجہ سے کپیسٹی چارجز کی ادائیگی میں اضافہ ہوا ہے جو مہنگے بلوں کا بنیادی ذریعہ ہے۔ حکومت نے مالی سال 2023-24 میں صارفین سے 3.29 ٹریلین روپے وصول کرنے ہیں جس میں سے صارفین کو کپیسٹی چارجز کی مد میں 2 کھرب روپے ادا کرنے ہوں گے۔ ملک میں 41000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ 1000 میگاواٹ شمسی توانائی ملک بھر میں لوگ اپنی چھتوں پر تیار کر رہے ہیں اور اپنی اضافی شمسی توانائی حکومت کو فروخت کر رہے ہیں۔ 1000 میگاواٹ کے سولر پینلز کی وجہ سے سسٹم کی بجلی فروخت نہیں ہو رہی اور اس کے نتیجے میں بجلی کے کیپسٹی چارجز میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے بجلی کے بلوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس بات کا فیصلہ اتوار کو نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت ہونے والے اعلی سطحی اجلاس میں کیا گیا۔ پاور ڈویژن اور ڈسکوز حکام نے گردشی قرض، کپیسٹی چارجز کی 2 کھرب روپے کی ادائیگی پر پریزنٹیشن دی۔ پاور ڈویژن کے سیکرٹری نے اجلاس کے شرکا کو بتایا کہ چوری اور وصولی کے نقصانات 550 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ جہاں تک مہنگائی کے شکار عوام کو بجلی کے مہنگے بلوں میں ریلیف دینے کا تعلق ہے تو پاور ڈویژن اور وزارت خزانہ کے اعلی افسران، اس حقیقت کو جانتے ہوئے کہ حکومت اپنے 9 ارب ڈالرز کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ قرض کے تحت آئی ایم ایف کے سخت مالی نظم و ضبط میں ہے، عوام کو ریلیف دینے کیلئے مل کر 48 گھنٹوں میں معاملے کا حل نکالیں گے۔ فنانس ڈویژن بجلی کے بلوں پر ٹیکس میں کسی قسم کے ریلیف کے بارے میں آئی ایم ایف کو اعتماد میں لے گاتاہم سابق وزیراعظم شاہد خان عباسی کا کہنا ہے کہ حکومت کو فوری ریلیف کے طور پر بجلی کے بلوں میں سے 35 فیصد کٹوتی کرنی چاہیے اور آنے والے موسم سرما کے پانچ مہینوں میں کٹوتی کی گئی رقم صارفین تک پہنچائیں اور عوام کو ریلیف دینے کا یہی واحد نسخہ ہے۔ موسم سرما میں بجلی کے بل کم ہوجاتے ہیں کیونکہ سردیوں کے موسم میں بجلی کی کھپت صرف 10 تا 12 کے میگاواٹ ہو جاتی ہے جیسا کہ زیادہ سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والے ایئر کنڈیشنر اور پنکھے بند رہتے ہیں۔ملک میں مجموعی طور پر سالانہ دو سو 30 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے اور مختلف ریجنز میں اس کی شرح مختلف ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سندھ اور خیبرپختونخوا میں بڑے پیمانے پر بجلی چوری ہو رہی ہے۔گرمی شروع ہونے کے بعد بجلی اس لیے غائب ہوتی ہے کہ اس کی طلب بڑھ جاتی ہے جبکہ پیداوار کم ہوتی ہے۔ لوڈشیڈنگ کی دوسری اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا ڈسٹری بیوشن سسٹم اس قابل نہیں کہ جتنی طلب ہے سسٹم اسے برداشت کر سکے۔ جیسے اب ہمیں 26 ہزار میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہے لیکن ہمارا سسٹم 24 ہزار سے زیادہ پیداوار کو سپورٹ نہیں کر سکتا۔زیادہ متاثرہ وہ علاقے ہیں جہاں بجلی چوری زیادہ ہوتی ہے یا لوگ بل نہیں دیتے جبکہ کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں 50 فیصد لوگ بل دیتے ہیں وہاں بھی بجلی بند کی جاتی ہے۔ کچھ لوڈشیڈنگ لوڈ مینیجمنٹ کی وجہ سے ہوتی ہے یعنی اگر کسی علاقے میں تین ہزار میگاواٹ کی طلب ہے اور اس کے لیے 25 سو میگاواٹ بجلی مختص ہے تو 500 میگاواٹ کا یہ خلا پھر لوڈشیڈنگ سے پورا کیا جاتا ہے۔ملک 40 ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن سسٹم میں اتنی صلاحیت نہیں کہ اضافی بجلی برداشت کر سکے۔صارفین کی جانب سے بجلی کا بل نہ ادا کرنے کی وجہ کو سیاسی مقاصد اور حکومتی ناکامی تصور کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو جہاں سے بل ملتا ہے لے لیتی ہے، جہاں سے نہیں ملتا خاموشی سے چھوڑ دیتی ہے۔ پی ٹی آئی حکام سابق قبائلی علاقوں میں فی گھر سات سو روپے مقرر کر رہے تھے لیکن اس پر بھی لوگ راضی نہیں تھے۔ کچھ سیاسی لوگ بھی اپنے ووٹ بینک کی وجہ سے اس معاملے پر خاموش ہیں۔انہوں نے کہا اگر حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے تو نہ صرف سب لوگوں سے بل وصول کیے جا سکتے ہیں بلکہ بجلی کے دیگر مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔اگر حکومتیں نجلی چوری کے حوالے سے ایک جامع حکمت عملی بنا کر خسارہ ہی کنٹرول کر لیں جائے تو لوگوں کی مشکل کو بڑی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ ٹیکنیکل طریقے سے کیا جا سکتا ہے۔ ان لوگوں کی نشاندہی کرنا جو بجلی چوری کرتے ہیں زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ حکومت کے آرڈیننس میں بجلی کا بل نہ دینے والے افراد کو بھی بجلی چور تصور کیا جائے گا اور بجلی چوری کی تعریف بل نہ دینے والوں کے برابر کی جا رہی ہے لیکن بل میں تاخیر ہونے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔اگر کسی کے پاس پیسوں کی کمی ہے تو اس کو بجلی چوری سے تشبیہہ نہیں دے سکتے ہیں۔ بلکہ ان کو ادائیگی کی سہولت قسطوں کی شکل میں فراہم کرتے ہیں۔ حکومت کو سارا پتا ہے کن علاقوں میں بجلی چوری ہو رہی ہے اور کون کرتا ہے۔ تو ایکشن صرف ان کے خلاف ہونا چاہیے۔ لیسکو میں لائن لاسز یا ریکوری کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیسکو 95 سے 97 فی صدر ریکوری کر رہا ہے۔لائن لاسز یا بجلی چوری بھی پاکستان کے تمام ڈسکوز سے کم لیسکو میں ہے۔ لیکن اگر حکومت کوئی بھی نئی پالیسی لے کر آتی ہے تو اس پر پوری سپرٹ کے ساتھ عمل درآمد کیا جائے ۔حکومت کی جانب سے لائے جانے والے نئے آرڈیننس میں شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کی پالیسی بھی بدلے جانے کا امکان ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس وقت پاکستان بھر میں ایک ہزار میگا واٹ بجلی شمسی توانائی سے پیدا کی جا رہی ہے۔ وزارت توانائی کا ماننا ہے کہ سولر انرجی کی پیداوار سے کیپسٹی چارجز کا بوجھ بھی عوام پر پڑا ہے۔ شمسی توانائی کا شعبہ نسبتا نیا ہے اور اس میں ابھی مزید قانون سازی بھی ہو گی۔ لیکن اگر حکومت نے ابھی سے اس کو مشکل بنا دیا تو جو لوگ سولر کی طرف راغب ہو رہے ہیں وہ رک جائیں گے کہ فائدہ نہیں ہے۔ اگر بل میں کٹوتی نہیں ہو گی تو سولر لگانے کا فائدہ کیا ہو گا؟ ابھی یہ آرڈیننس سامنے آئے گا تو مزید باتیں واضح ہوں گی۔ وزرات توانائی کے اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ سال ملک بھر میں بجلی چوری کے 20 ہزار سے مقدمات درج ہوئے۔ تاہم ساڑھے پانچ سو افراد کی گرفتاری عمل میں آئی۔ اگر بل نہ دینا بھی قانونی طور پر بجلی چوری میں تبدیل کر دیا گیا تو ان مقدمات کی تعداد یقینا بڑھے گی لیکن اس سوال کا جواب فی الوقت کسی کے پاس نہیں کہ بجلی چوری رکے گی یا نہیں۔