این ڈی ایم اے کی جانب سے قومی مون سون کوآرڈینیشن کانفرنس میں مون سون کے حوالے سے تیاریوں کا جائزہ لیا گیا۔ترجمان این ڈی ایم اے کے مطابق محکمہ موسمیات پاکستان کی جانب سے مون سون کے دوران ملک بھر میں معمول سے زیادہ بارشوں اور ممکنہ سیلاب سے متاثر ہونے والے علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رواں سال مون سون کے دوران ملک بھر میں معمول سے چالیس سے ساٹھ فیصد زیادہ بارشیں متوقع ہیں،بارشوں کے باعث دریائوں میں طغیانی اور نشیبی علاقوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔شمالی پنجاب، جنوبی سندھ اور بلوچستان کے علاقے معمول سے زیادہ بارشوں کے باعث متاثر ہونے کا امکان ہے۔خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں گلیشئرز پگھلنے اور جھیلوں کے پھٹنے کے باعث سیلاب کی صورت میں دریائوں میں طغیانی نشیبی علاقوں کے زیر آب آنے کا خطرہ ہے۔ چئیرمین این ڈی ایم اے کے مطابق مشترکہ اقدامات کے ذریعے آفات سے نمٹنے، خطرات کے تدارک اور آفات سے ہونے والے ممکنہ نقصانات کو بہت حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ماضی میں ایک تحقیق نے انکشاف کیا تھا کہ مستقبل میں گلیشیئرز پگھلنے سے بننے والی جھیلیں پھٹنے کے باعث آنے والے سیلابوں سے پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد لوگ متاثر ہو سکتے ہیں۔ پہاڑوں پر گلیشیئرز پگھلنے کی رفتار سے مستقبل میں تباہ کن سیلابوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔شائع شدہ تحقیق کے ذریعے سائنسدانوں کی جانب سے دنیا بھر میں مستقبل میں آنے والے سیلابوں کے حوالے سے ممکنہ متاثرین کی تعداد کا جائزہ لیا گیا ہے۔متاثرین میں آدھے سے زیادہ لوگوں کا تعلق پاکستان، بھارت، چین اور پیرو سے ہو سکتا ہے جبکہ سب سے زیادہ خطرہ پاکستان کو درپیش ہوگا۔ پہاڑوں پر گلیشیئرز پگھلنے سے پانی بہہ کر جھیلوں میں جمع ہوجاتا ہے تاہم جب یہ جھیلیں اپنے قدرتی حصار کو توڑدیں گی تو یہ پانی طوفانی رفتار سے وادیوں میں تباہی مچا سکتا ہے، خاص طور پر انسانی نقصان کا اندیشہ اس صورت میں کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے جب بڑی تعداد میں لوگ ان جھیلوں کے قریب آباد ہوں۔ ایشیا کے اونچے پہاڑوں میں 2000 گیلیشیئرز سے بننے والی جھیلوں کے قریب تقریبا 90 لاکھ لوگ آباد ہیں اور صرف 2021 میں بھارت کے شمالی پہاڑوں پر ایک جھیل کے پھٹنے سے 100 سے زائد لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ شمالی امریکا کے الپس گلیشیئرز کے مقابلے میں ایشیا کے گلیشیئرز اچھی طرح مانیٹر نہیں ہوتے اس لیے ان میں سے بیشتر پر وقت کے ساتھ کیا تبدیلیاں آ رہی ہیں اس کا اندازہ لگانا تھوڑا مشکل ہے۔جولائی 2022 میں شائع شدہ ایک تحقیق کے مطابق 1990 سے 2015 تک ہمالیہ کے گلیشیئرز میں گیارہ فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، اسی عرصے کے دوران ہمالیہ سلسلے میں موجود جھیلوں کی تعداد میں نوفیصد اضافہ جبکہ جھیلوں کی اراضی میں چودہ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں میں 200 سے زائد گلیشیئرز پگھلنے سے بننے والی جھیلیں خطرناک صورت اختیار کر چکی ہیں جس سے کسی بھی وقت وہاں آباد لوگوں کو خطرہ ہو سکتا ہے۔برفانی جھیلوں کے تیس میل کے دائرے میں رہنے والے پندرہ ملین افراد خطرے میں ہیں، اور ان میں سے آدھے سے زیادہ صرف چار ممالک ہندوستان، پاکستان، پیرو اور چین میں رہتے ہیں۔دنیا بھر کے گلیشیئرز خطرناک حد تک تیز رفتار سے پگھل رہے ہیں، اور ان گلیشئیرز سے پگھلنے والا پانی پیچھے چھوٹے گڑھوں کو بھرتا ہے، جو برفانی جھیل کہلاتے ہیں۔جیسے جیسے درجہ حرارت گرم ہوتا جاتا ہے اور گلیشیئر کے مزید ٹکڑے پگھلتے جاتے ہیں، یہ جھیل بڑھتی جاتی ہے۔ایسی جھیلوں کے نیچے کی سمت رہنا ناقابل یقین حد تک خطرناک ہو سکتا ہے۔اگر جھیل کا پانی بہت اوپر اٹھتا ہے اور آس پاس کی زمین یا برف اس پانی کو راستہ دیتی ہے تو جھیل پھٹ سکتی ہے، جس سے پانی اور ملبہ پہاڑوں پر بہہ سکتا ہے۔اس عمل کو برفانی جھیل کا اخراج یا گلیشیئل آئوٹ برسٹ کہا جاتا ہے۔ یہ برفانی ڈیم، تعمیر شدہ ڈیموں سے مختلف نہیں ہیں۔ایسے سیلاب بہت کم یا بغیر کسی وارننگ کے آتے ہیں۔برفانی جھیل کے پھٹنے کے گزشتہ واقعات میں ہزاروں افراد ہلاک، جبکہ لاکھوں ڈالر مالیت کی املاک اور اہم انفراسٹرکچر تباہ ہو چکے ہیں۔پیرو میں کورڈیلیرا بلانکا اس حادثے کی زد میں آنے کیلئے کے لیے تیار ایک خطرناک جگہ ہے۔محققین نے جان لیا کہ 1941کے بعد سے اس پہاڑی سلسلے نے برفانی تودے سے لے کر برفانی جھیلیں پھٹنے تک تیس سے زیادہ گلیشیئر آفات کا سامنا کیا ہے، جس میں 15000 سے زیادہ جانیں گئیں۔اگرچہ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ گزشتہ عرصہ میں پاکستان میں آنے والے سیلاب کا کتنا حصہ برف پگھلنے سے منسلک تھا، لیکن یہ ملک قطبی خطوں سے باہر کی دنیا میں موجود گلیشیئرز کا گھر ہے، یعنی یہاں دنیا میں دوسری جگہوں کی نسبت بڑی تعداد میں گلیشئیرز موجود ہیں۔سائنسدانوں کا کہا ہے کہ صرف 2022 میں ملک کے شمالی علاقے گلگت بلتستان میں برفانی جھیل پھٹنے کے کم از کم سولہ واقعات پیش آئے، جو کہ گزشتہ سالوں میں دیکھے گئے پانچ یا چھ واقعات سے نمایاں طور پر زیادہ ہیں۔ ان حادثات کا سب سے زیادہ خطرہ ایشیا کا بلند پہاڑی علاقہ ہے، جس میں نیپال، پاکستان اور قازقستان شامل ہیں۔سائنسدانوں نے بتایا کہ اس خطے کا ہر فرد برفانی جھیل کے تقریبا چھ میل کے اندر رہتا ہے۔گزشتہ دو دہائیوں کے دوران، اینڈیز کے گلیشیئرز آب و ہوا کے بحران کے نتیجے میں تیزی سے پگھل رہے ہیں، جس کے نتیجے میں بڑی بڑی برفانی جھیلیں بن رہی ہیں اور سیلاب کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ شمالی امریکہ اور یورپی الپس بھی خطرے سے باہر نہیں، یہاں کے بہت کم لوگ برفانی کیچمنٹ کے آس پاس رہتے ہیں۔پگھلتے ہوئے گلیشیئرز موسمیاتی بحران کی سب سے واضح، سب سے زیادہ نظر آنے والی علامات میں سے ایک ہیں۔ایک حالیہ مطالعہ، جس میں رونس بھی سرکردہ مصنف تھے، میں پایا گیا کہ کرہ ارض کے نصف گلیشیئرز صدی کے آخر تک ختم ہو سکتے ہیں۔رابنسن کہتے ہیں کہ انہیں امید ہے ان کی تحقیق عالمی رہنمائوں کو یہ تعین کرنے میں مدد دے سکتی ہے کہ برف پگھلنے کی وجہ سے آنے والے شدید سیلاب کے لیے کن ممالک کو ابتدائی انتباہی نظام کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ایک عالمی برادری کے طور پر ہمارے پاس محدود وسائل ہیں، اور ہم میں سے کچھ کو دوسروں کے مقابلے زیادہ وسائل تک رسائی حاصل ہے۔ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں ان وسائل کو ان علاقوں میں اچھے سے استعمال کیا جائے جہاں اثرات ممکنہ طور پر کافی شدید ہو سکتے ہیں۔ایک بار جب بھارت، پاکستان، پیرو اور چین جیسے سب سے زیادہ کمزور ممالک میں سرمایہ کاری ہو جائے تو ہم اس فہرست میں مزید ممالک کو شامل کرسکتے ہیں اور کام جاری رکھ سکتے ہیں، تاکہ ان پھٹتی ہوئی برفانی جھیلوں سے مزید جانیں بچائی جا سکیں۔گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا میں تقریبا اکہترلاکھ افراد ہر سال کسی نہ کسی طرح ایسی قدرتی آفات سے متاثر ہوتے ہیں جو کسی گلیشیئر کے پگھلنے یا پھٹنے کے نتیجے میں شروع ہوتی ہیں۔ گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا میں مجموعی طور پر تقریبا تین ہزار گلیشیئر جھیلیں ہیں۔ ان میں سے 33 ایسی ہیں جن میں پائی جانے والی برف مقامی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث تیزی سے پگھل رہی ہے جس کے نتیجے میں وہ کسی وقت بھی پھٹ کر بڑے پیمانے پر تباہی کا سبب بن سکتی ہیں۔ان کے مطابق خیبرپختونخوا کے ضلع چترال کے تین علاقوں، ضلع اپردیر کے دو علاقوں، ضلع سوات کے تین علاقوں، ضلع اپر کوہستان کے ایک علاقے کندیاں اور گلگت بلتستان کے سات علاقوں میں گلیشیئر سے بننے والی جھیلیں موجود ہیں۔ ان جھیلوں کے اردگرد رہنے والے لوگوں کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور اس کے خطرات سے نمٹنے کے طریقوں کے بارے میں آگاہی دینے کے لیے حکومت نے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی مدد سے 2011 میں گلاف ایک نامی پروگرام شروع کیا۔ 2017 میں اس پروگرام کے دوسرے مرحلے، گلاف دو، کا آغاز ہوا جس کے تحت نہ صرف قدرتی آفات کے بارے میں وقت سے پہلے آگاہی دینے کا نظام بنایا گیا ہے بلکہ مختلف جھیلوں اور دریاں پر موسم کا اندازہ لگانے، بارش کی مقدار ماپنے اور پانی کی گہرائی کا اندازہ لگانے والے آلات بھی نصب کیے جا رہے ہیں۔ رواں موسمِ گرما میں صوبے کے کئی علاقوں میں شدید بارشیں پڑنے، ندی نالوں میں سیلاب آنے اور پہاڑوں سے تودے گرنے کا خطرہ ہے۔ اس انتباہ کے پیشِ نظر متعلقہ محکموں کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ مقامی آبادیوں کو ان موسمی آفات سے لاحق خطروں سے بچانے کے اقدامات کریں اور سیاحوں کو بھی تاکید کی گئی ہے کہ وہ ایسے علاقوں میں جانے سے اجتناب کریں جہاں پہاڑی تودے گرنے یا سیلاب آنے کا خطرہ ہو۔