وزیراعلی گلگت بلتستان کی جانب سے یکجہتی کا اظہار

وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے اپنے خصوصی پیغا م میں کہا ہے کہ پانچ فروری حق خود ارادیت کے حصول کیلئے کشمیریوں کے غیر متزلزل عزم کو خراج تحسین پیش کرنے کا دن ہے۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق جموں و کشمیر تنازعہ کا حل ہی جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کی کنجی ہے۔ پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کی مکمل حمایت اور یکجہتی کے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔ ہم کشمیریوں کے ناقابلِ تردید حق خود ارادیت کے حصول تک ہر طرح کی حمایت جاری رکھیں گے۔پاکستانی عوام آج کے دن اپنے کشمیریوں بھائیوں کو حق خودا رادیت کے حصول کی مسلسل جدوجہد پر بھرپور خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔وزیر اعلی نے کہاکہ غیر قانونی طورپر مقبوضہ کشمیر میں محکوم کشمیریوں کے اس حق سے انکار انسانی وقار کی نفی ہے۔مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود سب سے پرانے تنازعات میں سے ہے۔ یہ تنازعہ بھارتی ہٹ دھرمی، وعدوں کی پاسداری سے انکار، بنیادی انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی بے توقیری کی وجہ سے حل نہیں ہوسکا۔قابض بھارتی راج مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادیاتی امتیاز کے ذریعے کشمیریوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدل رہا ہے۔ یہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بھارت کے انسانیت کے خلاف سنگین جرائم پر اسکا محاسبہ کرے۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق جموں و کشمیر تنازعہ کا حل ہی جنوبی ایشیامیں پائیدار امن کی کنجی ہے۔وزےراعلی گلگت بلتستان کی جانب سے کشمےرےوں کو تنہا نہ چھوڑنے کا عزم خوش کن ہے کشمےری ہمارے بھائی اور ہماری اعانت چاہتے ہےں۔اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر دو مسئلے گزشتہ پون صدی سے اپنے حل کے منتظر ہیں ان میں پہلا بھارت کے غیر قانونی زیرِ قبضہ جموں و کشمیر کا اور دوسرا فلسطین کا ہے۔ ایک جگہ بھارت نے اپنا غیر قانونی قبضہ قائم کر رکھا ہے تو دوسرے علاقے پر صہیونیوں نے اپنے غاصبانہ پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ یہ مسائل صرف ان علاقوں کے رہنے والوں یا مسلمانوں ہی سے جڑے ہوئے نہیں ہیں بلکہ پوری بین الاقوامی برداری اور اقوامِ متحدہ سمیت تمام عالمی ادارے ان کے حل کے لیے جواب دہ ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے ذریعے ان مسائل کے حل کی بات تو کی گئی ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج تک ان کے حل کے لیے ٹھوس اور عملی اقدامات نہیں کیے۔ اسی لیے ان دونوں علاقوں کے باسی خوف اور دہشت کے سایے میں زندگی جی رہے ہیں اور ان کی چار نسلیں اسی ماحول میں پروان چڑھی ہیں۔پاکستان ان دونوں مسائل کے لیے بین الاقوامی اور عالمی فورمز پر آواز اٹھاتا رہتا ہے۔ جموں و کشمیر تو، بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے الفاظ میں، پاکستان کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے اور پاکستان کی بقا اور سلامتی کی علامت ہے، لہذا پاکستان کا اس کے لیے سرگرمِ عمل رہنا فطری بات ہے۔ کشمیری عوام بھی اپنی آزادی کے لیے پاکستان ہی کی طرف دیکھتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر صرف کشمیریوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کی بقا و سالمیت کا معاملہ بھی ہے۔ کشمیریوں کا پاکستان سے تعلق چند برسوں کا نہیں ہے، قیامِ پاکستان سے قبل ہی کشمیریوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد منظور کر لی تھی۔ دیگر بہت سی باتوں کے علاوہ کشمیریوں کا یہ اعتماد بھی پاکستان کو ہر فورم پر ان کے حق میں بات کا جواز فراہم کرتا ہے۔ آرمی چےف جنرل سید عاصم منیر کہہ چکے ہےں کہ ملک کی مسلح افواج مادرِ وطن کے ایک ایک انچ کے دفاع کے لیے تیار ہیں۔ اگر دشمن نے ہم پر جنگ مسلط کی تو بھی جواب دینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔پاک فوج عوامی حمایت سے کسی بھی مہم جوئی کا جواب بھرپور طاقت سے دے گی، بھارت کبھی اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہو گا۔ بین الاقوامی دنیا کو انصاف یقینی بنانا چاہیے اور کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت دیے جانے کا وعدہ پورا کیا جائے۔ اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری مقبوضہ جموںوکشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کو رکوانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ بھارتی فورسز اہلکار مقبوضہ کشمیر میں بے گناہ نوجوانوں اور بچوں کو گرفتار کر کے انہیں تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ہیومن رائٹس واچ سمیت کئی بین الاقوامی تنظیموں نے کشمیری عوام بالخصوص نوجوانوں پر بھارتی مظالم کے حوالے سے چشم کشا والی رپورٹیں جاری کی ہیں لیکن اس کے باوجود کشمیر میں بھارتی مظالم میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مقبوضہ وادی کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے لیے بھارت نے پانچ اگست 2019 کو یکطرفہ اقدام کیا تھا۔امریکا مسئلہ کشمیر کی مکمل صورتحال سے پوری طرح واقف ہے اور اسے یہ بھی پتا ہے کہ کشمیری مسلمانوں کو بھارت کی جانب سے کس طرح مظالم کا نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن اس کے باوجود امریکی محکمہ خارجہ نے مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک کی جو فہرست جاری کی اس میں پاکستان کا نام تو شامل کیا گیا ہے تاہم اقلیتوں کے ساتھ بدترین سلوک روا رکھنے والے ملک بھارت کو اس فہرست میں نہیں رکھا گیا۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے بھارت کا نام لسٹ میں شامل نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے بھارت میں اقلیتوں پر ظلم کے باعث بھارت کا نام لسٹ میں شامل کرنے کی سفارش دی تھی۔ کمیشن نے اپنی سفارش رد ہونے پر امریکی محکمہ خارجہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ سنگین ترین مذہبی خلاف ورزیاں کرنے والے ملک بھارت کا نام فہرست سے نکالنا سمجھ سے بالاتر ہے۔مسئلہ کشمیر کا گزشتہ پون صدی سے حل طلب ہونا اور وہاں بھارت کی غاصب سےکیورٹی فورسز کی طرف سے کی جانے والی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ امریکا سمیت بہت سے ممالک بھارت کی طرف سے کشمیریوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر تشویش کا اظہار تو کرتے ہیں تاہم اس کو روکنے کے لیے کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کرتے جس کی وجہ سے بھارت کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے کہ وہ مقبوضہ وادی میں جیسے چاہے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتا رہے۔ مظلوم کشمیریوں کی مدد کرنا اور انہیں حق خود ارادیت دلانا بین الاقوامی برداری کے انتخاب کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ان کا فرض ہے جو انہیں آج نہیں تو کل ادا کرنا ہی پڑے گا کیونکہ صرف اس خطے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کا امن اس مسئلے کے حل سے جڑا ہے جس کا احساس بین الاقوامی برادری کو کرنا ہی ہوگا۔کشمیر ضرور آزاد ہوگا،ہمارے دل کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں،دنیا کو کشمیر کے مسئلہ کے پرامن حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ پاکستان کا کشمیر کے حوالے سے وہ نقطہ نظر ہے جو اس وقت قائد اعظم کا تھا ، پاکستان نے ہمیشہ ہر فورم پرکشمیریوں کا ساتھ دیا ہے ۔ اب مقبوضہ کشمیر میں صورت حال انتہائی خوفناک ہے ،مقبو ضہ کشمیر اب ایک فوجی سٹیٹ بن چکا ہے ،ہر گلی میں فوجی نظر آ تا ہے توایسی صورت حال میں وہاں سانس لینا بھی کشمیریوں کے لیے دشوار نظر آرہا ہے ،ایسے ماحول میں وہ کیسے زندگی بسر کر سکتے ہیں جب ہر طرف خوف وہراس ہو۔ کشمیر کی آزادی کے بغیر خطے میں امن کو شدید خطرہ لاحق ہے ۔کشمیر یوں کی آ زاد ی اور ان کے حق خودارادیت کے لیے کوشش کرنا ہمارا مذہبی اور اخلاقی فریضہ ہے ۔ ظلم کی تاریک رات ضرور ختم ہوگی اور جلد ہی آزادی کی صبح طلوع ہونے والی ہے۔افسوس ےہ ہے کہ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، او آئی سی اور مسلمانوں کا فوجی اتحاد کوئی کردار ادا نہیں کررہا،جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کو مساوی انتظامی اور شہری حقوق دیئے جائیں، کشمیر کی نازک صورتحال پر حکومت، ریاست اور اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر عالمی سطح پر کشمیر کے حقوق کی آواز بلند کرنا چاہئے ۔بھارت کی نو ریاستوں میں مسلمانوں پر بدترین مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں سول سوسائٹی کو انسانی حقوق کے مسائل کا سامنا ہے، انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کو بھارت سے جواب لینا ہوگا، مقبوضہ وادی میں نہتے کشمیریوں کی زندگی شدید مشکلات کا شکار ہے، مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم پر اقوام متحدہ کے حکام کے مذمتی بیان کی بھی حمایت کرتے ہیں۔پاکستان کے خلاف الزام تراشی کرتے ہوئے بھارتی رہنما اپنے ملک کے سماجی ڈھانچے کو نظر انداز کر دیتے ہیں، بھارتی سماج ہندوتوا کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔پاکستان کشمیریوں کے حق خودارادیت کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ ہم کشمیر میں ماورائے عدالت قتل عام کی تحقیقات کے لئے عالمی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ، کشمیر کو غیر فوجی علاقہ بنانے کے لئے اقدامات اٹھائے۔ سلامتی کونسل اپنی فیصلوں پر عملدرآمد یقینی بنائے اور بے گناہ کشمیریوں کو رہا کیا جائے ۔بھارتی فوج نے آزادی کے لئے جدو جہد کرنے والے نہتے کشمیریوں پر زندگی اجیرن کرکھی ہے، نظام زندگی مکمل طور پر مفلوج ہو چکا ہے۔سری نگر کے ہسپتالوں میں پیلٹ گن کے استعمال سے زخمی ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے ‘ہزاروں افراد کے بینائی سے محروم ہونے کا خدشہ ہے۔ ہندوستانی فوج کشمیر میں نہتے اور بے گناہ شہریوں پر طاقت کا بے دریغ استعمال کررہی ہے، خواتین اور بچے بھی ان سے محفوظ نہیں ہیں۔ ہم سمجھتے ہےں کہ پورے ملک کو کشمےرےوں کی جدوجہد میں ان کی اخلاقی مدد کو ےقےنی بناناچاہےے وزےراعلی گلگت بلتستان نے اس حوالے سے مثبت عزم کا اظہار کےا ہے۔