گلگت بلتستان کے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی

وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان امیر مقام نے کہا ہے کہ گلگت سکردو روڈ کو حادثات سے محفوظ بنائیں گے اور یہاں جہاں جہاں ٹنلز کی ضرورت ہوگی بنائیں گے۔ سکردو روڈ نواز شریف کی جانب سے بلتستان کے عوام کیلئے بڑا تحفہ ہے۔ انشا اللہ یہاں توانائی کے بڑے منصوبوں پر تیزی سے کام شروع کریں گے سکردو کو ہماری جماعت لوڈشیڈنگ فری زون بنائے گی اپنے دورے کے موقع پر سکردو میں پارٹی رہنماں کارکنوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ بلتستان میں میڈیکل اور ڈینٹل کالج کے قیام کیلئے کوششیں کروں گا ہمیں یہاں کے عوام کے مسائل کا پوری طرح سے ادراک ہے۔ عوام مطمئن رہیں ان کے مسائل کے حل کیلئے جامع منصوبہ تیار کریں گے سکردو کو سیاحتی حب بنایا جارہا ہے اس شہر کے مسائل کے حل کیلئے خصوصی اقدامات اٹھائے جائیں گے انہوں نے کہاکہ کالجوں میں داخلوں کے مسئلے کا سن کر دکھ ہوا کوشش ہوگی کہ یہاں بچوں کو تمام کالجوں میں داخلے ملے اور کوئی بچہ سکول کالج سے باہر نہ رہے اس کیلئے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں گے انتظامیہ کو بھی ہدایت دیتا ہوں کہ وہ یہاں کے تعلیمی مسائل کے حل کیلئے اقدامات کرے ۔گلگت بلتستان میں جتنے بھی ترقیاتی کام ہوئے ہیں ہمارے دور حکومت میں ہوئے ہیں توانائی کے کئی منصوبوں کی ہماری سابقہ حکومت نے منظوری دی تھی مگر ابھی تک ان منصوبوں پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے جو کہ ایک بہت بڑا المیہ ہے انہوں نے کہاکہ مسائل حل کرنے کیلئے جذبہ چاہیئے ہمارے اندر کام کرنے کا جذبہ اور تجربہ ہے ہم مسائل حل کرکے دکھائیں گے انہوں نے کہاکہ کارکن عدم برداشت کی سیاست کو ترک کریں صبر و تحمل استقامت کے ساتھ پارٹی معاملات کو چلائیں۔گلگت سکردو روڈ کو حادثات سے محفوظ بنانے کا عزم خوش آئند ہے ٹریفک حادثات کی دیگر بڑی وجوہات میں سڑکوں کی خستہ حالی، اوور لوڈنگ، ون وے کی خلاف وزری، اوورٹیکنگ، اشارہ توڑنا، غیر تربیت یافتہ ڈرائیورز، دوران ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال، نو عمری میں بغیر لائسنس کے ڈرائیونگ، بریک کا فیل ہوجانا اور زائد المدت ٹائروں کا استعمال شامل ہے، لیکن ان میں سب سے اہم وجہ سڑک استعمال کرنے والے کا جلد باز رویہ ہے۔نوے فیصد ٹریفک حادثات تیز رفتاری کے غیر محتاط رویے کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں، مگر ہم اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کے لیے قطعا تیار نہیں، اور یہ ہی جان لیوا ٹریفک کے مسائل اور حادثات کی بنیادی وجہ ہے، جب تک ہم اپنے رویوں کو درست نہیں کریںگے۔اس وقت ٹریفک حادثات میں کمی ممکن نہیں، نو عمر افراد اپنے پرجوش رویے کی وجہ سے ٹریفک قوانین کی پاسداری نہیں کرتے اور ٹریفک علامات کے سائن اور اصولوں کو نظر انداز کردیتے ہیں، بلکہ اکثر نوجوان تربیت یافتہ ہی نہیں ہوتے، اور ان میں موجود تیز رفتار گاڑی چلانے کا جنون بے شمار حادثات کا باعث بنتا ہے۔بغیر لائسنس گاڑی چلانے پر سخت سزائیں اور کم عمر بچوں کے والدین کو بھی سزا کا مستحق ٹھہرایا جانا چاہیے تاکہ کم عمر اور نو آموز ڈرائیوروں کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔ ٹریفک سے متعلق شعور کی بیداری کے لیے نصاب میں ٹریفک قوانین سے متعلقہ مضامین شامل کرنا چاہیے، تاکہ نئی نسل کو مستقبل میں ٹریفک حادثات سے بچاﺅ کے لیے تیار کیا جاسکے۔ٹریفک حادثات سے بچاﺅ کے لیے حکومتی اقدامات کے علاوہ عام شہریوں کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے سڑکوں کو حادثات سے محفوظ بنانے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں اور دوران سفر جلد بازی سے احتیاط کرتے ہوئے دوسری ٹریفک کا خیال رکھیں اور بالخصوص پیدل افراد کو راستہ دیں۔سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی وجہ سے افراد کو پہنچنے والے نقصان پر حادثات کی شدت اور اس کے نتائج کے متعلق مواد اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان حادثات سے زخمی و جاں بحق ہونے والے افراد کے لیے صحت کا معیار بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ وفاقی، صوبائی، علاقائی اور ضلعی سطح پر اسپتالوں میں ایمرجنسی کے لیے تربیت یافتہ عملہ تعینات کرنا چاہیے۔گاڑی بنانے والی کمپنیوں کا کردار اہمیت رکھتا ہے کیوں کہ یہ روڈ سیفٹی سے منسلک ہے۔پاکستان میں گاڑی بنانے والی کمپنیوں کا کردار بھی قابل اعتراض ہے، جو گاڑیاں یہاں بنائی جاتی ہیں وہ حفاظت کے معیار پر پوری ہی نہیں اترتیں، حادثات کے بعد گاڑیوں کو پہنچنے والے نقصانات سب کے سامنے ہی ہیں۔ سب سے پہلے گاڑی بنانے والی کمپنیوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ان کو وسائل دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ گاڑی کے معیار پر توجہ دے سکیں۔توانائی کے منصوبوں کی واقعی اشد ضرورت ہے۔توانائی کے بحران کے شکار ملک پاکستان کے حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ توانائی اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے مختلف شعبوں میں چین سے پاکستان میں تقریبا 45 ارب 60 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی جس سے معیشت کی مضبوطی اور بے روزگاری کے خاتمے کے اہداف حاصل کیے جا سکیں گے لیکن حالیہ برسوں میں طلب و رسد میں بڑھ جانے والے فرق سے خصوصا صنعتی و پیداواری شعبہ متاثر ہوا جس کے لا محالہ منفی اثرات ملک کی مجموعی ترقی اور لوگوں کے معیار زندگی پر مرتب ہوئے ہیں۔ طویل المدت منصوبے طے پانا اچھی بات ہے لیکن ملک کو درپیش توانائی کے بحران کے فوری حل کے لیے بھی اقدامات کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔چین کے تعاون سے شروع ہونے والے منصوبوں کے ثمر بار ہونے میں وقت لگے گا اور اس عرصے میں موجودہ مسائل مزید گمبھیر ہوسکتے ہیں۔ جو موجودہ پیداوارتی یونٹس ہیں ان کو پوری طرح استعمال نہیں کیا جارہا ہے ان پر توجہ دے کر فوری ریلیف لیا جاسکتا ہے۔بجلی کے کارخانے لگ جائیںتو پاکستان کی برآمدات بڑھنا شروع ہو جائےں گی، صنعتیں لگنا شروع ہو جائیں تو پاکستان کے اندر سے بے روزگاری کا دنوں میں خاتمہ ہو جائے گا۔حکومتی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ وہ توانائی کی کمی کو فوری طور پر بہتر کرنے کے لیے بھی اقدامات کر رہی ہے لیکن اس میں تاحال کوئی خاطر خواہ کامیابی ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ہمارے ہاں کچھ عرصے سے پیشہ وارانہ تعلیم کی اہمیت کے بارے میں بہت زیادہ آگاہی دی جا رہی ہے اور اس کیلئے کافی ادارے بھی کام کر رہے ہیں لیکن پروفیشنل یا پیشہ وارانہ تعلیم کیا ہے؟ صرف انجنیئرنگ یا میڈیکل ہی پروفیشنل تعلیم کے زمرے میں نہیں آتے بلکہ تعلیم اور ہنر ایک ساتھ سیکھ کر کسی کام میں مہارت حاصل کرنا پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کرنا کہلاتا ہے اور یہ سب لوگ ہنرمند افراد اپنی اسی تعلیم کی بنیاد پر اچھی نوکریا ں بھی حاصل کر رہے ہیں۔ پہلے ہنرمند افراد کا تصور صرف ویلڈنگ ، کار مکینک یا دستکاریوں تک محدود تھا لیکن اب یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے لے کر اکاﺅنٹنسی اور فنِ تعمیر تک پھیل چکا ہے کیونکہ ہر میدان میں نئی نئی ٹیکنیکل اصلاحات آ چکی ہیں جن کو پیشہ وارانہ تعلیم کے بغیر حاصل کرنا ناممکن ہے۔پروفیشنل اور ٹیکنیکل تعلیم کے تقریبا چھتیس سو ادارے پورے پاکستان میں کام کر رہے ہیں جن میں سے بارہ سو سرکاری اور باقی پرائیویٹ ہیں لیکن پرائیویٹ اداروں میں بھی فیسیں اتنی زیادہ نہیں ہیں کہ عام پاکستانی کی رسائی سے باہر ہوں۔ اصل مسئلہ نوجوان نسل کی رہنمائی کا ہے کہ ان کے ذہنی رحجانات کو دیکھ کر ان کو درست طریقے سے گائیڈ کیا جائے کہ آپ کیلئے یہ فیلڈ بہتر رہے گی اور اس کی تعلیم کس جگہ سے حاصل ہو سکتی ہے ٹیکنالوجی نے ہر فیلڈ میں پنجے گاڑے ہیں اور ہر شعبہ جدید ٹیکنالوجی کا محتاج ہو چکا ہے ۔ چاہے زراعت ہو یا فنِ تعمیر اس میں ٹیکنالوجی کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے ۔ اسی طرح سیاحت ، باغبانی ، دستکاریوں اور کاسمیٹکس کا بھی انحصار اب ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ ہو چکا ہے اور اس کیلئے پیشہ وارانہ تعلیم کے مراکز تک رسائی بہت ضروری ہے۔ لیکن ہمارے بچوں کو ان اداروں کے بارے میں آگاہی ہے ہی نہیں ۔ بچے ایف ایس سی کے بعد انجےنئرنگ اور میڈیکل کالجز میں داخلہ نہ ہونے پر شدید مایوسی کا شکار ہونے کے بعد سادہ بی ایس سی یا ماسٹرز کی طرف نکل جاتے ہیں جو آخر کار کسی چھوٹی سی نوکری کے انٹرویو کی لائن میں لگنے پر منتج ہوتا ہے۔ اس سے بچنے کیلئے والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر مختلف پیشہ وارانہ اور ہنرمندانہ رحجانات پر بات چیت کریں اور ان کی ذہنی استطاعت چیک کرتے رہیں تاکہ وقت پڑنے پر مایوسی کی بجائے کسی دوسری آپشن پر بچوں کا ذہن خودبخود سوچے نہ کہ کوئی فیصلہ ان پر ٹھونسا جائے۔ گلگت بلتستان میں پرففےشنل اداروں کے قےام کی اشد ضرورت ہے تاکہ ےہاں کے طلباءکو ملک کے دوسرے حصوں کا رخ نہ کرنا پڑے۔