پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے امن و امان پر خصوصی توجہ دینے اور قومی معاملات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کو ناگزیر قرار دے دیا ہے۔لاہور میں گورنر ہائوس میں خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم اور تمام جماعتوں کو دہشت گردوں سے مقابلے کیلئے متحد ہونا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ تمام جماعتوں کو ملک و قوم کیلیے ایک جگہ پر جمع ہونا ہوگا، اپوزیشن کو سیاست کرنی ہے تو وہ عوامی ایشوز پر بات کرے کیونکہ اب وقت ہے کہ ملکی مفادات کیلئے اجتماعی فیصلے کیے جائیں۔بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ ہمیں بلوچستان اور خیبرپختونخوا پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔موجودہ حالات میں قومی اتفاق رائے کی واقعتا اشد ضرورت ہے۔پچیس کروڑ آبادی والا ملک کم جی ڈی پی اور بلند افراط زر کی وجہ سے معاشی عدم استحکام سے دوچار ہے، یہ ملک کے ایک بڑے حصے کے لیے مالی مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ عسکریت پسندی کے دیگر عوامل میں کرنسی کا کمزور ہونا، ٹیکس کی کم وصولی اور سیاسی عدم استحکام شامل ہیں۔ ان شعبوں میں بہتری نئے الیکشن سے مشروط سمجھی جا رہی تھی۔مالیاتی ماہرین توانائی کے ٹیرف، مہنگائی، شرح سود، روپے کے استحکام اور عالمی بینک، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین اور امریکا سمیت دیگر ڈونر ممالک کے ساتھ مذاکرات کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔ پاکستان کو استحکام کی ضرورت ہے جو حکومت میں شامل جماعتوں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن بنچوں کا انتخاب کرنے والوں کی یکساں ذمے داری ہے۔معیشت کی بحالی اور استحکام کے ایسے منصوبہ پر عمل کرنا ہوگا جس کے فوائد عام آدمی تک کم سے کم وقت میں پہنچنے چاہیں۔ ماضی میں یہی دیکھا گیا ہے کہ ان کی منصوبہ بندی سے اس سرمایہ دارانہ نظام میں معاشی ترقی کے فوائد ملک میں صرف دوچار فیصد افراد تک محدود رہتے ہیں جب کہ ملک کی بیشتر آبادی کے شب و روز میں کوئی نمایاں بہتری نہیں آتی۔جاگیرداری اور سرمایہ داری نظام کے منفی اثرات کا سدباب نہایت ضروری ہے اور اسی طرح سرمایہ، صنعت، تجارت اور جائیداد کے حوالے سے اصلاحات کا وضع کرنا بھی لازم ہے۔ معیشت کے تجزیہ نگار اور ماہرین کی ایک اکثریت ہر روز معاشی حالات کو بہتر کرنے کے نسخے بتا رہی ہوتی ہے مگر بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ہمیں ایک ایسی اقتصادی حکمت عملی تشکیل دینی چاہیے جو مخصوص طبقات کے بجائے پوری قوم کی خوشحالی کا ذریعہ بنے۔ سرمایہ کاری سہولت کونسل نے غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ٹھوس اقدامات شروع کیے ہیں، متحدہ عرب امارات اور کویت کے ساتھ اربوں ڈالرکی مفاہمتی منظوری بھی ہوچکی ہے جو حکومت کے لیے یقینا خوش آئند ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے اور ساتھ ہی امن و امان کی صورتحال بھی دور اندیشی سے مگر فیصلہ کن انداز میں اقدامات کی متقاضی ہے۔پاکستان کی معاشی ترقی کا سفر ایک ہی دائرے میں گھوم رہا ہے۔ مالیاتی بحران کی وجہ سے جہاں پاکستان عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کا دست نگر بنا ہوا ہے وہیں توانائی کے بحران کی وجہ سے ملک میں معاشی سرگرمیاں منجمد ہیں۔ بجلی کی ترسیل اور اس حوالے سے ماضی میں کیے گئے معاہدوں کی وجہ سے بھی صارفین کو اضافی مالی بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔یہ شعبہ طویل عرصے سے اصلاحات کا متقاضی ہے لیکن ماضی میں ہر حکومت نے سیاسی دبائو اور دیگر وجوہات کی بنا پر اس معاملے کو زیر التوا رکھا جس کی وجہ سے آج صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ گھریلو صارفین سے لے کر صنعت کاروں تک ہر کوئی بجلی اور گیس کے بھاری بلز سے عاجز آچکا ہے۔بلاول بھٹو زرداری کی یہ سوچ نہایت مناسب اور وقت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے کہ انتہاپسندی کو شکست دینے کے لئے تمام طبقات مل کر بیٹھیں اور متفقہ حکمت عملی کی تیاری کریں ۔اتفاق رائے کے بغیر کسی قوم کا آگے بڑھنا ناممکنات میں سے ہے۔ دہشت گرد طاقت کے زور پر اپنا ایجنڈا مسلط کرنا چاہتے ہیں دہشت گردی اور انتہاپسندی جیسے مسائل پر سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہوکرقومی اتفاق رائے حاصل کرنے کی سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔ ویسے تو اتفاق رائے قومی مفاد کے تمام مسائل پر ضروری ہے مگر انتہاپسندی ایسا معاملہ ہے جو ملک کی سلامتی، بقا اور وجود کے لئے چیلنج بنا ہوا ہے۔ اس مسئلہ پر باہمی خلفشار اور نااتفاقی کے نتائج پوری قوم کے لئے انتہائی تباہ کن ثابت ہوسکتے ہیں اس لئے تمام محب وطن قوتوں کو سرجوڑ کر بیٹھنا چاہئے اور ملک کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے قابل عمل حکمت عملی وضع کرنی چاہئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم سیاسی گروہوں اور مذہبی فرقہ بندیوں میں بٹے ہوئے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام تر تفرقوں اور اختلافات کے باوجود جب بھی وقت نے اشتراک عمل کا تقاضا کیا، ہم متحد ہوگئے۔ 1973 کا متفقہ آئین ہم نے اسی جذبے سے بنایا۔ اسی جذبے سے آئین میں مختلف ترامیم کیں۔ انتہاپسندی کے خلاف حکمت عملی بھی یقینا اتفاق رائے سے تیار کی جا سکتی ہے۔ اس کے لئے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہوگا۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپوزیشن سمیت تمام طبقات کو قومی مسائل پرساتھ لے کر چلے، پھر معاملہ جب دہشت گردی اور انتہاپسندی کے حوالے سے ملک کی بقا کا ہو تو کوئی بھی جماعت گروہ یا طبقہ اسے نظرانداز کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا نہ حکومت انہیں دعوت فکر دینے کی ذمہ داری سے بچ سکتی ہے اس لئے ایک ایسی قومی کانفرنس کا اہتمام کیا جانا چاہئے جس میں اپوزیشن سمیت تمام سیاسی پارٹیوں، مذہبی جماعتوں اور دوسرے طبقوں کے نمائندوں کو شرکت کی دعوت دی جائے اور یہ کانفرنس اس وقت تک جاری رہے جب تک شرکا کسی متفقہ حل تک نہ پہنچ جائیں۔قوم اس وقت دہشت گردی اور انتہاپسندی کی تباہ کاریوں سے دوچارہے۔ امن و امان کو لاحق خطرات کی وجہ سے لوگوں کے کاروبار اورروزمرہ کے معمولات متاثر ہورہے ہیں۔ملکی معیشت زوال پذیر ہے۔ دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ دہشت گردی کا مقابلہ ہمیں خود ہی کرنا ہوگا، کوئی دوسرا ہماری مدد کے لئے نہیں آئے گا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تمام ممالک نے ہمیں تعاون کا یقین دلایا لیکن چین کے سوا کسی نے حقیقی معنوں میں ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ یہ حقیقت ہماری سیاسی اور مذہبی قیادت کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ وہ ہرمعاملے میں انتخابی یا گروہی سیاست نہ کریں۔ بلاتاخیر ان تمام پارٹیوں اور طبقوں کے نمائندوں سے رابطے شروع کیے جائیں جو اس حساس معاملے میں موثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ہمارے ہاں سیاست گروہی مفادات تک محدود رہتی ہے اور بدقسمتی سے ہماری سیاسی قیادتیں اپنے اپنے محدودگروہی مفادات سے بلند تر ہوکر قومی ترجیحات کو اختیار کرنے میں ہچکچاتی ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ باہمی منافقت اورمقابل سیاسی حریف کو نیچا دکھانے یا ناکام دیکھنے میں ہم اپنی کامیابی سمجھتے ہیں، خواہ اس روش سے ملک کو کتنا ہی نقصان پہنچے۔ لہذا مکمل اتفاقِ رائے کیلئے باہمی اعتماد سازی کو ترجیح دینی چاہئے، حکومتِ وقت کو کمزور نہ کریں تاکہ ملک اس مشکل سے سرخرو ہوکر نکل جائے تو اسے بھی غنیمت سمجھنا چاہئے۔ سیاسی محاذ آرائی کا راستہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔دستیاب حقائق کی روشنی میں قومی سلامتی کے کسی کم ازکم ایجنڈے پر اتفاقِ رائے ضروری ہے اور اس کے لئے وزیرِ اعظم کو خود پیش قدمی کرنی چاہئے۔ہمیں نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ قومی تاریخ کے اس نازک موڑ پر داخلی سلامتی کے ذمہ داران اس جانب توجہ نہیں دے رہے۔اس وقت پاکستان مسائلستان بنا ہوا ہے، مہنگائی کا عفریت ، بے روزگاری میں روز مرہ اضافہ الغرض مسائل کا انبار ہے، لیکن سب سے اہم مسئلہ ملک کی داخلی اور خارجی سلامتی کا ہے، جب لوگوں کی جان ، مال اور آبرو کو خطرات لاحق ہوں اور کوئی اپنے آپ کو محفوظ نہ سمجھے تو باقی سارے مسائل پس پشت چلے جاتے ہیں اور ہماری مسلح افواج اگر مستقل طور پر داخلی خلفشار کو قابو پانے میں مصروف رہیں ،تو ملکی سرحدات پران کی دفاعی صلاحیت یقینا متاثر ہوگی۔آج اگرچہ سرحدوں پر بارود والی جنگ نہیں، لیکن دہشت گردی مسلط ہے اور سیاست ، دشمنی میں تبدیل ہوچکی ہے دشمن نے خود ہمارے اندر ہی اختلافات پیدا کراکے ایک دوسرے سے لڑا دیا ہے۔ہر روز دہشت گردی ہو رہی ہے اس کے باوجود اتفاق رائے نہیں ہو پا رہا، ہمیں قومی یکجہتی اور قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے اتحاد ہو تو مشکل آسان ہو جاتی ہے اور دشمن منہ دیکھتا رہ جاتا ہے اور اگر طریقہ یہ اختیار کر لیا جائے کہ فوج کے جوان تو روز شہید ہوں اور ہم فوج کو ہی مطعون کرنے پر کمربستہ رہیں تو حالات کیسے بہتر ہوں گے۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم کو تقسیم ہونے سے بچانے کیلئے اہم قومی معاملات پر اتفاق رائے کو یقینی بنایا جائے۔
قومی اتفاق رائے کا صائب مشورہ
- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل
