راجہ حسین خان مقپون:اک روشن چراغ تھا نہ رہا

ڈاکٹر قمر غزنوی

کر رہا تھا غم جہاں کا حساب

آج تم یاد بے حساب آئے

یادیں اپنے اندر اک جہان معنی سموئے ہوئے ہوتی ہیں’یہ تڑپاتی ہیں’خواب دکھاتی ہیں’خوشگواریت کا سحر طاری کر دیتی ہیں۔دل ودماغ کو معطر کرتی ہیں’رنج و ملال کی کیفیت سے دوچار کرتی ہیں۔زندگی کی کتاب ایک ایسی کتاب ہے جس کے ورق تیزی سے پلٹے جا رہے ہیں، ہم چاہ کر بھی نہ روک سکتے ہیں اور نہ پلٹے گئے صفحے پر واپس جا سکتے ہیں۔ صرف یادیں رہ جاتی ہیں، بس ہمیں بے چین کرتی ہوئی، پرانے صفحات کی یادیں۔ اس لیے کوشش کریں اپنا آج اتنا خوبصورت بنا لیں، رشتوں کی قدر کر کے، محبتیں بانٹ کر تاکہ مستقبل میں جب آج کے صفحات ماضی بن جائیں تو آنکھوں سے وہ آنسو چھلکیں جن میں محبت سے بھری یادیں ہوں۔کبھی کبھی ماضی میں جانا کتنا اچھا لگتا ہے، نا آسودہ خواہشات کو خیالوں میں ہی آسودہ کر لینا، ٹوٹے ہوئے دل کو وقتی طور پر جوڑنا، بکھرے وجود کو لمحات کے لئے سمیٹ لینا۔

کوئی ماضی کے جھروکوں سے صدا دیتا ہے

سرد پڑتے ہوئے شعلوں کو ہوا دیتا ہے

دل افسردہ کا ہر گوشہ چھنک اٹھتا ہے

ذہن جب یادوں کی زنجیر ہلا دیتا ہے

حال دل کتنا ہی انسان چھپائے یارو

حال دل اس کا تو چہرہ ہی بتا دیتا ہے

کسی بچھڑے ہوئے کھوئے ہوئے ہم دم کا خیال

کتنے سوئے ہوئے جذبوں کو جگا دیتا ہے

ایک لمحہ بھی گزر سکتا نہ ہو جس کے بغیر

کوئی اس شخص کو کس طرح بھلا دیتا ہے

وقت کے ساتھ گزر جاتا ہے ہر اک صدمہ

 وقت ہر زخم کو ہر غم کو مٹا دیتا ہے

انسانی فطرت میں یادوں کی خوبصورتی کا ایک گلشن آباد ہوتا ہے۔ جس میں یادوں کے کچھ یادگار اور کچھ درد بھرے لمحات شامل ہوتے ہیں۔ یہ انسانی فطرت سے نہ ٹوٹنے والا رشتہ ہے، جو سوچ و خیال کو ماضی میں لے جاتا ہے۔ کبھی یہ دستک انسان کو زور سے سنائی دیتی ہے اور کبھی آہستہ لیکن قلب و ذہن پر ضرور اثر انداز ہوتی ہے۔ہر دن اپنی یادوں کے خوبصورت پھول اور کانٹے اگاتا ہے۔ کسی کو اس گلشن میں خوشبو کا احساس ہوتا ہے اور کسی کو درد کا۔یاد نئی ہو یا پرانی وہ اپنی قدر و قیمت کسی موسم کبھی نہیں کھوتی۔ یادیں خوشیوں اور غموں کی زنجیر سے بندھی ہوتی ہیں۔ ان کو جس سرے سے بھی پکڑو وہ اپنی تلاش اور اپنائیت کا احساس ضرور دیتی ہیں ۔یادوں کی خوبصورتی میں ایسے رنگ پوشیدہ ہوتے ہیں۔ جہاں جاذبیت اور اپنائیت ذہن کے پردہ سکرین پر بار بار دستک دیتی ہے۔ انسان کبھی افسردہ اور کبھی خوش باش ہوتا ہے۔ہماری زندگی میں کچھ رشتوں کا تقدس ایک ایسے لبادے میں لپٹا ہوتا ہے جہاں ان کی محبت کا قرض ادا نہیں ہوتا۔ دراصل محبت کی ڈوری سے جذبات اس قدر پیوست ہوتے ہیں، کہ اگر دل سے جدا کرنے کی کوشش بھی کی جائے تو وہ بار بار اپنا دامن پھیلا کر انسان کو لپیٹ لیتے ہیں۔البتہ دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کی موجودگی نعمت غیر مترقبہ ہوتی ہے جن کی یاد سے موجوں کی ایسی طغیانی شروع ہوتی ہے، جیسے فطرت اپنے مناظر میں کروٹیں بدل بدل کر اپنی رعنائیاں ظاہر کرتی ہے۔یہ وہی یادیں ہوتی ہیں جو اپنی خاصیت و اعتبار کے لحاظ سے لاثانیت کا درجہ رکھتی ہیں۔ لہذا نہ وہ ٹوٹتی ہیں نہ بکھرتی ہیں۔دکھوں کی بھی الگ ہی دنیا ہے  یہ اچانک اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہیں اور جاتے جاتے ایسے مضر اثرات چھوڑ جاتے ہیں، جن کے نشان زندگی بھر کے لیے رہتے ہیں۔ بلاشبہ اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ دکھ ہمدردی کا پیراہن پکڑ کر دوسروں کے دلوں میں احساس کی امید پیدا کرتے ہیں تاکہ ہم ایک دوسرے کا دکھ بانٹ سکیں۔دنیا میں کچھ ایسے  لوگ بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کے دکھوں کو اپنا دکھ سمجھ کر بانٹتے ہیں جس سے دکھ کٹ جاتا ہے اور تکلیف کم ہو جاتی ہے۔ زندگی کی حقیقی معنویت اور مقصدیت اجاگر کرنے کے لئے یہ یاد روشن چراغ کی مانند ہوتی ہے جو روشنی بکھیرتی ہے ‘خلوص اور محبت کی زبان بن کر دوسروں کو زندگی کی آکسیجن مہیا کرتی ہیں۔ اچھی اور کھری یادیں اپنا تشخص نسلوں تک برقرار رکھتی ہیں۔ کیونکہ ان سے وابستہ انسان کی شخصیت کے ہمہ گیر پہلو اور نئی پھوٹتی شعوری روایات شامل ہوتی ہیں۔جب انسان ماضی کے جھروکوں میں جھانکتا ہے تو بے چین ہو جاتا ہے کیونکہ یہ یادیں شگفتہ، پاکیزہ’رنج و غم سے بھرپور اور دل کشی کے احساس سے بھری ہوتی ہیں۔یہ یادیں عظیم صحافی راجہ حسین خان مقپون کی یادیں ہیں۔راجہ حسین خان مقپون  اصولوں کے پابند ایک صحافی  تھے، وہ خاموش اور بے ضرر شخص تھے، صحافت کی ایسی کٹھن دنیا میں ہمیشہ دوست بن کر رہے۔ ایک نرم دل انسان جو وقت نکال کر فون کرتے تھے جب انہیں لگتا تھا کہ آپ مشکل میں ہیں، یا خود سیاسی حالات سے دلبرداشتہ ہوتے تو دوستوں کو یاد کرتے ‘آپ محبت کرنے اور دیکھ بھال کرنے والے شخص تھے۔ وہ ہمیشہ اپنے الفاظ پر کھرے تھے اور ان کی زندگی میں ایسے ادوار بھی گزرے جب انہوں نے ذریعہ معاش کے لیے جدوجہد کی ۔وہ طویل عرصے تک مشکل کا شکار رہے لیکن کبھی اپنے وقار یا سچائی کے عہد سے روگردانی نہیں کی۔انہیں ہر کوئی جانتا تھا اور وہ  سب کے  پسند کیے جانے والے قابل احترام صحافیوں میں سے ایک تھے۔انہوں نے کبھی بھی کسی سے بدسلوکی نہیں کی اور وہ ان صحافیوں میں سے تھے جنہوں نے کبھی گپ شپ یا چغل خوری کی حوصلہ افزائی نہیں کی، وہ ہمیشہ مسائل کے بارے میں بات کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی، خواہ وہ ذاتی ہو یا پیشہ وارانہ، ہر سطح پر جدوجہد کی اور بغیر کسی شکایت کے ہر نشیب و فراز کو خوشنودی کے ساتھ قبول کیا۔آپ محبت اور رواداری کی زندہ مثال تھے  وہ ایک جیسے تھے، ہمیشہ مسکراتے، حوصلہ دیتے اور جب آپ کو سب سے زیادہ ضرورت ہوتی تو آپ کا ہاتھ تھام لیتے۔وہ صحافیوں کی ایک ایسی نسل سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے پاکستان میں علاقائی صحافت کو اپنے عروج تک پہنچایا۔وہ ایک نہایت ہی قابل صحافی تھے۔ ان کی دیانت اور صداقت کے سب معترف تھے جو آج کل نایاب ہوتی جا رہی ہے۔ وہ بطور صحافی غیر جانب دار تھے وہ صحافت کی آزادی کے لیے پیش پیش رہے ان کی خدمات پاکستانی صحافت کے لیے کبھی بھلائی نہیں جا سکتیں۔ چاہے جمہوری حکومت ہو یا آمریت،آپ ہر حکومت کے ناقد رہے، لیکن اس کے باوجود وہ ہر دور میں قابلِ احترام رہے کیوں کہ انہوں نے کبھی بھی ذاتی مفادات کو پیشہ وارانہ فرائض کے راستے میں کبھی حائل نہیں ہونے دیا۔پاکستان میں آزادی اظہار اور پریس کی آزادی کے لیے کی جانے والی جدوجہد کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں تیس سال سے زیادہ ملک اور ریاست کے ادارے فوج کے زیرِ تسلط رہے ہوں وہاں آزادی اظہار کا حاصل کرنا آسان نہیں تھا۔پیشہ ور صحافی ہی اصل میں پاکستانی معاشرے کا وہ حصہ ہیں جنہوں نے تمام معاشرے کے اجتماعی مفاد کی خاطر پریس کی آزادی کے لیے نہ صرف فقید المثال قربانیاں دیں بلکہ ایسے رویے بھی اپنائے جن سے ملک میں پیشہ وارانہ معیار بھی قائم ہوئے۔وہ کہا کرتے تھے صحافت ایک عظیم مشن اور باوقار پیشہ ہے ایک انسان اپنے قلم کے ذریعے قوم کی ترجمانی اور ان کے مسائل اور ان کے حل کو ارباب اختیار کے سامنے پیش کرتا ہے ‘اہل قلم کو عہد کرنا ہوگا کہ وہ ایمان داری کے ساتھ پر امن صاف ستھری صحافت کو فروغ دیکر ملک وقوم کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کریں ۔ ان جیسا ذمہ دار، بے خوف اور اصول پسند صحافی اب دور دور تک نظر نہیں آتا۔وہ پورے ملک کے صحافیوں کے لیے ایک مثال تھے۔ انہوں نے پوری زندگی جمہوری اقدار کی حفاظت کے لیے جنگ لڑی اور صحافیوں کے مفادات میں ہمیشہ آگے بڑھ کر کام کرتے رہے۔آپ بے باک صحافی تھے جنہوں نے صحافت ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔آج ان کی تیرھویں برسی نہایت تزک و احتشام سے منائی جا رہی ہے اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ان جیسے صحافیوں کی کمی ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں