عدل و انصاف کی فراہمی

0

چیف جسٹس پاکستان یحیی آفریدی نے کہا ہے کہ اصلاحات کا مقصد سائلین کو بروقت اور موثر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔چیف جسٹس یحیی آفریدی کا مختلف شعبہ جات کے سربراہان کے ساتھ ایک مشاورتی اجلاس ہوا، اجلاس میں سپریم کورٹ کے رجسٹرار، ڈی جی فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی، سیکرٹری قانون و انصاف کمیشن نے شرکت کی۔اعلامیہ کے مطابق اجلاس میں چیف جسٹس یحیی آفریدی نے جاری عدالتی اصلاحات کا جائزہ لیا، چیف جسٹس نے عدالتی طریقہ کار کی ڈیجیٹلائزیشن، احتساب، شفافیت کو مزید بہتر بنانے پر زور دیا۔چیف جسٹس یحیی آفریدی نے کہا سائلین انصاف کے نظام کے بنیادی سٹیک ہولڈرز ہیں، سائلین کے ساتھ عزت و وقار کے ساتھ پیش آنا مثبت عوامی تاثر کو مزید مضبوط کرتا ہے۔اجلاس میں اب تک حاصل کیے گئے نمایاں اہداف پر روشنی ڈالی گئی، اجلاس میں ای فائلنگ نظام کے کامیاب عمل درآمد کا بھی جائزہ لیا گیا، اجلاس میں آئی ٹی ڈائریکٹوریٹ نے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کے انضمام پر پیش رفت سے متعلق بریفنگ دی۔آج ہمارے معاشرے میں ، انفرادی اور اجتماعی سطح پر یہ عدل و انصاف اٹھ چکاہے،نظامِ عدل کو زنگ لگ چکا ہے، نہ حکمران عادل رہے، نہ قاضی عادل رہے، نہ معاشرے کا عام فرد اس عدل و انصاف کے پیمانے پر قائم رہا۔جس کی وجہ سے ہم تنزلی کا شکارہیں۔ عمومی طور پر جس کو جہاں کچھ طاقت حاصل ہوتی ہے، وہ وہاں ظلم اور افراط و تفریط کا شکار ہوجاتاہے۔ اس کے بہت سارے مناظر ہمارے سامنے آتے ہیں۔کوئی عہدے کی بنا پر عدل سے ہٹ جاتا ہے، کوئی اپنی چودھراہٹ کی بناپر عدل سے ہٹ جاتاہے، کوئی وڈیرہ ہے تو اسے یہ زعم عدل وانصاف پر قائم رہنے نہیں دیتا، کسی کے پاس وزارت ہے، کسی کے پاس مال ہے، کسی کے پاس تعلقات ہیں، اور ان چیزوں کی وجہ سے انسان مغرور ہوکر دوسروں کے حقوق کو پامال کررہا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ ایک ایسی طاقت موجو دہے،ایک ایسی ذات موجو دہے، جو سب طاقتوں سے بڑھ کر ہے، جس کے سامنے ساری مخلوق کا جاہ وجلال ، رعب و دبدبہ ہیچ ہے، کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا، اور وہ ذات جب کسی کو اس کے ظلم اور ناانصافی کی وجہ سے پکڑتی ہے تو پھر مہلت نہیں دیتی۔ہمارا مذہب ،ہر ہر فرد کو ، چاہے وہ حاکم ہو ، پھرحاکمِ اعلی سے لے کر اس شخص تک جو ایک یا دو افراد کا ذمہ دار ہو،ہر ایک کو عدل کا حکم دیتا ہے۔اور عدل و انصاف زندگی میں ہر ہر شعبہ میں مقصود ہے، چاہے گواہی کی صورت ہو، تقسیم کی صورت ہو، گفتگو کی صورت ہو، فیصلے کی صورت ہو یا اس کے علاوہ۔عدل اور انصاف معاشرے کو امن و امان فراہم کرنے اور لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ظلم و زیادتی کرنے سے روکنے کا بہترین ذریعہ ہے جس کی بدولت کوئی بھی شخص کسی دوسرے پر ظلم و زیادتی کرنے اور اس کی مال وجان کو نقصان پہنچانے سے گریز کرتا ہے دنیا میں کئی عدل و انصاف کے دعوے دار آئے اور انہوں نے اپنی طرف سے مختلف قسم کے اصول و ضوابط قائم کئے ان سے فائدہ تو ضرور ہوا لیکن مکمل طور پر ان جرائم پر کنٹرول پانے میں ناکام رہے بعض تو اپنے اصولوں کی کمزوری اور بعض کسی دوسرے خارجی پہلو سفارش یا پھر کسی دبائو اور لالچ میں آکر ان میں ناکام دکھائی دئیے لیکن جب حضور علیہ السلام کی تشریف آوری ہوئی تو آپ نے ان تمام ظالمانہ نظام کا خاتمہ کیا اور ان کے مدِ مقابل ایسا بہترین اور زبردست قسم کا نظام متعارف کروایا کہ بڑے بڑے مجرم اور جرائم پیشہ افراد بھی اس کے سامنے سر نگوں ہونے پر مجبور ہو گئے اور لوگ اس آفاقی نظام اور اس کی مضبوط دیواروں کو تسلیم کئے بغیر نہ رہ سکے اور آج بھی اگر دنیا میں کوئی مضبوط عدل و انصاف کا نظام ہے تو حقیقی طور پر یہی اسلامی نظام ہے۔مسلمانوں کا ایک ہزار سالہ دور اس کرہ ارض کے سینے پر سنہری الفاظ سے لکھا جانے والا دور ہے، جب از شرق تا غرب سماجی عدل کے تمام تقاضے بدرجہ اتم پورے کیے جارہے تھے۔ یہودیوں کی چار ہزار سالہ تاریخ میں ان کے لیے جو بہترین وقت تھا اسلامی دورِحکومت میں ہی انہیں میسر آیا۔ بنی اسرائیل نے اپنی تاریخ کا بہترین وقت مشرق میں عباسیوں کا دورِ حکومت اور مغرب میں امویوں کا دورِ حکومت تھا، جب ان کی تجارت عروج پر تھی اور بڑے بڑے تعلیمی ادارے اور طبی تربیت کے ادارے بھی ان یہودیوں کے زیرنگرانی چل رہے تھے اور ان کو دربارِ شاہی تک براہِ راست دسترس حاصل تھی۔ ایک ہزار سالہ مسلمانوں کے دورِ اقتدار میں بڑی قوم نے چھوٹی قوموں کو سماجی و تعلیمی غلام نہیں بنایا تھا، ایک ملک سے دوسرے ملک میں جانے کے لیے سیروں وزن کے کاغذ نہیں اٹھانے پڑتے تھے، حکمرانوں اور عوام کا بودوباش ایک ہی تھا، دولت اور اقتدار چند ہاتھوں یا کچھ مخصوس خاندانوں تک محدود نہیں تھے۔ ملوکیت اور خاندانی بادشاہت کے باوجود آج کے سیکولرازم سے کہیں بہتر حالات تھے، جھوٹی شہرت بازی اور قوموں اور حکومتوں کو بلیک میل کرنے کا رواج نہیں تھا، بیک ڈور ڈپلومیسی کے نام پر عالمی منڈی میں اقوام کی خرید و فروخت کے بازار کہیں نہیں لگتے تھے، تعلیم اور علاج کے نام پر کاروبار نہیں چمکائے جاتے تھے۔ یہ سب سیکولر تہذیب، سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت اور مغربی نظامِ جمہوریت کے مکروہ نتائج ہیں ، جن کے باعث مسلمانوں کے قائم کردہ سماجی انصاف والے معاشروں کی جگہ آج پوری دنیاکے دریائوں میں از شرق تا غرب پانی کی جگہ انسانی خون بہہ رہا ہے۔اہل علم نے عدل کے معنی انصاف، نظیر، برابری، معتبر جاننا، موازنہ کرنا، دو حصوں کو برابر کرنا، سیدھا ہونا، دو حالتوں میں توسط اختیار کرنا اور استقامت کے ہیں۔ جبکہ عام اصطلاح میں قضا کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس سے مراد روز مرہ کے معاملات میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتے ہوئے جج یا قاضی عدل و انصاف کے ساتھ حقوق عامہ کا یوں تحفظ کرے کہ کسی ایک کی بھی حق تلفی نہ ہو۔ دین اسلام نے عدل کو بنیادی اہمیت دی ہے کیونکہ اس کے بغیر ایک صالح معاشرے کا قیام عمل میں نہیں آ سکتا۔ کسی بھی معاشرے میں خوشحالی، امن اور ارتقا کے مراحل اسی وقت طے ہو سکتے ہیں جب وہاں عدل و انصاف موجود ہو۔قانونی عدل سے مراد ہے کہ قانونی طور پر ہر شخص کو بلا رنگ و نسل اور مذہب کے عدل فراہم کیا جائے۔ اگر قانون عدل فراہم کرنے میں ناکام ہو جائے تو اسے قانون نہیں کہا جا سکتا۔ قانون بنانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایک حد بندی کر دی جائے جس میں افراط و تفریط نہ ہونے پائے۔ اسلام کے قانون عدل کی بنیاد قرآن و سنت کے بتائے گئے ابدی اور لازوال اصولوں پر ہے۔ ان قوانین کے ذریعے عوام کو عدل فراہم کرنا ہے تاکہ ایک پرامن معاشرہ قائم ہو سکے۔ قانونی عدل یہ ہے کہ ہر انسان کو یکساں طور پر قانونی تحفظ میسر ہو۔ معاشرتی زندگی میں افراد کے انفرادی اور اجتماعی حقوق کو متوازن رکھنے کی ضمانت حاصل ہونی چاہیے۔ معاشرتی زندگی کے مقاصد کے حصول کے لئے کی جانے والی باہمی تعاون و اشتراک کی جدوجہد میں اگر کسی فرد کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیا جائے تو وہ اپنے فرائض کی تکمیل نہیں کر سکتا۔ یوں معاشرے میں توازن برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے جس کے باعث ملکی سالمیت، وحدت ملی اور آپس میں ہم آہنگی کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔کسی بھی مملکت کا کام معاشرے میں توازن و اعتدال قائم کرنا ہے اور یہ عدل کے بغیر ممکن نہیں۔ سیاسی عدل یہ ہے کہ ریاست کے سیاسی اداروں میں ہر شخص کو برابری کے حقوق حاصل ہوں اور سیاسی امور میں حصہ لینے کا حقدار ہو، سیاست کا شعبہ حکومت قائم کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے اس لئے ہر شخص کو سیاسی عدل فراہم ہونا چاہیے۔عدل کے قیام و نفاذ کی سب سے زیادہ ذمہ داری عدلیہ پرعائد ہوتی ہے اس لئے آزاد عدلیہ کی مہذب معاشروں میں آرزو بھی کی جاتی ہے۔ انتظامیہ کی طرف سے عدلیہ کی آزادی کو سلب کرنے کی جب بھی کہیں کوشش ہوئی وہ انتظامیہ کی رسوائی و ذلت کا موجب بھی بنی اور اسکے اقتدارکے خاتمے کا ذریعہ بھی۔ آزاد عدلیہ کسی بھی ملک کے عوام کی بنیادی ضرورت تصور ہوتی ہے۔ اسی لئے انصاف کی فراہمی کویقینی بنانے کیلئے صاحبان اقتدار کواپنے عوام سے وعدے وعید بھی کرنا پڑتے ہیں۔ عدلیہ اپنی آزادی کی حفاظت خود بھی کرتی ہے اورجس معاشرے میں عدلیہ نے اپنے اس فرض منصبی سے ذرا سی بھی غفلت برتی یا اسکے کسی ذمہ دار فرد نے عدل کے قیام و نفاذ اور عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے کہیں کسی بھول چوک کا مظاہرہ کیا وہاں عدلیہ پرعوام کا اعتماد کمزور پڑ جاتا ہے جو کسی قوم کی تباہی و بربادی کیلئے ایک بہت ہی مضبوط اور طاقتور حوالہ بن جاتا ہے۔پاکستان کی معروضی صورتحال کوئی زیادہ حوصلہ افزا اور خوشگوار نہیں عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے اور عدل و انصاف کے قیام و نفاذ اور فراہمی و دستیابی کے حوالے سے سامنے آنیوالے تینوں فریقوں کا کردار مثالی نہیں بلکہ کردار میںایسی کجی پیدا ہوچکی ہے جسکی اگر اصلاح نہ کی گئی تو تباہی و بربادی کی جانب ہمارے سفر کرنے کی رفتارخدا نخواستہ بہت تیز ہوجائیگی چونکہ پاکستان اسلام کے اعلی و ارفع اصولوں کے عملا نفاذ کیلئے حاصل کیا گیا تھا اس لئے اس ایک شعبہ کی طرف بھرپور توجہ دینا عدلیہ، حکومت اورعوام سبھی کی ذمہ داری ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

عدل و انصاف کی فراہمی“ ایک تبصرہ

  1. Nice post. I learn something totally new and challenging on sites I stumbleupon everyday. It will always be helpful to read articles from other authors and practice a little something from their web sites. Feel free to surf to my homepage … Exness Indonesia

اپنا تبصرہ بھیجیں