موسمیاتی تبدیلی یا اللہ کا عذاب؟

تحریر: علی احمد جان

“اللہ کا عذاب جنگل میں بھی آسکتا ہے۔ سوات اور کے پی میں جنگلات میں سیلاب آگیا۔”
یہ بات گلگت بلتستان کے وزیراعلی حاجی گلبر خان نے حالیہ دنوں جنگلات کی کٹائی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہی۔

“گلگت بلتستان میں گاؤں سطح پر اجتماعی صدقات اور استغفار کی ورد کی اشد ضرورت ہے۔ اللہ ہم سب سے راضی ہو۔”
مندرجہ بالا بیان فتح اللہ خان نے اپنے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر جاری کیا ہے۔ موصوف قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان کے ممبر ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ سابقہ منسٹر برائے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ہیں۔

اتنے اہم عہدوں پر فائز یہ افراد موسمی تبدیلی پر سرے سے یقین ہی نہیں رکھتے۔ وزیر اعلی گلبر خان موسمی تبدیلی کو اللہ کا عذاب قرار دیتے ہیں اور فتح اللہ کے نزدیک یہ سیلاب، گلیشرز کا پگھلنا اور موسمیاتی تغیر کا سبب اللہ کا لوگوں سے روٹھنا ہے۔ سابق وزیر برائے پلاننگ اور ڈویلپمنٹ کے نزدیک موسمیاتی تغیرات سے بچنے کا “پلان” صدقہ دینا ہے۔

پاکستان اور اس کے زیرانتظام علاقوں میں اب تک کی جانے والی سرویز کے مطابق گلگت بلتستان کا شمار ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں شرح خواندگی سب سے زیادہ ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں اس خطے کے ہزاروں طلبا ء قومی اور بین الاقوامی جامعات سے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کرچکے ہیں، باقی ایم فل اور ماسٹرز کرنے والوں کی تعداد اس سے چار گنا بھی ذیادہ ہوسکتی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان تمام پڑھے لکھےافراد کے اوپر حاجی گلبر خان اور فتح اللہ جیسے لوگ مسلط ہیں جو کلائمٹ چینج جیسی حقیقت کو ماننے سے قاصر ہیں اور منکر ہیں۔

ان صاحبان کے فرمودات کے آئینے سے دیکھا جائے تو جنگلات کی کٹائی سے خطے کے موسم پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور کرہ ء ارض کی درجہء حرارت میں اضافہ بھی خدا کی ناراضگی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔

اب آپ ذرا تصور کیجئے فتح اللہ صاحب کے دور میں “ڈویلپمنٹ اینڈ پلاننگ” کی وزارت میں ہونے والے فیصلے کتنے سائنسی بنیادوں پر ہوئے ہوں گے اور وزیر اعلی کی زیر قیادت ان دنوں سیلاب اور موسمی تغیر کے حوالے سے ہونے والی میٹنگز اور بریفنگ میں کس قدر “سائنسی اور جدید” بنیادوں پر حکمت عملی اور منصوبے تیار ہوتے ہوں گے۔

حالیہ سیلابوں کی وجہ سے گلگت بلتستان میں تیس کے قریب لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں، درجنوں زخمی ہیں، 5 ہزار سے ذاہد افراد بے گھر ہوچکے ہیں، سینکڑوں گھر، تعلیمی ادارے مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں۔ ہزاروں ایکڑ زرعی زمین تیار فصل کے ساتھ ملیامیٹ ہوچکی ہے اور ہزاروں پھل دار درخت سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں۔

دوسری جانب متاثرہ افراد خصوصا چھوٹے بچے شدید ذہنی اور نفسیاتی امراض کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اس نازک صورت حال میں ایسے غیر ذمہ دار اور نااہل حکمران کتنے بہتر فیصلے اور اقدامات کر سکتے ہیں اس کا اندازہ ان کے بیانات سے لگا سکتے ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نوعیت کے آفات صرف پاکستان یا اس زیر انتظام علاقوں میں نہیں آتے، دنیا بھر کے مختلف خطے قدرتی آفات کا سامنا کرتے ہیں لیکن جن ممالک میں گورننس اچھی ہوتی ہے وہاں عوام کو جانی و مالی نقصانات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ لوگ natural disasters سے نہیں بلکہ poor governance سے مرتے ہیں. یہی صورت حال ان دنوں گلگت بلتستان کا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں