عدل و انصاف اور جدید ٹیکنالوجی



چیف جسٹس گلگت بلتستان چیف کورٹ جسٹس علی بیگ نے ضلع گلگت کی ماتحت عدالتوں کے ججز کو جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے منعقد دو روزہ ورکشاپ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ججز کو  بروقت انصاف کی فراہمی اور جدید تقاضوں کا مقابلے کے لئے جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہونا ناگزیر ہو چکا  ابتدائی مرحلے میں ضلع گلگت کی ماتحت عدالتوں میں ڈیجٹیلائز نظام رائج کیا جائے گا  چیف کورٹ میں 1947سے  موجود ریکارڈ کو محفوظ بنایا گیا ہے مزید کام جاری ہے۔ جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگی جدید دور کی بنیادی ضرورت ہے اس سے ہم آہنگی کے  لئے تمام وسائل بروکار لاتے ہوئے ماتحت عدالتوں کے ججز کو لیپ ٹاپ فراہم کرینگے  تاکہ اس سے مستفید ہو اور مہارت حاصل کر سکیں چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو فوری انصاف کی فراہمی کے لئے مقدمات کو کٹیگریز میں تقسیم کیا تھا مگر ماتحت عدالتوں کے اکثر ججز مقررہ وقت میں کٹیگری کے مقدمات کو نمٹانے کا ہدف کے حصول میں ناکام ہو چکے  ہیں انکی کارکردگی غیر تسلی بخش ہے جس کو انکی ACR میں لکھا جائے گا جو انکی ترقی میں رکاوٹ ثابت ہوگا مزید کہا کہ مقدمات پر فیصلے سنا کر فیصلہ دیر سے لکھنا بھی اور تاخیر کرنا بھی بے ضابطگی کے زمرے میں آتا ہے دلائل مکمل ہونے پر سات روز کے اندر فیصلہ لکھ کر سنانا ہوگا فیصلہ سنا کر دیر سے لکھنا بھی مس کنڈکٹ ہے  ہر جج کو ماہوار کم از کم 30میرٹ کے مقدمات کو نمٹنا ہوگا۔ رجسٹرار گلگت بلتستان چیف کورٹ غلام عباس چوپا نے کہا کہ جدید دنیا کا تقاضا ہے کہ ہم جدید ٹیکنالوجی سے منسلک ہو اور عوام کو گھر کی دہلیز پر سستا اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ گلگت بلتستان چیف کورٹ نے چیف جسٹس علی بیگ کے نظریئے کے مطابق گلگت بلتستان چیف کورٹ کے تقریب 30  کاپیاں سکین کر کے محفوظ بنایا ہے اور تمام اضلاع کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کے لئے منصوبہ رائج کیا ہے اس نظام کی کامیابی سے گلگت بلتستان کی عدالتی نظام پوری دنیا کے لئے رول ماڈل پیش کریگا اس نظام کو آگے بڑھانے کے لئے ماتحت عدالتوں کے ججز اور ملازمین کا کردار اہمیت کا حامل ہے الحمداللہ ہمارے ججز بے شمار صلاحیتوں کے مالک ہیں لیکن جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ہمیں جدت کو اپنانا اور سیکھنا ہوگا ۔عدلیہ ریاست کے تین اہم ستونوں میں سے ایک ہے، عدلیہ کی بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ جلد اورفوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے اور مقدمات کے غیر ضروری التوا سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہرسائل کا حق ہے کہ اسے انصاف ملے اور انصاف کا ہونا بھی نظر آنا چاہیے، فیصلے ایسے ہونے چاہئیں کہ کسی فریق کی جانب جھکائونظر نہ آئے عدلیہ کسی دبائوکے بغیر فیصلہ کرنے کی پابند ہے۔ آئین نے عدلیہ کو اختیار دیا ہے کہ انتظامیہ کو اختیارات کے تجاوز سے روکے اور بنیادی حقوق پر عملدرآمد کرانا بھی عدلیہ کا فرض ہے۔دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے اور انصاف کی فراہمی کیلئے بھی جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لینا ضروری ہوگیا ہے۔ عدلیہ کسی دبائو کے بغیر فیصلہ کرنے کی پابند ہے۔اس کی بنیادی ذمہ داری ہے جلد اور فوری انصاف فراہم کرے۔ ہر سائل کا حق ہے کہ اسے انصاف ملے ، بنیادی حقوق پر عملدرآمد کرانا بھی عدلیہ کا فرض ہے۔ آئین نے عدلیہ کو اختیار دیا ہے کہ انتظامیہ کو اختیارات کے تجاوز سے روکے۔ عدل و انصاف کسی ایک گروہ، ملک اور قوم کی خواہش و حاجت نہیں۔ یہ پوری تاریخ انسانیت میں تمام انسانوں کی فطری و تاریخی ضرورت ہے۔اسلام میں عدل و انصاف بہت اہم مسئلہ ہے۔ وہ اصول جو کبھی بھی کسی بھی صورت میں متنازعہ نہیں رہا عدل و انصاف ہے۔ عدل و انصاف پیغمبروں کا ہدف و مقصد اور اسلامی انقلاب کا نصب العین رہا ہے۔ اگر عدل و انصاف عقل و منطق اور روحانیت و معنویت کے عنصر سے خالی ہو تو وہ ایسا عدل انصاف نہیں ہوگا جس کے آپ خواہاں ہے، بلکہ سرے سے وہ عدل و انصاف ہی نہیں ہوگا۔ عقل و منطق اگر نہ ہو تو انسان عدل و انصاف کے مصداق کے تعین میں غلطی کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ وہ ایسی باتوں کو بھی انصاف کا تقاضا محسوس کرے گا جو انصاف کا تقاضا نہیں ہے جبکہ حقیقت میں جو انصاف کا تقاضا ہے اسے محسوس نہیں کر پائے گا۔ بنابریں عقل و دانش اور صحیح اندازہ، عدل و انصاف کے قیام کے لئے ضروری ہے۔اسی طرح اگر عدل و انصاف کو روحانیت و معنویت سے جدا کر دیا جائے اور عدل و انصاف معنویت سے تہی ہو تو یہ بھی عدل و انصاف نہیں ہوگا۔عدل و انصاف کے معنی یہ نہیں کہ ہر کسی کے پاس سب کچھ یکساں مقدار میں ہو۔ انصاف کے معنی یہ ہیں کہ سب کو یکساں مواقع فراہم ہوں۔ سب کے حقوق یکساں ہوں۔ ہر ایک کو پیش قدمی اور ترقی کے مواقع سے استفادے کا بھرپور موقع ملے۔اگر معاشرے میں مساوات نہ ہو تو دولت کی فراوانی عوام کے کسی مخصوص طبقے اور گروہ تک محدود رہے گی۔ لیکن جس معاشرے میں مساوات ہو وہاں اس کا فائدہ سب کو پہنچے گا۔ البتہ انصاف کے معنی یہ نہیں کہ ہر چیز ہر جگہ مساوی و یکساں ہو۔ عدل و انصاف کے معنی ہیں ہر چیز کو اس کی جگہ اور مقام پر رکھنا۔ یہ ہیں عدل کے معنی۔ انصاف کے معنی وہ نہیں جو بہت سے سادہ لوح افراد اور فکری گہرائی نہ رکھنے والے لوگوں کے ذہن میں ہوتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ معاشرے کے ہر فرد کو سب کچھ یکساں طور پر ملے۔ جی نہیں ایک شخص ہے جو زیادہ کام کرتا ہے، کسی کی استعداد زیادہ ہے، ملک کی ترقی میں کسی کا کردار بہت زیادہ ہے۔ عدل کا تقاضا یہ ہے کہ ہر کسی کو اس کا حق دیا جائے۔ حق کے مطابق عمل کیا جائے۔ عدل کے معنی یہ ہیں اور معاشرے کو اسی کی ضرورت ہے۔جو لوگ عدل و انصاف کو غربت کی تقسیم سے تعبیر کرتے ہیں ان کی پوری بات کا ماحصل یہ ہے کہ آپ عدل و انصاف کا چکر چھوڑئے، دولت و ثروت کی جانب بڑھئے تاکہ دولت تقسیم ہو سکے۔ عدل و انصاف کو نظر انداز کرکے دولت و ثروت کی جمع آوری کی سمت بڑھا جائے تو وہی نتیجہ نکلے گا جو آج بہت سے دولتمند ممالک میں نظر آ رہا ہے۔ دنیا کے سب سے امیر ملک یعنی امریکہ میں ایسے افراد بھی زندگی بسر کر رہے ہیں۔عدل و انصاف سے بے بہرہ معاشرے میں اگر دولت کی فراوانی ہو جائے تو ایک مخصوص طبقے کے فائدے اور قبضے میں رہتی ہے لیکن یہی فراوانی اگر عدل و انصاف کے پابند معاشرے میں ہو تو اس کا فائدہ سب کو پہنچتا ہے۔ عدل و انصاف کے معنی ہر چیز کو اس کے صحیح مقام و منزل پر رکھنے کے ہیں۔ عدل و انصاف کے تناظر میں زیادہ محنت، زیادہ استعداد اور ملک کی ترقی میں اہم شراکت جیسی باتوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عدل کے معنی ہیں حق پر عمل کرنا اور ہر شخص اور ہر شئے کو اس کا حق دینا۔ عدل کے معنی ہیں حقوق اور فرائض کے سلسلے میں عدم تفریق و عدم امتیاز۔ عدل یعنی مستضعف اور کمزور طبقے کی مدد۔ عدل یعنی یہ کہ انسانی و سماجی حقوق اور الہی احکامات تمام لوگوں کے سلسلے میں یکساں طور پر فراہم اور نافذ ہوں۔ عدل یعنی یہ کہ کوئی ایک جماعت اپنے لئے مخصوص حقوق کی دعویدار نہ ہو۔عدل و انصاف سے محروم انسانی زندگی تاریخ کے بد ترین دور میں نظر آتی ہے۔ معاشروں کی بد بختی اور مشکلات کی جڑ نا انصافی اور ظلم ہے۔ اگر انسانی زندگی میں عدل و انصاف کی بالا دستی ہوتی تو وہ عدل و انصاف کی مدد سے ماحول کو اس انداز سے تیار کرتا کہ اس کے لئے اس میں پر سکون زندگی گزارنا ممکن ہو۔عوام بالخصوص نوجوان طبقے کی جانب سے عدل و انصاف کا مطالبہ اس انداز سے ہونا چاہئے کہ ہر عہدیدار، اپنی مرضی کے خلاف ہی سہی، عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے پر مجبور ہو۔ عدل و انصاف کے مطالبے کے معنی یہ ہیں کہ نوجوان طبقے اور طلبا کی سطح پر عدل و انصاف زباں زد خاص و عام ہو جائے۔درحقیقت عدل و انصاف ایسا عالی وصف ہے جو کسی بھی قوم یا معاشرے کو استحکام عطا کرتا اور بقا کی ضمانت فراہم کرتا ہے اور انصاف بھی ایسا ہو جو سب کے لیے یکساں ہو۔ یہ عدل نہیں کہ اگر کوئی امیر آدمی جرم کرے تو اسے چھوڑ دیا جائے جب کہ غریبوں کو سخت ترین سزائیں دی جائیں جیسا کہ ہمارے معاشرے میں دکھائی دیتا ہے اور یوں کہا جاتا ہے کہ قانون بنایا ہی اس لیے جاتا ہے تاکہ اسے توڑا جائے اور سب سے زیادہ قانون شکنی وہی لوگ کرتے ہیں جو صاحب جاہ و منصب اور مال دار ہیں۔ حالاں کہ اسلامی معاشرے میں ایک عام آدمی سے لے کر امیر تک سب احکامات شرعیہ کے پابند ہوتے ہیں۔عدل و انصاف کرنے والی اقوام دنیا میں عروج حاصل کرتی ہیں اور ان کے معاشرے میں امن و استحکام پیدا ہوتا ہے۔ اسلامی تاریخ عدل کی بے شمار مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ فیصلے میں انصاف کے نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ نفوس میں اس سے اطمینان و سکون پھیلتا ہے۔ عدل، استقامت کی طرح انسان کے لیے بہت بڑی فضیلت اور کردار کی بلندی کی علامت ہے۔اس لیے عدل کی فراہمی کے لیے جدید ٹیکنالوجی سمیت تمام ممکنہ ذرائع استعمال میں لائے جانے چاہیں۔