خصوصی افراد کے مسائل حل کرنے کی ےقےن دہانی

گورنر گلگت بلتستان سید مہدی شاہ نے کہاہے کہ خصوصی افراد کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کئے جائیں گے سرکاری ملازمتوں میں خصوصی افراد کیلئے تین فیصد کوٹہ بحال کروائیں گے اور اس بابت کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے‘ وزیراعلی سے بات کرکے نوٹیفکیشن کرادیں گے۔گورنر نے قراقرم ڈس ایبلٹی فورم کے عہدیداران کو یقین دلایا کہ وہ خصوصی افراد کے مسائل کیلئے ذاتی کوشش کریں گے، انہوں نے کے ڈی ایف کے عہدیداران سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ مجھے اللہ نے سخت بیماری سے شفا عطا کرکے غریبوں کی خدمت کا موقع بخشا ہے میں اپنی بقیہ زندگی غریبوں کی خدمت کیلئے وقف کردوں گا جب میں بیمار تھا تو میں نے رب سے یہ عہد کیا کہ نئی زندگی ملی تو غریبوں کی ہر ممکن مدد کروں گا، خصوصی افراد خود کو کبھی بھی تنہا نہ سمجھیں ،یہ معاشرے کا اہم حصہ ہیں ان کو کبھی دکھ نہیں پہنچاﺅں گا جب تک زندہ ہوں ان کے مسائل کے حل کوششیں کرتا رہوں گا ۔درےں اثناءوزیر تعلیم غلام شہزاد آغا سے خصوصی افراد کے ایک وفد نے ملاقات میں درپیش مسائل سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر وزیر تعلیم نے گفتگو کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ سپیشل افراد قوم کا اثاثہ ہےں انکی خدمت ہم عبادت سمجھ کے کریں گے۔ صوبائی وزیرنے کہا کہ ان کو تعلیمی ماحول دینا اور جدید تعلیمی اصولوں پر استوار کرنا ہماری اولین ذمہ داری ہے۔ مخصوص افراد کو مخصوص تعلیمی مراکز میں فیکلٹی اور انتظامیہ کی پوسٹس پر بھرتی میں ترجیح دی جائےگی۔معیار تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے فوری اصلاحات پر کام شروع کیا جائے گا تاکہ سپیشل پرسن دور جدید کے علمی تقاضوں سے ہم آہنگ ہوسکیں۔دنیا میں ایک ارب سے زیادہ افراد معذوری کا شکار ہیں، یہ دنیا کی آبادی کا 15 فیصد بنتا ہے، خصوصی افراد کی موثر طور پر بحالی اور ان کی تعلیم و تربیت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے خصوصی بچوں کے لیے الگ سے ادارے بنانے کی بجائے ان کو عام بچوں کے ساتھ ایک ہی کلاس روم اور ایک ہی سکول میں پڑھنے کے مساوی مواقع ملنے چاہیں تاکہ ان معذور بچوں میں احساس محرومی پیدا نہ ہو سکے اور وہ بھی نارمل بچوں کے شانہ بشانہ ملک و قوم کی خدمت کر سکیں ۔ حکومت کو معذور افرادکی بحالی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معذور افراد کو اسکول ، کالج اور یونیورسٹیز کی سطح پر زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کی جائیں تا کہ ان میں تعلیم حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی ہو سکے ان کی سمجھ بوجھ کے مطابق ان کی پرورش کی کوشش کرنی چاہیے روزگار کی فراہمی اور زندگی کے ہر شعبے میں ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی ان کے ساتھ پیش آنے والی معاشرتی ناانصافیوں کو دور کرتے ہوئے ایسا ماحول دینا ہوگا جس سے وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں اور معاشرے کے مفید اور کارآمد شہربن سکیں۔سپریم کورٹ نے پنجاب میں گریڈ سترہ کی ملازمتوں میں اقلیتوں اور خصوصی افراد کے کوٹے سے متعلق مقدمے کے فیصلے میں خصوصی افراد کے لیے معذور کی اصطلاح استعمال کرنے سے روک دیا تھا۔فیصلے میں کہا گیا کہ اقلیتوں اور خصوصی افراد کے لیے مقرر ملازمتیں فراہم کی جائیں، یہ ان کا آئینی حق ہے اور مذکورہ ملازمتیں تبدیل یا دیگر شہریوں کو نہیں دی جاسکتی ہیں۔فیصلے میں کہا گیا کہ آئین پاکستان تمام شہریوں کو بلا امتیاز برابر کے حقوق فراہم کرتا ہے۔ہمیں سمجھنا چاہیے کہ معذوری صرف جسمانی نہیں ہے بلکہ اس کی مختلف اقسام ہوتی ہیں۔ معذوری کو تین بریکٹس میں تقسیم کیا جاتا ہے ایک معذوری وہ ہوتی ہے جو نارمل افراد کو زندگی میں کبھی بھی ہوسکتی ہے یا پھر بڑھاپے میں طور پر ہوجاتی ہے جیسے یاداشت یا بینائی کا چلے جانا، فالج جیسے امراض کا ہونا وغیرہ شامل ہیں۔اس عمر میں انہیں سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بسا اوقات وسائل نہ ہونے کی صورت میں بھی انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے اثرات ان کی نفسیات پر بھی پڑتے ہیں۔دوسری قسم کی معذوری بچوں میں ہوتی ہے یعنی پیدائشی طور پر بچے کا معذور پیدا ہونا۔پہلے جسمانی معذوری کے شکار بچوں کی تعداد زیادہ تھی مگر اب آٹیزم کا شکار بچے بہت زیادہ تعداد میں موجود ہیں۔ دنیا میں ان کیلئے الگ سکولز اور سہولیات موجود ہیں مگر ہمارے ہاں یہ عدم توجہی کا شکار ہیں۔معذوری کی تیسری قسم نوجوانوں میں ہوتی ہے۔ ان کی عمر کے ساتھ مسائل بھی زیادہ ہوتے ہیں۔اس عمر میں انہیں روزگار کمانا ، گھر سنبھالنااور شادی جیسے مراحل سے گزرنا ہوتا ہے لہذا ان کے لیے معاملات پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔ انہیں ٹرانسپورٹ، ملازمت و دیگر مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے جس کے باعث وہ فرسٹریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ لہذا معذوری کا شکار تمام افراد کی نفسیاتی صحت پر توجہ دینا ہوگی۔عمارتوں میں ریمپ کا مسئلہ ہے،پبلک مقامات اور سرکاری دفاتر بھی خصوصی افراد کے قابل رسائی نہیں ہیں، جہاں ریمپ بنے ہیں وہ بھی معیاری نہیں، ریمپ کا18 ڈگری سے زائد زاویہ نہیں ہونا چاہیے۔ خصوصی افراد کے حوالے سے مستند اعداد و شمار نہیں۔سپیشل ایجوکیشن کی پالیسی اچھی ہے مگر بدقسمتی سے یہاں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پالیسیوں پر عملدرآمد میں مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، موثر مانیٹرنگ نہیں ہوتی، ہر حکومت اپنے حساب اور ترجیحات کے مطابق معاملات کو لے کر چلتی ہے جس میں خصوصی افراد نظر انداز ہوجاتے ہیں، ہمیں اچھی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھنا چاہیے، اس سے ملک و قوم کو فائدہ ہوگا۔بدقسمتی سے ہمارے پارک، شاپنگ مال، و دیگر پبلک مقامات خصوصی افراد کے لیے سازگار نہیں ہیں، سینئر سٹیزنز کو بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے،سرکاری عمارتوں میں بھی مسائل ہیں،ہمیں انفراسٹرکچر میں خصوصی افراد اور سینئر سٹیزنز کو شامل کرنا ہوگا۔ جن تعلیمی اداروں میں سپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ موجود ہیں، وہاں بھی مسائل ہیں۔نابینا افراد اور خصوصا تعلیم حاصل کرنے والے نابینا طالب علم بہت سارے مواقع سے محروم رہتے ہیں، ٹرانسپورٹ وغیرہ جیسے مسائل کی وجہ سے وہ سیمینارز، تربیتی ورکشاپس وغیرہ میں شرکت نہیں کر سکتے۔ بارش کی صورت میں خصوصی افراد کو آمدورفت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ہمیں ان افراد کی بحالی کے لیے خصوصی اقدامات کرنا ہوں گے۔ بدقسمتی سے پچانوے فیصد خصوصی بچے اسکول، مدارس و دیگر تعلیمی و تربیتی درس گاہوں میں نہیں جاتے، صرف پانچ فیصد بچے جو اسکولوں میں جاتے ہیں انہیں بھی سہولیات میسر نہیں ہیں۔خصوصی بچوں کے والدین بھی بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ جتنی جلدی بچے میں معذوری کا علم ہوجائے اتنا بہتر علاج ہوسکتا ہے اور بیشتر صورتوں میں معذوری سے بچایا جاسکتا ہے، حکومت، سرکاری و نجی شعبوں، سول سوسائٹی سمیت سب کو آگے آنا ہوگا اور خصوصی افراد کیلئے کام کرنا ہوگا۔ ہمیں ان پر ترس نہیں کھانا اور نہ ہی بھکاری بنانا ہے۔ یہ خصوصی افراد کا حق ہے کہ انہیں معاشرے میں شامل کیا جائے، ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ ان بچوں کی معاشرے میں جگہ بنائیں، الگ سکول بنانے کے بجائے عام سکولوں میں ہی ان کی جگہ بنائی جائیں، انہیں قومی دھارے میں لایا جائے۔دیگر ممالک میں خصوصی افراد کو جتنا ریلیف مل رہا ہے ہمارے ہاں انہیں اتنی ہی تکلیف دی جاتی ہے۔ عمومی رویے تو مسئلہ ہیں ہی لیکن سرکاری دفاتر میں بھی خصوصی افراد کے ساتھ رویہ اچھا نہیں ہے۔ خصوصی افراد کے حوالے سے جہاں مسائل ہیں انہیں دور کرنے کیلئے کام کرنا ہوگا، ملازمین کی تربیت کرنا ہونگی۔خصوصی افراد کا ایک بڑا مسئلہ معذوری کے سرٹیفکیٹ کا حصول ہے۔اس لیے سر ٹیفکیٹ کیلئے مخصوص دن کی شرط ختم کرکے روزانہ کی بنیاد پرجاری کیے جائیں۔ہمارے ہاں زیادہ محکموں کی وجہ سے زیادہ وسائل خرچ ہو رہے ہیں، محکمہ بیت المال، سوشل ویلفیئر، محکمہ سپیشل پرسنز، محکمہ زکواة کو ضم کرنے سے کام میں بہتری لائی جاسکتی ہے اور وسائل کا ضیاع بھی نہیں ہوگا۔ اس طرح کم وسائل میں اچھے نتائج برآمد کیے جاسکتے ہیں۔ حکومتی سطح پر بھی خصوصی افراد کو سہولیات دینے کے اعلانات ہوتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود خصوصی افراد کی مشکلات ختم نہیں ہورہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ ہمارا فرسودہ اور پیچیدہ نظام ہے۔اس لیے خصوصی افراد کو معاشرے کا کارآمد شہری بنانے کیلئے ان کے مسائل کا ازالہ کرنا ہوگا۔پاکستان میں معذوری کا شکار افراد کا کوئی پرسان حال نہیں ، ان کے معاشرے میں فعال نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو سالانہ جی ڈی پی میں چھے فیصد تک نقصان ہو رہا ہے، انہیں معاشی طور پر خودمختار بنا کر ملکی معیشت پر بوجھ کم کیا جاسکتا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں خصوصی افراد کے حوالے سے ڈیٹا موجود نہیں ایسے میں ان کی معاشی ، معاشرتی ، جسمانی اور نفسیاتی بحالی کیسے کی جاسکتی ہے ، انہیں معاشرے کا فعال شہری کیسے بنایا جاسکتا ہے ؟ پاکستان نے اقوام متحدہ کے کنونشن اور پائیدار ترقی کے اہداف کی توثیق کر رکھی ہے ، اس کی روشنی میں خصوصی افراد کی بحالی اور انہیں قومی دھارے میں لانے کیلئے کام کرنا ہوگا ۔ بدقسمتی سے ملک بھر میں خصوصی افراد کیلیے کوئی خصوصی ہسپتال نہیں اور نہ ہی کوئی شعبہ ہے ، ہر صوبے میں کم از کم ایک ہسپتال لازمی ہونا چاہیے۔ نجی شعبے کو خصوصی افراد کو ہنر مند بنانے اور روزگار فراہم کرنے میں آگے آنا ہوگا ، ان افراد کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے ، اس سے ملک و قوم کو فائدہ ہوگا۔پاکستان میں دوکروڑ ، پنجاب میں پچاس لاکھ اور سندھ میں تےس لاکھ سے زائد خصوصی افراد ہیں لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں