گلگت بلتستان میں دہشت گردی کے ممکنہ خطرے کے پیش نظر سےکیورٹی فول پروف بنانے کا فیصلہ کیا گیا، حکومت کو خفیہ طور پر اطلاع ملی ہے کہ کچھ خودکش بمبار گلگت شہر میں داخل ہوگئے ہیں ان میں سے ایک مبینہ خود کش بمبار کی تصویر سامنے آگئی ہے، خفیہ اداروں کی رپورٹ کی روشنی میں پورے گلگت بلتستان میں رمضان المبارک میں سےکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تمام اضلاع کی انتظامیہ اور پولیس کو خصوصی ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ اپنے اپنے ضلع میں یوم علیؑ کے موقع پر منعقد ہونے والی مجالس ،ماتمی جلوسوں اور شبہائے قدر کے اجتماعات کی سےکیورٹی فول پروف بنائیں تاکہ اِنسانوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔ حکومت کی جانب سے گلگت‘ نگر‘ ہنزہ‘ غذر‘ سکردو‘ گانچھے‘ شگر ،کھرمنگ سمیت استور اور دیگر علاقوں کے داخلی اور خارجی راستوں پر چیکنگ انتہائی سخت کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے عوام الناس سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ وہ مشکوک شخص یا چیز کے بارے میں فوری اطلاع انتظامیہ پولیس کو دیں تاکہ فوری کارروائی عمل میں لائی جاسکے ۔انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق گلگت بلتستان میں مذہبی اجتماعات کو نشانہ بنانے کیلئے خودکش بمبار داخل ہونے کی اطلاع ہے اس لئے انتظامیہ اور پولیس کو سکیورٹی انتظامات کو فول پروف بنانے کیلئے تمام تر ممکنہ اقدامات اٹھانے کی خصوصی ہدایات کی گئی ہیں ۔پاکستان میں دہشت گردانہ حملے دوبارہ بڑھنے سے امن و امن سے متعلق عوامی خدشات بڑھ گئے ہے۔ ایسی بحث بھی چھڑ گئی ہے کہ آیا مستقبل میں ایسے دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ ہو جائے گا۔ دہشت گردی کی حالیہ لہر کے دوران خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں۔بشام حملہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔حالیہ دہشت گردانہ حملوں کے بعد مختلف علاقوں میں سےکیورٹی میں اضافہ کر دیا گیا۔ کچھ مبصرین کے خیال میں بلوچستان میں ہونے والی کارروائیوں کا بڑا گہرا تعلق پاکستان کے اسٹریٹجک مفادات سے ہے اور یہ کہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر اس بات کا امکان ہے کہ بلوچستان میں حملے بڑھیں گے۔ بلوچستان میں پاکستان کے سٹریٹیجک مفادات چین کے ساتھ بہت قریب تر ہوتے جا رہے ہیں، اس لئے کچھ قوتیں چاہتی ہیں کہ ان کو نقصان پہنچایا جائے۔جنہوں نے ہتھیار اٹھائے ہیں، وہ پاکستان کو توڑ نہیں سکتے، ان کو بڑے پیمانے پر بلوچستان کی عوام کی حمایت بھی حاصل نہیں ہے، کچھ قوتوں کے اشارے پر چین اور پاکستان کے اسٹریٹجک مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ دہشت گردانہ حملے اس وجہ سے بھی بڑھ گئے ہیں کہ افغان طالبان پاکستانی طالبان کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں اور انہوں نے ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے بھی سخت موقف اپنایا ہوا ہے۔کئی مبصرین تو اس خوف میں بھی مبتلا ہیں کہ کہیں صورتحال ماضی جیسی نہ ہو جائے جب ٹی ٹی پی پاکستان کے مختلف علاقوں پر حملے کر رہی تھی۔ایسا خیال کیا جاتا ہے سابق افغان حکومت کے عناصر اب بھی موجود ہیں جو پاکستان کے خلاف کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔اگست 2021 میں افغان طالبان کے کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد ٹی ٹی پی کس طرح افغانستان میں زور پکڑ رہی ہے ۔ حقیقت میں اس رپورٹ نے پاکستان کے موقف کی تائید کی ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستان کے اندر سے نہیں بلکہ افغانستان سے کام کر رہی ہے، علاقائی ریاستوں کو تشویش ہے کہ اگر ٹی ٹی پی کا افغانستان میں آپریٹنگ اڈہ جاری رہا تو یہ علاقائی امن کے لیے خطرہ بن سکتا ہے ۔اےک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبہ کنٹر میں ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے تربیتی کیمپوں کو ٹی ٹی پی کے جنگجوﺅں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کی صورت حال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے ۔طالبان اور القاعدہ کے درمیان تعلقات قریبی اور علامتی ہیں ۔ القاعدہ افغانستان میں خفیہ طور پر کام کرتی ہے تاکہ اس بیانئے کو فروغ ملے کہ افغان طالبان افغان سرزمین کو دہشت گردی کے مقاصد کے لیے استعمال نہ کرنے کے معاہدوں کی تکمیل کرتے ہیں ۔ پاکستان میں دہشت گردی کا خطرہ ریڈار پر آگیا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کے خلاف میدان جنگ بننے جارہا ہے ؟پاکستان کہہ چکا ہے کہ افغانستان سے دہشت گردی کے تناظر میں اپنے دفاع کے لیے عالمی قانون پر عمل کریں گے ۔ اگر افغان حکام کارروائی نہیں کرتے تو افغانستان کے اندر کارروائی ہمارا ایک ایکشن ہو سکتا ہے۔ جب سے سعودی عرب اور ایران میں دوستی ہوئی ہے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے کیوں کہ یہ دوبرادر اسلامی ملک اب مل کر دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑیں گے ۔کابل سے انخلا کے موقع پر امریکا کا یہ تاریخی بیان ریکارڈ پر ہے کہ خطے میں دہشت گردوں کا مقابلہ علاقائی قوتیں کریں گی۔ یعنی پاکستان ، ایران چین ، روس اور سینٹرل ایشین ریاستیں یعنی امریکی افواج ہمارے خطے میں اب کبھی بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل نہیں ہوں گی۔بنیاد پرستی ہمارے ایک مخصوص طبقے کا خفیہ ہتھیار ہے ۔ اگر اس میں کوئی شک ہے تو پاکستان کی پوری تاریخ کا جائزہ لے لیں ۔ ایک نہیں بہت سے ثبوت مل جائیں گے کیونکہ اس طبقے کی بقا ہی اسی میں ہے ، چاہے پاکستان کے وجود کا ہی خاتمہ ہو جائے ۔ موجودہ آدھا پاکستان اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔ افغانستان میں طالبان حکومت کی واپسی کی وجہ سے وہ دہشت گرد عناصر متحرک ہوگئے ہیں جن کے ٹھکانے سرحد پار ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کی لہر کے تانے بانے سرحد پار جا ملتے ہیں۔ سابقہ دور میں ریاست کی جانب سے طالبان حکومت کے دباﺅ میں کیے گئے امن معاہدے کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں مسلح عسکریت پسندوں کو اپنے قبائلی علاقوں میں واپسی کی اجازت دی گئی۔ اس معاہدے کے نتیجے میں کالعدم تحریکِ طالبان کو ایک بار پھر اس خطے میں متحرک ہونے کا موقع ملا اور یوں انہوں نے اپنی کارروائیوں کا آغاز وہیں سے کیا جہاں سے انہیں 2016 کے فوجی آپریشن میں نکال دیا گیا تھا۔بہت سے شرپسند تو ان علاقوں میں واپس آچکے ہیں لیکن ان کی قیادت اب بھی افغانستان میں اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں موجود ہے جہاں وہ طالبان حکومت کے تحفظ میں ہیں۔ اب ہمارا ملک دہشت گردوں کے آگے شرم ناک انداز میں ہتھیار ڈال دینے کی قیمت اپنے عوام کی جانوں کی صورت میں ادا کررہا ہے۔کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے دھڑوں کے ساتھ امن معاہدے کے بعد سے دہشت گرد حملوں میں کئی پاکستانی فوجی شہید ہوچکے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی لہر کے بعد، اب بلوچستان دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔یہ سیکیورٹی ایجنسیوں کے لیے ایک سنگین معاملہ ہے کیونکہ وہ پہلے ہی صوبے میں بلوچ علحیدگی پسند گروہوں سے نبردآزما ہیں۔ اگرچہ ٹی ٹی پی کی سرگرمیاں شمالی بلوچستان خصوصا پختون اکثریتی علاقوں تک محدود ہیں لیکن لگتا یہ ہے کہ ٹی ٹی پی نے دیگر بلوچ علاقوں میں بھی اپنے قدم جمالیے ہیں۔اس سے زیادہ تشویش ناک یہ اطلاعات ہیں کہ بلوچ علےحدگی پسند گروہوں اور ٹی ٹی پی نے مبینہ طور پر ہاتھ ملا لیے ہیں۔ یہ بات پریشان کن ہے کہ بلوچستان کے کچھ علاقوں میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری ایسے گروہوں نے قبول کی جن کا ٹی ٹی پی کے ساتھ قریبی تعلق ہے۔ یہ خطہ پہلے ہی بلوچ عسکریت پسندی کا شکار تھا۔ اس اتحاد نے علاقے میں سیکیورٹی فورسز کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔حالیہ دہشت گرد حملوں سے یہ ظاہر ہوا کہ ےہ گروہ جدید اسلحے سے لیس ہیں۔ افغانستان اور ایران کے ساتھ غیرمحفوظ سرحدوں نے شرپسندوں کو آزاد نقل و حرکت کا موقع دیا ہے۔ سرحدی علاقے بھی اب سرحد پار متحرک عسکریت پسند گروہوں کے لیے محفوظ علاقے تصور کیے جانے لگے ہیں۔افغان طالبان کے انکار کے باوجود یہ بات واضح ہے کہ ٹی ٹی پی کو طالبان حکومت کی حمایت حاصل ہے۔ ان عسکریت پسندوں کو جدید ہتھیاروں کی دستیابی نے صورتحال کو انتہائی تشویش ناک بنا دیا ہے۔واضح طور پر دہشت گردی کی حالیہ لہر کے بعد سے افغان طالبان حکومت کے حوالے سے پاکستان کے موقف میں سختی آئی ہے۔عسکری قیادت نے افغان حکومت کو پاکستان سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں ملوث دہشت گردوں کو پناہ دینے پر سختی سے خبردار کیا ہے۔ افغانستان کی عبوری حکومت سے توقع تھی کہ وہ حقیقی معنوں میں اور دوحہ معاہدے میں کیے گئے وعدوں کی روشنی میں دہشت گردوں کو کسی بھی ملک کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے نہیں دے گی۔ اس طرح کے واقعات ناقابلِ برداشت ہیں جن پر پاکستان کی مسلح افواج کی جانب سے موثر جواب دیا جائے گا۔یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پاکستان کی حکومت نے طالبان کی حکومت کو دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف اقدامات کرنے پر زور دیا لیکن کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس کے بجائے افغان طالبان نے پاکستان کی تنبیہ پر سخت ردِعمل دیا۔ طالبان ےہ کہتے رہے ہےں کہ یہ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ملک میں مسائل سے نمٹے۔گلگت بلتستان اےک حساس علاقہ ہے جہاں ماضی میں بھی ملک دشمن قوتےں اپنے مذموم عزائم کی تکمےل میں مصروف رہی ہےں اس لےے ضرورت اس بات کی ہے کہ دشمنوں کے عزائم کو ناکام بنانے کے لےے پوری قوت استعمال میں لائی جائے۔ہم داسو ڈےم پر کام کرنے والے چےنی انجےنئرز کے خلاف دہشت گردی کا سامنا کر چکے ہےں ‘ہمارا دشمن نہےں چاہتا کہ سی پےک اور پاکستان میں چےنی منصوبوں کا سلسلہ آگے بڑھے‘ ہمےں ہر حال میں ان عناصر کی بےخ کنی کرنا ہو گی جو پاکستان کی ترقی کے دشمن ہےں ۔