کسان اتحاد نے گندم اسکینڈل میں ملوث کرداروں کو پھانسی دینے کا مطالبہ کےا ہے ۔چیئرمین کسان اتحاد خالد حسین کھوکھر نے کہا کہ گندم اسکینڈل کی وجہ سے کسانوں کا چار سوارب روپے کانقصان ہوگیا اور کرپشن کے لیے چھے کروڑ کسانوں کو ذبح کردیا گیا۔ اوپر بیٹھے لوگ صحیح فیصلے نہیں کرتے، کیا ان کو علم نہیں تھا کہ بمپرفصل آرہی ہے؟ گندم کی درآمد پر ایک ارب ڈالر کا زرمبادلہ ضائع کردیا گیا۔چیئرمین کسان اتحاد نے دس مئی سے ملک بھر میں احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 10 مئی کو نماز جمعہ کے بعد ملتان سے احتجاج شروع کر کے زراعت کا علامتی نماز جنازہ ادا کریں گے۔ مرکزی کسان اتحاد نے وزیراعظم شہباز شریف سے گندم درآمد اسکینڈل کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔چیئرمین کسان اتحاد خالد حسین باٹھ نے وزیراعظم کو خط لکھ کر موقف اختیار کیا کہ گندم کی فصل کاٹے دو سے ڈھائی ماہ ہو چکے ہیں اور اس سال وافر مقدار میں گندم کی پیداوار کسانوں کے لیے جرم بن گیا ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے کسانوں کے اوپر تشدد قابل قبول نہیں اور سوشل میڈیا پر کسانوں کو انتشار کی طرف دھکیلنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔وزیراعظم کے نام خط میں کہا گیا کہ پاکستان بھر میں کسانوں نے اپنی گندم نکال لی ہے اور کسان اتحاد سب سے پہلے گندم درآمدات کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتی ہے۔خالد حسین باٹھ نے کہا کہ کسان ملک کی حفاظت کا ضامن ہے، چاہے خوراک ہو یا بارڈر، میڈیا ہو یا کوئی بھی ادارہ، ہر جگہ کسان کا بیٹا اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہا ہے لیکن کسانوں اور اداروں کو آمنے سامنے لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کسان پرامن ہے پرامن رہے گا، ہمارے اوپر بار بار الزام لگائے جا رہے ہیں کہ ہم کسی سیاسی ایجنڈے کے طور پر کسانوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔کسانوں کی جانب سے لکھے گئے خط میں مزید کہا گیا کہ کسان اس وقت مشکل سے دوچار ہے اور اگر کسان کی گندم نہ خریدی گئی تو کسان کپاس اور دیگر فصلیں کاشت نہیں کر پائے گا، کاٹن کی پیداوار میں واضح کمی ہوگی جس سے پاکستان کو نقصان ہوگا اور کسان کے پاس پیسے نہیں ہوں گے تو ملک میں خوراک کی کمی ہوسکتی ہے۔ پنجاب میں بار دانہ ایک بار پھر مافیا کو دیا جا رہا ہے اس کی شفاف انکوائری کروائی جائے، کسانوں کی گندم اس وقت 2600 سے لے کر 3 ہزار روپے تک خریدی جا رہی ہے جو کہ مڈل مین خرید رہا ہے، اگر یہیں صورتحال رہی تو عام شہری کو آٹا مہنگا ملے گا اور کسانوں کا اربوں روپے کا نقصان ہوگا۔خط میں مطالبہ کیا گیا کہ گندم حکومتی ریٹ پر خریدی جائے تاکہ کسان اگلی فصل کاشت کر سکیں۔وزیر اعظم شہباز شریف کے وزیر قومی تحفظ خوراک و تحقیق ہوتے ہوئے ملک میں گندم درآمد کا انکشاف ہوا ہے۔ ذرائع نے کہا ہے کہ مارچ میں گندم کی درآمد کے وقت وزیراعظم وزارت تحفظ خوراک کے انچارج وزیر خود تھے، انہوں نے تےن اپریل کو وفاقی وزیر رانا تنویر کو قومی تحفظ خوراک کا اضافی قلمدان دیا، اس سے قبل تقریبا ایک ماہ تک وزیر اعظم شہباز شریف وزیر تحفظ خوراک کے انچارج وزیر تھے۔وزیر اعظم نے گندم درآمد کے معاملے پر سیکریٹری خوراک محمد آصف کو او ایس ڈی کردیا تھا۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال فروری تک 225 ارب 78 کروڑ 30 لاکھ روپے کی گندم درآمد ہوئی، مارچ 2024 میں57 ارب 19 کروڑ 20 لاکھ روپے مالیت کی گندم درآمد کی گئی۔یوں رواں مالی سال مارچ تک 282 ارب 97 کروڑ 50 لاکھ روپے مالیت کی کل 34 لاکھ 49 ہزار 436 میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی، جبکہ موجودہ حکومت کے پہلے ماہ 6 لاکھ 91 ہزار 136 میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نگران دور میں27 لاکھ 58 ہزار 226 میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی تھی۔ ملک میں گندم کے وافر ذخائر موجود ہونے کے باوجود نگران حکومت کے دور میں بڑے پیمانے پر گندم کی درآمد کے معاملے میں روز نئے انکشافات سامنے آرہے ہیں۔یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ موجودہ حکومت کی اب تک کی مدت میں بھی گندم کی درآمد کا سلسلہ جاری رہا۔درےں اثنائمسلم لیگ نون کے قائد میاں محمد نواز شریف نے گندم سکینڈل پر وزیراعظم شہباز شریف کو طلب کر لیا۔ نوازشریف کی زیرصدارت جاتی امرا میں اجلاس ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ ملک میں گندم کا بحران پیدا کرنے والوں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔جاتی امرا میں ہونے والے اجلاس میں نواز شریف کو بتایا گیا کہ بحری جہاز گندم لے کر چل پڑے اور منظوری بعد میں ہوئی ، 25 دن میں پہنچنے والا جہاز منظوری کے سات روز بعد ہی بندرگاہ پر پہنچ گیا۔ اجلاس میں پنجاب میں کسانوں سے گندم خریدنے کے طریقہ کار کو بھی زیر بحث لایا گیا۔نواز شریف نے کہا کہ کسان کارڈ فوری دیئے جائیں تاکہ کسانوں کو اگلی فصل میں آسانی ہو۔فیکٹ فائنڈنگ کی رپورٹ آنے پر پنجاب میں گندم خریدنے کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔کسانوں کو 500 ارب کے کسان کارڈ دیئے جائیں گے۔وزیر اعظم شہبازشریف نے گندم درآمد اسکینڈل کمیٹی کے سربراہ سے کہا ہے کہ مجھے ذمہ داروں کا واضح تعین کرکے بتایا جائے کوئی لگی لپٹی مت رکھیں، قوم کے سامنے سب کچھ سامنے رکھیں گے۔سیکرٹری کابینہ کو وزیراعظم سے تحقیقات میں حائل رکاوٹوں سے آگاہ کیا۔ وزیراعظم نے سیکرٹری کابینہ کو ہدایت کی اسکینڈل کی شفاف تحقیقات کرکے پیر تک حتمی رپورٹ پیش کریں۔دریں اثنا گندم درآمد اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے سابق نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور محسن نقوی کو طلب کرنے کی خبروں کی تردید کردی۔جبکہ ایف بی آر افسران سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کہاکہ ٹیکس وصولی بڑا چیلنج، محصولات کا ہدف کرپشن، فراڈاور لالچ کی نذر ہورہا،خراب کارکردگی والوں کو اعلی عہدوں پر رہنے کا کوئی حق نہیں، 27 سو ارب کے محصولات کی ریکوری کیلئے قانون بن چکا ہے ، ملک موجودہ محصولات سے تین گنا زیادہ محصولات اکٹھا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔وزیراعظم نے سیکرٹری کابینہ کو نگران حکومت میں گندم کی درآمد کی ہر لحاظ سے مکمل شفاف تحقیقات کا حکم دیا،وزیر اعظم نے دستیاب ریکارڈ اور دستاویزات کو سامنے رکھ کر سفارشات مرتب کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سیکرٹری کابینہ کو پیر تک حتمی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔سیکرٹری کابینہ کی سربراہی میں دوسری انکوائری کمیٹی کے اجلاس میں پہلی کمیٹی کی رپورٹ کا جائزہ لیا جائیگا ۔ دریں اثنا گندم اسکینڈل کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کیلئے چار رکنی کمیٹی کا اجلاس ہوا، تحقیقاتی کمیٹی نے سابق سیکرٹریز فوڈ سیکےورٹی کیپٹن ریٹائرڈ محمد محمود اور کیپٹن ریٹائرڈ آصف سے معاملے سے متعلق تحقیقات مکمل کر لیں۔ چار رکنی کمیٹی کسٹم، کراچی پورٹ اور ایف بی آر کے متعلقہ افسران سے بھی تفتیش مکمل کرچکی ہے۔کمیٹی اپنی حتمی رپورٹ پیر کو وزیراعظم کو پیش کرے گی۔ دریں اثنا وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کو آج مختلف چیلنجز کا سامنا ہے، قرضوں کا حجم سب جانتے ہیں، ریونیوکلیکشن بہت بڑا چیلنج ہے۔محصولات کا ہدف کرپشن کی نذر ہورہا ہے، خلوص اور میرٹ کو مدنظر رکھ کر ہم سیاہ اور سفید کو الگ کریں گے۔ شہباز شریف نے کہا کہ کرپشن کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، خراب کارکردگی والوں کو کوئی رعایت نہیں دی جائے گی، خراب کارکردگی والوں کو اعلی عہدوں پر رہنے کا کوئی حق نہیں، بہترین کارکردگی دکھانے والے افسران کو سراہا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ قرضے لینے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانے پر مجبور ہیں، ہمیں محصولات بڑھا کر اپنے ریونیو میں اضافہ کرنا ہے۔ انصاف کا فیصلہ صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر ہوتا ہے، جزا اور سزا کے عمل سے ہی قومیں عظیم بنتی ہیں، 2700 ارب کے محصولات کی ریکوری کے لیے قانون بن چکا ہے۔دریں اثنا کابینہ ڈویژن اسلام آباد سے جاری کردہ بیان میں وفاقی سیکرٹری کابینہ کامران علی افضل نے کہا کہ نہ تو نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور نہ ہی نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی کو طلب کیا گیا ہے۔کامران علی افضل نے کہا کہ میں اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کر رہا ہوں، میری انکوائری سے متعلق غلط خبریں چلائی جا رہی ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت پاکستان ایگریکلچرل سٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن پاسکو کے ذریعے 18 لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدے گی تاکہ کسانوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچایا جا سکے۔یہ فیصلہ ہفتے کو لاہور میں گندم کی خریداری اور باردانہ کے حصول میں کسانوں کو درپیش مشکلات کے حوالے سے اعلی سطح کے ہنگامی اجلاس میں کیا گیا ہے۔ شہباز شریف نے واضح کیا کہ کسانوں کی معاشی بہبود پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس سال گندم کی وافر فصل ہوئی ہے۔انہوں نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ وہ گندم کی خریداری کے مواقع کی ذاتی طور پر نگرانی کریں۔