شاہراہ قراقرم پر حادثات روکنے کے اقدامات

سپیکر گلگت بلتستان اسمبلی نذیر احمد ایڈوکیٹ نے کہا ہے چلاس بس حادثہ انتہائی افسوس ناک ہے المناک حادثے میں جاں بحق ہونے والے تمام مسافروں کے لواحقین کے غم میں برابر کے شریک ہیں انہوں نے کہا کہ شاہراہ قراقرم پر حادثات کو روکنے کے لئے صوبائی حکومت اقدامات اٹھا رہی ہے اس سلسلے میں ٹرانسپورٹ کمپنیوں کو سختی سے پابند کیا جائے گا کہ وہ اپنی گاڑیوں کی فٹنس اور مستند ڈرائیوروں کی تعیناتی کو یقینی بنائیں تیز رفتاری اور غفلت کے باعث حادثات رونما ہونے کی صورت میں متعلقہ ٹرانسپورٹ کمپنی کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ہم جانتے ہےں کہ بڑھتی آبادی کیساتھ سڑکوں پر گاڑیوں، بسوں، رکشوں، موٹر سائیکلوں وغیرہ کا سیلاب بھی بڑھتا نظر آتا ہے، ہر چند منٹ بعد خطرناک ٹریفک حادثات ہمارا مقدر بن چکے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ 35 سے 40 ہزار افراد ٹریفک حادثات کی نذر ہو جاتے ہیں، ہمیشہ کیلئے معذور ہو جانے والے لاکھوں افراد اور ملک کو سالانہ اربوں روپے کا معاشی نقصان اس کے علاوہ ہے۔ ان حادثات کی وجوہات کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ان میں ٹریفک قوانین سے عدم واقفیت و عدم پاسداری، تیز رفتاری اور بنا فٹنس کے سڑکوں پر دوڑتی گاڑیوں جیسے عوامل سرفہرست ہیں۔بیشتر ٹریفک حادثات کے پیچھے عموما انسانی غلطی کارفرما ہوتی ہے جس پر تھوڑی سی احتیاط سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ ٹریفک حادثات کی وجوہات کے جائزے کیساتھ حکومتی سطح پر ٹریفک حادثات کی شرح میں کمی کے لئے کئے گئے اقدامات میں معاونت کرنا چاہئے تاکہ قیمتی انسانی جانوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ ٹریفک حادثات کی دیگر بڑی وجوہات میں سڑکوں کی خستہ حالی، اوور لوڈنگ ، ون وے کی خلاف وزری، اوورٹیکنگ، اشارہ توڑنا، غیر تربیت یافتہ ڈرائیورز ، دوران ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال ، نو عمری میں بغیر لائسنس کے ڈرائیونگ، بریک کا فیل ہوجانا اور زائد المدت ٹائروں کا استعمال شامل ہے۔ لیکن ایک اندازے کے مطابق ان میں سب سے اہم وجہ سڑک استعمال کرنے والوں کا جلدباز رویہ ہے۔ اسی سے نوے فیصد ٹریفک حادثات تیز رفتاری کے غیر محتاط روئےے کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں ، مگر ہم اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کے لئے قطعا تیارنہیں، اوریہ ہی جان لیوا ٹریفک کے مسائل اور حادثات کی بنیادی وجہ ہے۔ بچے بھی اپنے موٹرسائیکلیں اور گاڑیاں دوڑاتے نظر آتے ہیں، وہ پرجوش روئیے کی وجہ سے ٹریفک قوانین کی پاسداری نہیں کرتے اور ٹریفک علامات اور اصولوں کو نظر انداز کردیتے ہیں، یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ قانونی عمر کو پہنچنے کے باوجود اکثر نوجوان تربیت یافتہ ہی نہیں ہوتے، اور ان میں موجود تیز رفتاری سے گاڑی چلانے کا جنون بے شمار حادثات کا باعث بنتا ہے۔ اس کے علاوہ موٹر سائیکل رکشہ کے اکثر ڈرائیور نابالغ اور نوآموز ہوتے ہیں جن کے پاس ڈرائیونگ لائسنس تک نہیں ہوتا۔ اس طرح ٹریفک قوانین سے لاعلمی کے باعث وہ نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی زندگی بھی داﺅ پر لگا دیتے ہیں۔اکثر اوقات ٹرک ، بسوں کی ریسیں اور تیز رفتاری کا جنون بڑے حادثات کا سبب بنتا ہے۔مارکیٹوں میں روڈ کے اطراف موجود ناجائز تجاوزات اور گاڑیوں کی غلط پارکنگ بھی حادثات کا باعث بنتی ہے۔ترقی یافتہ ممالک روڈ سیفٹی کی قانون سازی، ٹریفک قوانین پر موثر عمل درآمد، سٹرکوں کی تعمیر اور گاڑیوں کو محفوظ بنا کر ٹریفک حادثات میں نمایاں کمی لا چکے ہیں لیکن ہمارے ملک میں روڈ سیفٹی کے چند قوانین موجود تو ہیں لیکن ان سے متعلق پہلے آگاہی اور پھر مکمل عملدرآمد کروانے کی ضرورت ہے۔ اگر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا دینے کی روش اختیار کی جائے تو ٹریفک حادثات کی شرح میں کمی ممکن ہوسکتی ہے۔ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے، اس کے لیے نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹر وے پولیس، ٹریفک پولیس اور متعلقہ حکام کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا چاہیے، اس کے لئے صرف روڈ سیفٹی ایجوکیشن ہی کافی نہیں بلکہ اسکے ساتھ ساتھ کچھ جامع اقدامات کی بھی ضرورت ہے تاکہ روڈ سیفٹی کو یقینی بناکر حادثات کی شرح میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکے۔ جبکہ بغیر لائسنس گاڑی چلانے پر سخت سزائیں ، اور کم عمر بچوں کے والدین کو بھی سزا کا مستحق ٹھہرایا جانا چاہیے تاکہ کم عمر اور نو آموز ڈرائیوروں کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔ ٹریفک سے متعلق شعورکی بیداری کے لئے نصاب میں ٹریفک قوانین سے متعلقہ مضامین شامل کرنا چاہیے تاکہ نئی نسل کو مستقبل میں ٹریفک حادثات سے بچایا جا سکے۔ ٹریفک حادثات سے بچاو کے لیے حکومتی اقدامات کے علاوہ عام شہریوں کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ٹریفک قوانین کی پاسداری ، اور سڑکوں کو حادثات سے محفوظ بنانے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے ۔دوران سفر جلد بازی سے اجتناب برتتے ہوئے دوسری ٹریفک بالخصوص پیدل افراد کا خیال رکھنا چاہئے۔ہمارے ہاں وقت گزرنے کے ساتھ روز گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ حالیہ عرصے میں پورے ملک میں بڑھتی ہوئی گاڑیوں کی وجہ متعارف کروائی جانے والی وہ مختلف اسکیمیں اور پیکیجز ہیں جس کے ذریعے آسان اقساط پر گاڑی و موٹرسائیکل باآسانی مل جاتی ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان میں بڑھتی ہوئی گاڑیاں سڑکوں پر ٹریفک حادثات کی شرح میں اضافہ کا باعث ہیں۔اگر حادثات کو روکنے کی کوئی حکمت عملی پیش نہ کی گئی تو پاکستان میں ان حادثات کی تعداد 2030 میں دو سو فیصد تک بڑھنے کا خدشہ ہے۔ہر سال دس ارب ڈالر سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی وجہ سے زخمی ہونے والے افراد کی طبی امداد اور تباہ حال گاڑیوں کی مرمت میں خرچ ہوتے ہیں۔ پاکستان آئی ایم ایف سے 6 ارب لیتا ہے جبکہ حادثات میں خرچ ہونے والی رقم اس سے کہیں زیادہ ہے۔ پاکستان میں ٹریفک حادثات پر غور کیا جائے تو مندرجہ ذیل وجوہات سامنے آئی ہیں۔سب سے پہلے ڈرائیور حضرات کی جانب سے ٹریفک سگنل کا توڑنا، سیٹ بیلٹ کے استعمال میں لاپروائی و غفلت، ٹریفک قوانین کے بارے میں ناقص معلومات اور تعمیل نہ کرنا، گاڑیوں میں ہونے والی تکنیکی خرابیاں جیسے بریک کا فیل ہونا، گاڑی کی ناقص حالت کی وجہ سے ٹائر کا پنکچر ہونا، یا محدود مدت کے بعد ٹائروں کی حفاظت و تبدیلی نہ کروانا حادثات کی وجوہات میں شامل ہے۔ تاہم، ڈرائیورز کی لاپرواہی و غفلت گاڑیوں کی تکنیکی خرابی سے زیادہ خطرناک ثابت ہورہی ہے۔ اکثر و بیشتر تو دیکھا بھی گیا ہے کہ ڈرائیور حضرات کی طرف سے پیدل چلنے والے افراد کے حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ جہاں سڑک پر زیادہ رش ہو ڈرائیور حضرات شارٹ کٹ کے چکر میں فٹ پاتھ کا بھی استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے حادثات رونما ہوتے ہیں۔ اس وقت صنعتیں زوال کا شکار ہیں۔ اس میں بننے والی گاڑیوں میں استعمال ہونے والا مواد دو نمبر کوالٹی کا ہوتا ہے۔ ایک ہی حادثے کے بعد گاڑی مکمل طور پر تباہ ہو جاتی ہے اور جس سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں، جبکہ ان میں تحفظ کا کوئی بھی نظام موجود نہیں ہوتا جس سے گاڑی میں سوار افراد کی جانیں بچ سکیں۔اس کے علاوہ اوورلوڈنگ حادثات کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ اوورلوڈنگ زیادہ ہونے کی وجہ سے اکثر اوقات ٹائر پنکچر ہوجاتے ہیں یا ٹائر میں گرمائش زیادہ ہونے کے باعث ٹائر پھٹ جاتے ہیں جس سے بڑی گاڑیوں کو قابو کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ بڑی گاڑیوں کا سامان الٹ کر ساتھ چلنے والی گاڑیوں کو بری طریقے سے متاثر کرتا ہے۔سڑکوں پر موٹرسائیکل چلانے والے اپنے پیچھے آنے والی گاڑیوں کو کسی بھی قسم کا اشارہ نہیں دیتے۔ اگر پیچھے والوں کو اشارہ نہیں دیں گے تو غلط اوورٹیکنگ سے اچانک موٹرسائیکل و گاڑیوں کے مابین ٹکر ہوجاتی ہے۔ملک میں ٹریفک قوانین کے جو آرڈیننس موجود ہیں ان میں سے قومی وہیکل آرڈیننس 2000، موٹر وہیکل آرڈیننس 1965 اور موٹر وہیکل آرڈیننس 1969 شامل ہیں۔ یہ آرڈیننس ملک میں ٹریفک کا نظام منظم کرنے کےلیے بنائے گئے تھے جو اب بہت پرانے ہوچکے ہیں۔ہم ہمیشہ سے ہی اپنے ملک کا ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں، جس کا مقصد ان کی مثال سامنے رکھ کر بہتری کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ ان اقدامات کو دیکھا جائے تو دستاویزات کی شکل میں تو موجود ہیں لیکن عملا یہ غیر موجود ہیں۔حکام کو چاہیے کہ روڈ سیفٹی کو سیاسی سطح پر ترجیح دےں۔ ایک بھی ایسا ادارہ ادارہ موجود نہیں جو صرف روڈ سیفٹی پر کام کر رہا ہو۔ حکومت کو ایسی ایجنسی متعارف کرانا ہوگی جو سڑک پر حادثات سے بچاﺅ پر اپنی توجہ مرکوز رکھے۔ حکومت اسے باقاعدہ وسائل فراہم کرے۔