سول نافرمانی

رانا فیضان علی

بار بار لانگ مارچوں اور جلسے جلوسوں کے بعد ملک بھر میں اب سول نافرمانی کا غلغلہ سنائی دے رہا ہے’ 26نومبر کو لانگ مارچ کی ناکامی اور کفن پہنے ہوئے رہنمائوں کی چشم زدن میں ڈی چوک سے واپسی کی باز گشت ابھی سنائی ہی دے رہی تھی کہ سول نافرمانی کا ایک بار پھر اعلان کر دیا گیا ہے’ جس میں بل جلائے جائیں گے’ ٹیکسوں کی ادائیگی سے انکار کیا جائے گا’اوور سیز پاکستانیوں کو تو پہلے ہی ترسیلات زر ہنڈی و حوالہ کے ذریعے بھیجنے کی تاکید کر دی گئی ہے’عسکری مصنوعات کا بائیکاٹ بھی  جاری ہے ۔یہ تجربہ پہلے بھی کیا جا چکا ہے جو بدترین ناکامی سے دوچار ہوا حتی کہ سٹیج سے بل جلانے کی ترغیب دینے والے عمران خان نے خود بل جمع کرایا ۔اگرچہ عمران خان نے نو مئی اور چھبیس نومبر کے واقعات کی عدالتی تحقیقات نہ کرانے پر چودہ دسمبر کو سول نافرمانی کی کال دی تھی تاہم اسے حکومت سے مذاکرات میں پیشرفت کے باعث موخر کر دیا گیا۔پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم کے مطابق حکومت اور اپوزیشن کی ملاقات ہوگی جس میں حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ ہوجائیگا،  ملاقات کے بعد سول نافرمانی تحریک کا فیصلہ کیا جائے گا۔ملاقات میں کچھ ہم اپنی سنائیں گے کچھ انکی سنیں گے، ملاقات کے تمام نکات عمران خان سے ڈسکس کریں گے۔سول نافرمانی تحریک کے بارے میں حتمی فیصلہ بانی پی ٹی آئی ہی کریں گے۔شیخ وقاص اکرم نے کہا کہ مذاکرات سے متعلق بات کرنے پر اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے شکر گزار ہیں تاہم حکومت معاملات بہتری کی طرف نہیں لے جانا چاہتی۔ حکومت مذاکرات کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے لہذا سول نافرمانی کی مرحلہ وار تحریک شروع کریں گے۔یاد رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی تجویز پر پی ٹی آئی سے مذاکرات کے لیے حکومتی کمیٹی تشکیل دی ہے جبکہ اسپیکر ایاز صادق نے آج ساڑھے بجے حکومت اور اپوزیشن کی مذاکراتی ٹیموں کو اپنے دفتر میں مذاکرات کی دعوت دی ہے۔وزیراعظم کی تشکیل کردہ کمیٹی میں نائب وزیراعظم  اور وزیر خارجہ اسحق ڈار، سیاسی امور کے مشیر رانا ثنا اللہ اور سینیٹر عرفان صدیقی شامل ہیں جب کہ پیپلزپارٹی سے راجا پرویز اشرف، نویدقمر بھی کمیٹی کا حصہ ہیں۔اس کے علاوہ حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم پاکستان کے چیئرمین خالد مقبول صدیقی، استحکام پاکستان پارٹی سے علیم خان، مسلم لیگ قاف سے چوہدری سالک اور بلوچستان عوامی پارٹی سے سردار خالد مگسی شامل ہیں۔سول نافرمانی احتجاج کا ایک پرامن طریقہ ہے جس کے ذریعے حکومت سے اختلاف رکھنے والے لوگ حکومت کو ہر قسم کو ٹیکس دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ایسی مصنوعات اور ایسی خدمات کے استعمال سے گریز کرتے ہیں جس سے سرکار کو فائدہ پہنچے۔ جس میں بجلی، ٹیلی فون، گھریلو استعمال کی گیس، پانی، پلوں، شاہراہوں اور دیگر ایسی چیزیں جن سے حکومت کو پیسہ آتا ہو۔ ان تمام یا کچھ ذرائع محصول سے روکنا، رکنا یا ان کے استعمال پر محصول ادا نہ کرنا۔ سول نافرمانی اکثر اجتماعی عمل کی صورت میں کی جاتی ہے۔برطانوی ہند میں تحریک ترک موالات اس کی ایک مثال ہے۔سول نافرمانی صرف ٹیکس نہ دینے کا نام نہیں بلکہ حکومتی قوانین کے برعکس کام کرنے کا بھی نام ہے جیسا کہ سرکار کی جانب سے جہاں اجتماع پر پابندی ہو وہاں احتجاج کرنا، شاہراہیں بند کرنے پر پابندی ہے تو شاہراہیں بند کرنا۔پاکستان میں سول نافرمانی کی تاریخ بہت پرانی ہے 1958 سے 1969 کے دوران وکلا، طلبا اور سٹوڈنٹس یونینز کی طرف سے ایوب خان کی فوجی حکومت کے خلاف مختلف مواقع پر سول نافرمانی تحاریک کی کالز دی گئیں۔مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے قائد مجیب الرحمان نے حکومت کو 1970 کے انتخابات کو قبول کرنے کے لئے عوام کو سول نافرمانی کی کال دی تھی۔ اس تحریک کے دوران ڈھاکا سمیت مشرقی پاکستان میں پہیہ جام ہو گیا۔ تمام سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر، سکول، بینک اور کاروباری مراکز بند ہو گئے۔ عوام نے حکومت کو ٹیکس کی ادائیگی بھی بند کر دی۔ ٹیلی فون اور ٹیلی گرام کا مشرقی اور مغربی پاکستان میں رابطہ بھی منقطع ہو گیا جس کے بعد فوجی آپریشن سرچ لائٹ کا آغاز ہوا اور اس کا نتیجہ بالآخر بنگلہ دیش کی صورت میں نکلا۔۔ستر کی دہائی میں پاکستان نیشنل الائنس نے ذوالفقار علی بھٹو حکومت کے خلاف احتجاج کے لیے مختلف مواقع پر سول نافرمانی کی کال دی۔1977 میں پاکستان قومی اتحاد نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا،ان انتخابات کے نتائج میں قومی اسمبلیوں کی دو سونشستوں میں سو پر پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی۔صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والے پاکستان قومی اتحاد نے قومی اسمبلی میں چھتیس نشستیں حاصل کیں اور نتائج کو مسترد کر دیا۔ پھرسول نافرمانی کی تحریک شروع کی۔

1981 سے 1986 کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت میں مختلف سیاسی جماعتوں کے اتحاد برائے بحالی جمہوریت کی طرف سے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کے اعلانات ہوتے  رہے۔2011  میں امریکیوں نے معاشی عدم مساوات کی طرف توجہ دلانے کے لیے امریکی قوانین کے برخلاف وہاں کے مشہور کاروباری مقام وال سٹریٹ پر دھرنا دیا۔2014  میں شروع ہونے والے احتجاج بلیک لائف میٹرز بھی سرکاری قوانین کے برخلاف عوامی شاہراہیں بند کر کے احتجاج ہوتا رہا۔کہا جاتا ہے کہ سقراط نے ایتھنز کی حکومت کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے نظریات کا پرچار جاری رکھا۔1846میں ہینری ڈیوڈ تھورو ایک امریکی فطرت نگار اور ناول نگار جس کی کتاب والڈن بہت مشہور ہوئی۔ جیمز ناکس پوک جب امریکی صدر تھے تو ہینری ڈیوڈ تھورو نے ناانصافی پر مبنی قوانین کی خلاف ورزی کے لیے پرامن احتجاج سول نافرمانی کا طریقہ اپنایا۔ انہوں نے امریکہ کی میکسیکو میں جنگ کے لیے ٹیکس دینے سے انکار کر دیا۔ برصغیر کے معروف سیاسی لیڈر گاندھی جی نے کئی مواقع پر سول نافرمانی تحاریک چلائیں جن میں ان کا 1930 میں کیا گیا سالٹ مارچ اور 1942 میں انگریزو بھارت چھوڑ دو تحریک شامل تھی۔انہوں نے لوگوں کو غیر ملکی کپڑا خریدنے سے منع کرتے ہوئے انہیں بھارت میں چرخے پر بنا ہوا کپڑا پہننے کی ترغیب دی۔پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں امریکا کے سیاہ فام سیاسی لیڈر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے سیاہ فام حقوق کی جدوجہد کے لیے کئی اختراعات کیں، جن میں دھرنا، بائیکاٹ اور لانگ مارچز شامل تھے۔ جنوبی افریقہ میں نیلسن مینڈیلا اور ڈیسمنڈ ٹوٹو نے نسل پرستانہ حکومت کے خلاف سول نافرمانی تحاریک چلائیں۔انسانی تاریخ میں حکومتوں کے خلاف سول نافرمانی کی تحریکیں سیاسی قائدین کا اہم ترین ہتھیار رہی ہیں۔سب سے زیادہ سول نافرمانی کی تحریکیں برطانوی راج کے خلاف چلیں۔ 1919 میں وفادا پارٹی نے مصر اور سوڈان سول نافرمانی کی تحریک چلائی جس کے تین سال بعد برطانیہ نے مصر کو تسلیم کیا اور 1923 میں ملک کا پہلا آئین بنا۔ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے یہاں سول نافرمانی کی تحریک کبھی کامیاب نہیں ہو سکی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے مزاج تبدیل کرنے پر کیوں آمادہ نہیں ہوتے ذاتی مفادات کے لیے ملکی مفادات کو کیوں پس پشت ڈال دیتے ہیں’انائوں کے خول میں بند ہو کر انتقامی کارروائیوں کا چلن کیوں اختیار کرتے ہیں’ملک گزشتہ دو عشروں سے جن حالات سے گزر رہا ہے کیا یہ حالات کسی بھی نوع کے احتجاج’ہڑتالوں’ لانگ مارچوں اور دھرنوں کی اجازت دیتے ہیں’وہ کونسی جماعت ہے جس نے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہائی ہوں’ ہر سیاسی جماعت کا دور عوام اور ملک کے لیے بدترین دور رہا’ وہ دعوے’ وعدے اور نعرے فراموش کر دیے گئے جو انتخابی جلسوں میں عوام سے ووٹ کے حصول کے لیے لگائے گئے۔پھر یہ سیاسی جماعتیں ملک کی تعمیر و ترقی اور عوام کی فلاح کے لیے کیوں اکھٹے ہو کر اجتماعی کاوشوں سے گریز کی راہ پر گامزن ہیں۔یہ کیوں یہ فیصلہ نہیں کرتیں کہ جب تک ملک بیرونی قرضوں سے نجات حاصل نہیں کر لیتا اراکین اسمبلی کسی قسم کی مراعات حاصل نہیں کریں گے۔ اراکین اسمبلی اور اسمبلیوں پر جو اخراجات اٹھتے ہیں وہ قرضوں کی ادائیگیوں پر صرف کیے جائیں گے۔اسمبلی آنے جانے کے تمام اخراجات جیب سے ادا کرنا ہوں گے۔کون نہیں جانتا کہ اگر ایسا کر لیا جائے تو عوامی خدمت کے بلند بانگ دعوے کرنے والے سیاست کے نام سے ہی دور بھاگیں گے ‘انہیں عوامی خدمت بھول جائے گی۔درحقیت یہ عوامی مال پر عیاشیاں کرنے’ پروٹوکول انجوائے کرنے’ بے تحاشا مراعات حاصل کرنے اور اختیارات کے نشے میں مدہوش ہونے کے لیے میدان سیاست میں اترتے ہیں۔ ان کے مفادات پر مبنی بل لمحوں میں منظور ہو جاتے ہیں اور عوام کے لیے ان کے پاس خالی خزانے کا مژدہ سنانے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔یہ لانگ مارچ اور دھرنے اسی لیے ہوتے ہیں کہ کوئی دوسرا کیسے اختیارات کی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے وہ کیوں اس گنگا میں غسل سے محروم ہیں’ دھاندلی کا شور تو ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ اگر مکمل طور پر صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد کرا لیا جائے تب بھی ان کی زبانیں دھاندلی کا زہر ضرور اگلیں گی البتہ اقتدار کی صورت میں یہ دھاندلی کا نام تک نہیں لیں گی’ گویا ان کا مطمح نظر صرف اقتدار کا حصول ہے خواہ وہ کتنی ہی دھاندلی سے کیوں نہ حاصل کیا جائے۔لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ  سول نافرمانی’ لانگ مارچ’ ہڑتالوں اور جلوسوں کا سلسلہ ملک سے کبھی ختم نہیں ہو سکتا ۔  

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں