مہنگی بجلی کی کارپٹ بمبنگ

نیپرا نے عوام پر ایک بار پھر بجلی بم گرا دیا اور قیمت میں 5.62 روپے فی یونٹ مزید اضافہ کرنے کی منظوری دے دی۔بجلی کی قیمت میں پانچ روپے باسٹھ پیسے فی یونٹ اضافے کی درخواست پر سماعت چیئرمین وسیم مختار کی سربراہی میں نیپرا ہیڈ آفس میں ہوئی، جس میں دسمبر کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ پر سماعت مکمل ہونے پر نیپرا نے 5.62 روپے فی یونٹ بجلی مہنگی کرنے کی ابتدائی منظوری دے دی۔قیمت میں حالیہ اضافے سے بجلی صارفین پر انچاس ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ نیشنل الیکٹرک ریگولیٹری اتھارٹی کے مطابق اعداد و شمار کا جائزہ لے کر تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔درخواست کی سماعت کے دوران سی پی پی اے حکام نے بتایا کہ ایف سی اے کی مد میں اضافے کے ساتھ بقایاجات کی مد میں بھی رقم شامل ہے۔ گدو کے دو ارب چھپن کروڑ سے زائد کی انڈیکسشن شامل ہے۔ آر ایل این جی،امپورٹڈ کول اور لوکل کول کی قیمتوں میں استحکام ہے۔ گزشتہ ماہ کے بلوں میں نومبر کا ایف سی اے چار روپے تےرہ پیسے لیا گیا۔ دسمبر کے ماہ میں ایف سی اے کی مد میں پانچ روپے چھپن پیسے کی درخواست ہے، تھرکول سے جو ایورج پیداوار ہے وہ ہو رہی ہے۔ممبر نیپرا نے استفسار کیا کہ سردیوں میں ہائیڈرل کم ہو جاتی ہے باقی پلانٹس کا شیڈول بنایا گیا ؟ سردیوں میں تو لوگوں پر بوجھ کم ہونے کی توقع ہوتی ہے۔ممبر نیپرا مطہر نیاز رانا نے کہا کہ سب سے کم فیول کاسٹ نیو کلئیر کی ہے۔ ممبر رفیق شیخ نے کہا کہ آپ لوگ مان رہے ہیں کہ فیول پر ریفرنس نہیں بڑھا۔سی پی پی اے حکام نے بتایا کہ آر ایل این کا کمپوننٹ رواں سال آرہا ہے۔ ساتھ نارتھ پر مسائل کی وجہ سے بھی امور طے کرنا پڑتے ہیں، جس پر ممبر رفیق شیخ نے کہا کہ ساتھ نارتھ پر تو 1970 سے مسائل آ رہے ہیں۔ کب تک ہم لوگ ساتھ نارتھ کو دلیل بنا کر پیش کریں گے۔بعد ازاں نیپرا نے بجلی کی قیمت میں اضافے کی ابتدائی منظوری دے دی۔کیا پاکستان میں بجلی کبھی سستی بھی ہو گی ۔ جواب اس کا یہ ہے کہ اگلے کئی سالوں تک اس کا کوئی امکان نہیں ۔ وجہ آئی پی پی معاہدے ہیں ، یہ معاہدے جو 1994میں شروع ہوئے کم ازکم 2027 تک رہیں گے کیونکہ یہ مختلف المعیاد ہیں ان معاہدوں کی بعض شقیں خاصی سخت ہیں ۔ہر حکومت نے اپنے معاملات سیدھے رکھے ہیں، عوام کے مفادات کا کوئی خیال نہیں رکھا۔ مثال کے طور پر حکومت پاکستان معاہدے میں مقررہ نرخ پر آئی پی پیز کو فرنس آئل فراہم کرنے کی پابند ہوگی اور بڑھتی ہوئی تیل کی قیمت کا فرق آئی پی پیز کے بجائے حکومت کو برداشت کرنا ہوگا۔اب اس میں کمپنیوں کا تو کوئی قصور نہیں ہے، سارا قصور وفاقی حکومت کے کل پرزوں کا ہے، جنہوں نے کمیشن کے چکر میں اپنے ملک کے صارفین کو پھنسادیا ہے، مالی ادائیگی امریکا ڈالر میں کی جاتی ہے۔جب کہ تیسری شرط یہ طے پائی کہ پاکستان بجلی خریدے یا نہ خریدے، معاہدے کے مطابق ادائیگی کرنا لازم ہے۔ یہی گردشی قرضوں کے حجم میں اضافے کی بنیادی وجہ ہے ، بعدازاں یہی رقم پاکستانی عوام سے بجلی کے بلز میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں وصول کی جاتی ہے ۔ یہ راز ہے عوام کو ہر مہینے موصول ہونے والے فیول ایڈجسٹمنٹ کا ۔ ماشا اللہ سے صرف فیول ایڈجسٹمنٹ ٹیکس ہی چھے طرح کے ہیں ۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں اس بارے میں اعدادوشمار پیش کیے گئے تھے ،ان کے مطابق کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں 1300ارب روپے کی ادائیگی کی گئی جب کہ رواں مالی سال میں اس مد میں ادائیگی کا تخمینہ 2000ارب روپے لگایا گیا ہے اور اکتوبر تک گردشی قرضہ 2600 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا۔کیپسٹی پیمنٹ کے ذیل میں 550ارب روپے کا غیر معمولی اضافہ صرف ڈالر اور روپے کی شرح تبادلہ کے اوپر نیچے ہونے کے باعث ہوا ۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت ان تمام معاہدوں کو حکومت پاکستان کی ضمانت حاصل ہے۔ان معاہدوں سے انحراف کی صورت میں عالمی قوانین کے تحت پاکستان کو جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ ذراغور فرمائیں حکومت پاکستان کی طرف سے ان معاہدوں پر دستخط کرنے والوں نے کیا پاکستان کے ساتھ اپنی وفاداری نبھائی ؟ جو کچھ پاکستان ہورہا ہے ۔ یہ تو ملک دشمنی کی انتہا ہے ۔مہنگی بجلی کی ایک بنیادی وجہ بجلی پیدا کرنے والے نجی پاور پلانٹس سے کیے گئے معاہدوں کے تحت وہ بھاری بھرکم ادائیگیاں بھی ہیں جوکہ کیپیسٹی چارجز کے نام پر کی جاتی ہیں۔ جب بجلی کا استعمال کم ہورہا ہو تو بجلی کمپنیاں اپنے پلانٹ بند کردیتی ہیں، جس کے نتیجے میں صارفین پر کیپیسٹی چارجز کا بوجھ مزید بڑھتا ہے۔ یا آسان الفاظ میں یوں سمجھیں کہ اگر ایک آئی پی پی کے پاس 100 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے اور وہ ٹرانسمیشن استعداد نہ ہونے یا کم ضرورت کی وجہ سے صرف 60 میگاواٹ بجلی پیدا کرتا ہے، تب بھی معاہدے کے تحت حکومت اسے پورے 100 میگاواٹ کی ادائیگی کرنے کی پابند ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صارفین اس بجلی کی قیمت بھی ادا کرنے کے پابند ہیں جو نہ تو پیدا ہوئی اور نہ ہی خرچ ہوئی۔ اب چونکہ شرحِ مبادلہ اور شرح سود میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، اس لیے پاور کمپنیوں کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے تحت صارفین بھی کیپیسیٹی چارجز کی مد میں زیادہ سے زیادہ ادائیگی کے پابند ہیں، باوجود اس کے کہ انہیں اِن ادائیگیوں کے بدلے کوئی بجلی نہیں ملی۔2018 میں پاکستان نے کیپسٹی چارجز کی مد میں 500 ملین روپے ادا کیے اور اس کے بعد سے یہ رقم شرح سود میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے مسلسل بڑھ رہی ہے۔ بجلی پیداواری کمپنیاں مندرجہ ذیل فارمولہ کے تحت صارفین سے کپییسٹی چاجز وصول کرتی ہیں:پیداشدہ یونٹس بجلی گھر کی کل پیداواری صلاحیت اس فارمولے کے تحت بجلی پیداواری کمپنیاں پیدا شدہ بجلی کی قیمت ایک دفعہ وصول کرنے کے بعد اپنی پیدا شدہ بجلی کے فی گھنٹہ یونٹس کو اپنی کل پیداواری صلاحیت سے تقسیم کرکے اسے سوسے ضرب دے کر اس بجلی کی قیمت بھی وصول کرتی ہیں جو اس نے اپنے پلانٹ سے پیدا ہی نہیں کی۔ نیپرا نے پیداواری کمپنیوں کے لیے کیپیسٹی چارجز کی مد میں طے شدہ قیمت میں مزید اضافہ کرکے تقریبا تےس روپے فی کلوواٹ فی گھنٹہ کردیا ہے۔ معاہدے کے تحت یہ ادائیگیاں ڈالر میں ہونے کی وجہ سے صارفین سے ڈالر کی موجودہ شرح تبادلہ کے مطابق وصولی کی جاتی ہے۔ موجودہ مالی سال 2023-24 میں بجلی کے صارفین ان پاور پلانٹس کو ایک اعشاریہ تےن ٹریلین روپے کیپیسٹی چارجز کی مد میں ادا کریں گے جو بند پڑے ہیں، جبکہ اگلے سال یہ رقم بڑھ کر دو ٹریلین روپے 2000 ارب روپے ہوجائے گی۔ بعض آئی پی پیز کو خلافِ ضابطہ مالی فوائد پہنچانے کے لیے طے شدہ معاہدوں میں ترامیم کرکے زائد ادائیگیاں بھی کی گئی ہیں۔ بجلی کی پیداواری لاگت، بجلی چوری اور لائن لاسز جتنے زیادہ بڑھیں گے اس کا اتنا ہی زیادہ بوجھ گھریلو اور صنعتی صارفین کو برداشت کرنا پڑے گا۔گھریلو صارفین کی جانب سے بھی بجلی کا استعمال کم سے کم کرنے کے باوجود ہزاروں روپے کے بل آنے کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا ۔ پاکستان میں بجلی کے استعمال میں گھریلو صارفین کا حصہ سنتالےس فیصد، انڈسٹری کا اٹھائےس فیصد جبکہ زراعت اور کمرشل صارفین کا حصہ آٹھ، آٹھ فیصد ہے۔ صارفین کی اس شرح کو دیکھتے ہوئے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سستی اور قابل تجدید توانائی یعنی سولر پاور کو فروغ دیا جاتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ سولر سے پیدا کی جانے والی بجلی کا مجموعی پیداواری استعداد میں حصہ دو فیصد سے بھی کم ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان اپنی ضرورت کی انسٹھ فیصد بجلی تھرمل، چھبےس فیصد ہائیڈل اورنو فیصد بجلی نیوکلیئر پاور پلانٹ سے حاصل کرتا ہے۔ اس حوالے سے اگر گزشتہ پانچ سال کے اعداد وشمار کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ 2018 سے 2023 تک بجلی کی تھرمل پیداوار میں اضافہ اور ہائیڈل پیداوار میں کمی آئی ہے جبکہ قابل تجدید توانائی کی پیدوار میں اضافے کی شرح انتہائی سست ہے۔ پاکستان میں توانائی کا بحران اس وجہ سے بھی سنگین تر ہوتا جا رہا ہے کہ بجلی کی پیداوار کا زیادہ انحصار درآمدی تیل اور گیس یا پن بجلی پر ہے۔مگر حکام کے پاس کوئی حل ہی نہےں کہ نرخ کم کےے جائےں جو ادارے بجلی پےدا کےے بغےر رقم وصول کر رہے ہےں ان سے بجلی پےدا کرا کر عوام کو سستی بجلی دی جائے تاکہ وہ سردےوں میں گےس کی بجائے بجلی کا استعمال کرےں ےوں ان اداروں کو بھی جو بجلی پےدا کےے بغےر رقم وصول کر رہے ہےں بجلی پےدا کرنا پڑے ۔