جدیدٹیکنالوجی اور نئی نسل

محکمہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے زیر اہتمام گلگت بلتستان کے 250 سے زائد طلبہ نے مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی بلاک چین کا چھ ماہ کا کورس مکمل کیا ۔آنے والا دور جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے،جس کے لئے ہماری نئی نسل کو اسی کے مطابق تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ذہین نوجوان باہمت اور محنتی ہیں، ان نوجوانوں نے فری لانسر، اسٹارٹ اپس سمیت دیگر کاروبار کے ذریعے ترقی کی ہے۔آئی ٹی انقلاب کے نتیجے میں پوری دنیا میں لوگوں کا طرز زندگی بدل گیا ہے۔ آنے والا دور ہی جدید ٹیکنالوجی کا ہے اور پوری دنیا جدید ٹیکنالوجی پر شفٹ ہورہی ہے۔مشیر انفارمیشن ٹیکنالوجی ثریا زمان نے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ مجھے خوشی اس بات کی بھی ہے کہ اس کورس میں خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی ہے،ہمارا محکمہ اپنے کم وسائل اورقلیل بجٹ کے اندر رہ کر بہترین کام کررہا ہے۔اس موقع پر سیکرٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی اعظم خان کہا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈےپارٹمنٹ گلگت بلتستان کے طلبا و طالبات کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں ہر ممکن مدد فراہم کررہے ہیں، چاہے وہ سوفٹ لون ہو یا آرٹےفیشل انٹلیجنس یا بلاک چین جیسے اہم اقدامات روز اول سے اٹھا رہے ہیں۔آج کل کی نسل پڑھ لکھ تو بہت رہی ہے مگر انسانوں اور معاشرے سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ نئی نسل ہر وقت موبائل فون، ٹی وی، لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ پر لگی رہتی ہے جس سے وہ خاندان، رشتے داروں اور دوستوں اور معاشرے سے دور ہوتی جا رہی ہے۔نسل نو کو تعلیم کے ساتھ معقول طرزِ فکر کا حامی ہونا ضروری ہے۔ تہذیب و تمدن سے آشنائی ہو۔ بڑوں سے احترام اور چھوٹوں سے شفقت کا رویہ اختیار کرے۔ علم، معاشرہ میں انسان کی شناخت اور بہتری کا ہی سبب نہیں ہے بلکہ اس سے بڑھ کر علم کے ذریعے انسان کی فکری تربیت اور ذہنی پرورش لازمی ہے۔ جس کے عمدہ نتائج وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بھی دیکھتے ہیں اور اپنے شب و روز کے اعمال میں بھی دکھائی دیتے ہیں ۔ ایسی تعلیم جو بہترین تربیت کے ساتھ حاصل کی جائے جو نہ انسان کے دل کو پر نور کرتی ہے بلکہ انسانی شخصیت میں بھی نکھار پیدا کرتی ہے۔ نسل ِ نو میں بعض گھروں میں والدین اور بزرگوں کے ساتھ فرمانبرداری کا فقدان دیکھا جا رہا ہے۔ تو بڑے اگر خود اعلی تہذیب و تمدن کا نمونہ پیش کریں تو تو ظاہر سی بات ہے بچے اہل ِ خانہ کے نقش و قدم پر چلیں گے۔ اس لئے ان تمام باتوں کا خصوصا ادب و آداب اور دوسروں کے ساتھ نیک برتاﺅ کا خاص خیال رکھیں اور بچوں کو بھی اس راہ پر چلنے کی تلقین کریں ۔ بچوں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو پروان چڑھائیں اور منفی خیالات سے انہیں بچائیں ۔نوجوان وہ دولت ہیں جو کسی بھی ملک کی معیشت کو چار چاند لگا سکتی ہے مگر ساتھ ہی ایسا سرمایہ ہیں جو کہ ملک کو تباہ و برباد بھی کر سکتا ہے۔ اسی لیے تمام ممالک اپنی نئی نسل کی تعلیم وتربیت کے لیے اہداف متعین کرتے ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت کے لیے بہترین تعلیمی ادارے بناتے ہیں۔ معاشرے کو صحت مند معاشرہ بنانے کے لیے وہ نو جوانوں پر انحصار کرتے ہوئے معاشرے میں ان کی ضروریات اور خواہشات کے مطابق اقدامات اٹھاتے ہیں۔ ان کو ان کے مستقبل کے معاملات میں بہترین مشاوراتی ٹیمیں اور ادارے مہیا کیے جاتے ہیں۔ امن و سکون کا ماحول نوجوانوں کو خود میں صحت مند رویے اختیار کرنے میں مدد دیتے ہیں لیکن آج کے دور میں نوجوان نسل کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، جس نے نسلِ نو کو ذہنی دباو میں مبتلا کر رکھا ہے۔ وہ چیلنجز کیا ہیں ان پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں۔نسل نو کو درپیش چیلنجز میں سب سے اہم ففتھ جنریشن وار ہے۔ پہلے جنگیں میدانوں میں لڑی جاتی تھیں مگر اب جنگ لڑنے کے لیے نہ تو فوجی قوت کی ضرورت ہے، نہ جنگی آلات کی اور نہ ہی میدانوں کی۔ اپنی نشست پہ بیٹھ کر ملک بلکہ دنیا کو تباہ کر سکتے ہیں۔ یہ جنگ دماغ سے کھیلی جاتی ہے، اسی لیے دشمن عناصر نے نوجوانوں کو ہی اپنا نشانہ بناتے ہیں۔ معاشرے کے صحت مند رویوں کو غلط راہ پہ ڈالنے کی کوشش کی گئی، جس سے نوجوان نسل اپنے مقصد سے ہٹ کر غیر ارادی سرگرمیوں میں شامل ہوگئی۔ ملک وملت کے لیے کچھ کرنے اور پانے کی جدوجہد بھول کر وہ ففتھ جنریش وار کا شکار ہے۔ اپنی خودی کو فراموش کر کے دشمن کے آلہ کار بن گئی۔پچھلے برسوں سے پوری دنیا ایک ایسی مشکل سے دوچار ہے جس نے معیشت کے ساتھ ساتھ تعلیم کو بھی متاثر کیا ہے۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے لیکن تعلیمی اداروں کی بندش سے نوجوان نسل افراتفری کا شکار ہے۔موجودہ وقت روٹی، کپڑا، مکان کی ضروریات سے بہت آگے نکل گیا ہے، فی کس آمدنی کم ہوتی جارہی ہے، جبکہ خواہشات اپنی حد سے نکل کر تعیشات تک جا پہنچی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک جن کی فی کس آمدنی کم ہو، ان کو قومی آمدنی میں بھی کمی کا سامنا ہوتا ہے، مگر ہماری نوجوان نسل اس بات سے قطع نظر اپنی خواہشات کے بے لگام گھوڑے دوڑانے میں مگن ہے۔ وہ فیشن، حسن پرستی اور دکھاوے کی دوڑ میں مصروف ہے۔ ضروریات کی قید سے آزاد ہے۔ زندگی کے معاملات میں وہ مغرب کی پیروی کو اپنا احسن قدم سمجھتے ہیں۔ اپنے وسائل کو ناکافی سمجھتے ہوئے مغرب کا حصہ بننا ضروری سمجھنے لگے ہیں۔ بیرون ملک جانے کا خواب دیکھنے والی فہرست کافی طویل ہے ،جہاں جا کر اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے اکثر غلط راستوں کا استعمال کرتے ہیں اور پھر نقصان اٹھاتے ہیں۔ ہر سال سیکڑوں نوجوان اعلی تعلیم کے بعد غیر قانونی طریقوں کو اپناتے ہوئےا سملنگ مافیا کا شکار ہوجاتے ہیں۔ نتیجتا یا تو زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا پھر باقی ماندہ زندگی اس ملک کی جیل میں گزار دیتے ہیں۔ جو شاذونادر ان دو مراحل سے بچ جائیں وہ کسی ریستوراں میں بیرہ گیری کرتے نظر آتے ہیں۔ مغربیت کے سحر میں مبتلا ہو کر نوجوان نسل اپنی سمت کا صحیح تعین بھی نہیں کر پاتے۔آج کے نوجوان اپنی تمام تر توجہ جس چیز پہ رکھے ہوئے ہیں، وہ ہے سوشل میڈیا۔ کسی کا ساتھ دینا ہو، کسی کی مخالفت کرنی ہو، کوئی لین دین، کسی خبرکی تشہیر کر، کوئی سنسنی پھیلانی ہو، یہ تمام کام سوشل میڈیا کے توسط سے ہی ممکن ہو سکتے ہیں۔ آج کا نوجوان موجودہ دور کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اس سے منسلک ہے، کیونکہ وہ دنیا میں ہونے والے ہر واقعے سے باخبر رہنا چاہتا ہے، چونکہ یہ موجودہ دور کا تقاضا ہے لہذ وہ ا سے زندگی کی تمام تر مصروفیات سے بڑھ کراپناتا ہے۔ اس کی تعلیم، گھر، کاروبار سب اس کے لیے ڈی گریڈ ہو چکے ہیں۔وہ سب کو ساتھ لے کر چلنا بھی چاہے تو ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔نوجوان نسل کو درپیش سب سے بڑا چیلنج اپنے شوق کے مطابق تعلیم کا حصول ہے، بعدازاں اپنی تعلیم سے متعلق نوکری یا کاروبار کا انتخاب ہے۔ دراصل ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، وہاں بچے کی پیدائش کے فورا بعد یا چند سال بعد ہی فیصلے کرلیے جاتے ہیں کہ آیا بچہ ڈاکٹر بنے گا یا انجینئر۔ بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو اس کے شوق کچھ اور ہوتے ہیں جبکہ خاندانی دباﺅ کی وجہ سے وہ اپنی مرضی کے مطابق تعلیم حاصل نہیں کر پاتا، یہی وجہ ہے کہ وہ زندگی میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔نسلِ نو کو درپیش چیلنجز میں ایک سیاسی وابستگی بھی ہے۔ اسکول، کالج کے طلباکو سیاسی پارٹیاں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ان کی برین واشنگ اس انداز سے کی جاتی ہے کہ نوجوان اپنی تعلیم چھوڑ کر سیاسی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگتے ہیں۔ اپنے اہداف اور مقاصد پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ ان کے لیے ملکی سالمیت کی اہمیت کم جبکہ اپنی سیاسی پارٹی اور سیاسی لیڈر کا مینڈیٹ زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ وہ اس بات کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ دینے قائداعظم نے طلبہ کو اپنی تعلیم پہ توجہ کا پیغام دیا تھا۔ انہیں دورِ طالبعلمی میں سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دیا تھا، تاکہ تعلیم مکمل کر کے اپنے مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد کریں۔یہ بے حسی کا دور ہے۔ ان تمام چیلنجزنے امت مسلمہ کو افراتفری کا شکار بنا دیا ہے۔ ہر ملک کی خارجہ پالیسی اس کی معیشت پہ بلواسطہ اور بلاواسطہ دونوں طرح سے اثر انداز ہوتی ہے، جس کا اثر نوجوان نسل پربھی پڑتا ہے۔ وہ ان معاملات کو لے کر شکوک وشبہات میں مبتلا رہتے ہیں۔نئی نسل کے اندر یہ تمام چیزیں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ نئی نسل تعلیم کے میدان میں تیزی کے ساتھ ترقی کر رہی ہے لیکن اس کے ساتھ اس کے اندر سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوتی جا رہی ہے جو پہلے کے لوگوں میں ہوا کرتی تھی۔ اس کے طرزِ فکر میں وہ پختگی نہیں رہی اور نہ ہی حالات کو صحیح طریقے سے سمجھنے کی صلاحیت ہے۔نئی نسل کے اندر صبر، ہمت اور برداشت کی قوت ہونا چاہےے۔ ایک ایسا دل جس کے اندر ہمدردی کا جذبہ ہو،ہماری آبادی کا کم از کم ساٹھ فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے اور انہیں اپنی قوم کیلئے بیدار ہونے کی اور ان تمام تر خوبیوں کو اپنے اندر پیدا کرنے کی سخت ضرورت ہے ورنہ آنے والے وقت میں یہ نسل خسارے میں رہے گی۔