وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومت نے شبانہ روز محنت سے معاشی استحکام حاصل کرلیا ہے، پارلیمان، عدلیہ، انتظامیہ اپنے آئینی امور کی انجام دہی میں مصروف عمل ہیں، ادارہ جاتی اصلاحات اور نظام کی درستگی کا عمل جاری ہے۔یوم پاکستان کے موقع پر اپنے خصوصی پیغام میں وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اپنے اسلاف اور مشاہیر کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں، قائداعظم اور شاعرمشرق کی ولولہ انگیزقیادت میں الگ وطن کے واضح نصب العین کاتعین ہوا۔انہوں نے کہا کہ قرار داد پاکستان اس لازوال عہد کی تابندہ دستاویز ہے جو آج بھی ہمیں اپنا مقصد یاد دلارہی ہے، ہمارے سروں پر لہراتا سبز ہلالی پرچم ہمارے اسلاف کے غیر متزلزل یقین اورعزم وہمت کی بے مثال گواہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آج پاکستان ایک خودمختار مملکت اور اہم ایک آزاد قوم ہیں، جس پر رب ذوالجلال کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے، پیشہ وارانہ لیاقت کی حامل اور شوق شہادت کے جذبے سے سرشار بہادر افواج، صنعت، علم و ہنر اور کھیلوں سے لے کر ہر شوبہ ہائے زندگی میں پاکستان کے قابل شہری اپنی محنت سے نئے جہان آباد کررہے ہیں اور پاکستان کی شان بڑھا رہے ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پارلیمان، عدلیہ، انتظامیہ اپنے آئینی امور کی انجام دہی میں مصروف عمل ہیں،حکومت نے شبانہ روز محنت سے معاشی استحکام حاصل کرلیا اور ادارہ جاتی اصلاحات اور نظام کی درستی کا عمل جاری ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری مسلح افواج، پولیس، ایف سی اور رینجرز سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے بے مثال ہمت، جرات اور بہادری کا مظاہرہ کررہے ہیں، جنہیں میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے سلام پیش کرتا ہوں۔وزیر خزانہ کہہ چکے ہیں کہ حکومتی اقدامات سے معیشت درست سمت میں جارہی ہے مہنگائی اور شرح سود میں کمی آئی ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے۔ آئی ایم ایف حیران ہے کہ معیشت کیسے سنبھل گئی۔ وزیر خزانہ میکرو معاشی اشاریوں کی بات کر رہے تھے مگر عام آدمی کی معیشت کی بات کی جائے تو یہ بدستور بحران سے دوچار ہے اور شرحِ غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ورلڈ بینک نے پاکستان میں غربت کی صورتحال پر جو رپورٹ جاری کی اس میں عندیہ دیا گیا ہے کہ مالی سال 2026 تک ملک میں غربت کی شرح چالیس فیصدکے لگ بھگ رہے گی۔دوسری جانب بے روزگاری کی شرح بھی اس وقت تشویشناک حد تک زیادہ ہے۔ گزشتہ مالی سال کے اقتصادی سروے کے مطابق ملک میں بے روزگاری کی شرح 6.3 فیصد ہے اور نوجوان آبادی بے روزگاری سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔ پندرہ سے چوبیس سال کی عمر کے نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح گیارہ فیصد بتائی جاتی ہے۔افراطِ زر میں کمی کیلئے حکومتی کوششیں اپنی جگہ مگر بے روزگار ی کی شرح میں جب تک واضح کمی نہیں آتی مائیکرو معاشی اشاریے تسلی بخش حد تک نمو نہیں پاسکتے چنانچہ صنعتی فروغ کی جانب حکومت کو خصوصی توجہ دینا ہو گی اور نئی صنعتوں کے قیام کیلئے آسانیاں پیدا کرنا ہوں گی۔افراطِ زر اور شرح سود میں کمی سے اصولی طور پر صنعتی سرگرمیوں میں اضافہ ہونا چاہیے البتہ صنعتی ترقی کیلئے یہی سب کچھ نہیں کیونکہ توانائی ٹیکس اور حکومتی ترجیحات بھی صنعتی ترقی کیلئے اہم ہیں۔حکومت کی جانب سے چین سعودی عرب متحدہ عرب امارات سمیت ہر اس ملک کے ساتھ ترجیحی بنیادوں پر سفارت کاری کی ضرورت ہے جو پاکستان میں صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کرتا ہے۔ پاکستان کے معاشی مواقع معمولی نہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے اور ان مواقع سے استفادہ کیا جائے۔ اس خطے کے کئی ممالک چند دہائیوں میں صنعت کاری میں پاکستان کی پون صدی کی تاریخ پر بازی لے گئے۔ آج ان کی برآمدات ملک عزیز سے دوگنی تگنی ہیں ۔اس کی اگر کوئی وجہ ہے تو وہ ترجیحات کا فرق ہے۔ وزیر خزانہ جس تندہی سے میکرو استحکام کیلئے کوشاں ہیں اور ریونیو کے اہداف حاصل کرنے کیلئے نت نئے شعبے دریافت کررہے ہیں انہیں مائیکرو استحکام کا بھی سوچنا ہو گا جو کہ میکرو استحکام کیلئے ڈرائیونگ فورس بن سکتا ہے ۔ جب لوگوں کے پاس کچھ ہو گا ہی نہیں تو معیشت کا پہیہ سست روی کا شکار ہوگا جس سے ٹیکس وصولیوں میں بھی کمی آئے گی اور بے روزگاری میں بھی اضافہ ہو گا۔چنانچہ ضروری ہے کہ عملی اور حقیقی بنیادوں پر عوامی قوتِ خرید بڑھانے کے اقدامات کی جانب توجہ دی جائے۔ اس سلسلے میں کثیر جہتی اقدامات ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر نوجوان جو بے روزگاری سے سب سے زیادہ متاثر ہیں کو مختلف ہنر سیکھ کر روزگار کیلئے خود کفیل بنایا جا سکتا ہے۔ یہی ہنر نوجوانوں کو بیرونِ ملک ملازمت کے مواقع حاصل کرنے میں بھی مدد فراہم کرسکتے ہیں۔یہ منصوبے معیشت کیلئے انقلابی تبدیلی کا سبب نہ بھی بنیں تو کم از کم بہت حد تک بے روزگاری کے مسائل کم ضرور کر سکتے ہیں۔تاہم پاکستان جیسے بڑے آبادی والے کسی ملک کا معاشی استحکام مضبوط صنعتی بنیاد کے بغیر ممکن نہیں۔کہا جا سکتا ہے کہ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کاپاکستان پر اعتماد بڑھ رہا ہے حکومت کے تمام مثبت اقدامات کی مزید تصدیق بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی فچ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کی تھی فچ ریٹنگز نے معاشی استحکام کی بحالی اور غیر ملکی زرمبادلہ ذخائر کو مضبوط رکھنے کے لیے پاکستان کی پیش رفت کا اعتراف کیا ہے، رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ پاکستان نے معاشی استحکام کی بحالی اور غیر ملکی زرمبادلہ کو مضبوط رکھنے میں پیش رفت دکھائی ہے فچ ریٹنگز نے معاشی استحکام کی بحالی اور غیر ملکی زرمبادلہ ذخائر کو مضبوط رکھنے کے لیے پاکستان کی پیش رفت کا اعتراف کیا ہے، لیکن ساتھ ہی خبردار کیا ہے کہ ڈھانچہ جاتی اصلاحات اور بیرونی فنانسنگ اہم چیلنجز ہیں۔انہی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکومت نے اصلاحات رپورٹ جاری کی ہے۔یہ اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ شمار کی جاتی ہے ۔ جس میں جنوری 2024 سے جنوری 2025 کے آخر تک کے دورانیے کا جامع تجزیہ گیا ہے اور پالیسی و گورننس میں ہونے والی تبدیلیوں کو ڈیٹا پر مبنی تفصیلات کے ساتھ پیش کی گئی ہیں۔یہ پہلا موقع ہے جب پاکستان میں حکومت کی اصلاحاتی ایجنڈے کو منظم انداز میں دستاویزی شکل دی گئی ہے۔ گزشتہ مہینوں میں، 120 سے زائد اصلاحات مختلف شعبوں میں نافذ کی گئیں، جن میں گورننس، اقتصادی پالیسی، قانونی فریم ورک، اور ادارہ جاتی کارکردگی شامل ہیں۔ یہ اقدام پالیسی تبدیلیوں کا درست اور شفاف ریکارڈ فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا تاکہ پالیسی ساز ادارے، کاروباری برادری اور بین الاقوامی ادارے پاکستان کے بدلتے ہوئے گورننس ماڈل کے ساتھ موثر انداز میں جڑ سکیں اور ان کا تجزیہ کرسکیں۔ یہ رپورٹ بین الاقوامی رپورٹس کے برعکس، جن میں صرف جنوری سے مئی تک کا ڈیٹا شامل ہوتا ہے، پورے سال کا تجزیہ پیش کرتی ہے تاکہ گورننس، احتساب اور شمولیت پر ایک مکمل اور حقیقت پر مبنی جائزہ فراہم کیا جا سکے۔رپورٹ کے اہم نکات میں حکومت کی جانب سے کی گئی 120 اصلاحات کا تفصیلی جائزہ شامل ہے، جن میں گورننس، معاشی استحکام، اور سماجی شمولیت شامل ہیں۔گورننس، احتساب اور شفافیت کے حوالے سے ایک مکمل جائزہ فراہم کیا گیا ہے۔ درست اور مکمل نمائندگی کے حوالے سے پالیسی میں ہونے والی تبدیلیوں کے حقیقی اثرات کو سامنے لایا گیا ہے تاکہ پاکستان کی ترقی کو بہتر انداز میں سمجھا جا سکے۔ کلیدی چیلنجز کا احاطہ اس رپورٹ میں کیا گیا ہے حکومت کی جانب سے معاشی عدم استحکام، بلند افراطِ زر، کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر، قرضوں کے دباو، سیاسی پولرائزیشن، اور بیوروکریسی کی غیر موثر کارکردگی جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے کیے گئے اقدامات کی تفصیلات شامل ہیں۔سرمایہ کاروں کے اعتماد میں بحالی، غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ۔اسمگلنگ اور غیر قانونی تجارتی سرگرمیوں کے خلاف سخت کارروائیاں کی مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔قومی ڈیجیٹل لرننگ پلیٹ فارم کا آغاز کیا گیا ہے سماجی و انسانی حقوق کی اصلاحات کے حوالے سے خواتین اور بچیوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے قومی پالیسی منظور منظور کی گئی ہے۔ اس وقت ملک کو بیک وقت بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جس میں دہشت گردی، معاشی صورتحال سرفہرست ہیں ۔ان تمام درپیش مشکلات سے اس وقت تک مقابلہ نہیں کیا جا سکتا جب تک معاشرے میں موجود تقسیم کو ختم نہ کیا جا سکے۔حکومت پر بالخصوص اس کی بھاری ذمہ داری ہوتی ہے کہ ملک میں اتفاق و اتحاد کی فضا پیدا کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے ۔اپوزیشن جماعتوں کا مثبت کردار درپیش چیلنجز نکلنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔
معاشی استحکام کے تقاضے
- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل
