زوال آمادہ معاشرہ:کہاں تک سنائیں؟

رانا فیضان علی

ےہ حقےقت اظہر من الشمس ہے کہ طوےل مسافتےں پہلے قدم کی محتاج ہوتی ہےں‘پہلا قدم اٹھتا ہے تو منزل کے حصول کا خواب بتدرےج تعبےر میں ڈھلنے کی امےد روشن ہوتی چلی جاتی ہے۔چہرے پر طمانےت کے نمودارآثار ےہ بتاتے ہےں کہ منزل پر پہنچنے کا ےقےن ذہن میں راسخ ہو چکا ہے۔وطن عزےز کی تخلےق اور بعد ازاں اس کا سفر غماز ہے کہ انتہائی نامساعد حالات کے باوجود ہم آگے بڑھتے رہے جو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ نوزائےدہ مملکت کی ےہ زمےن بنجر تھی نہ اس کے اذہان‘ دفاتر میں اے سی تو درکنار بجلی تک نہ تھی‘دفتری امور کےلئے دستاوےزات پر لگانے کےلئے پےپر پن کا تصوربھی نہ تھا‘ پودوں کے کانٹے استعمال کرتے ہوئے ضرورت پوری کر لی جاتی تھی۔ اپنے حصے کا سامان نہ ملنے کے باوجود خلوص‘ اےمانداری‘فرض کی ادائےگی اور قومی ترقی کے جذبے میں لپٹے جنون نے ادارے کھڑے کر دےے‘ ملک و قوم کا ہر قدم نےک نےتی کے باعث آگے بڑھ رہا تھا‘وہ قوتےں انگشت بدنداں تھےں جو سمجھ رہی تھےں کہ ےہ ملک اپنی بقا کو ےقےنی بنانے میں کامےاب نہےں ہو سکے گا اور آخر کار پھر سے ہندوستان میں ضم ہو کر ان کے دلوں میں مچلتی بھارت ماتا کی خواہش کی تکمےل کا موجب بنے گا لےکن ان کی خواہش ‘خواہش ہی رہی کےونکہ ملک کی باگ ڈور محب وطن قےادت کے ہاتھ میں تھی۔ پھر وقت بدل گےا‘ ذاتی مفادات کی اسےر قےادتوں نے مسند اقتدار کو محض اپنی ذات کی ترقی کا محور و مرکز بنا لےا‘اجتماعی سوچ کی بجائے انفرادی سوچ کی گھنگھور گھٹاﺅں نے امےد کی کرنوں کو ےاس و ناامےدی کے بادلوں سے ڈھانپ دےا جس کے منطقی نتےجے میں ملک زوال کی عمےق گہرائےوں میں گرتا چلا گےا۔ ےوں لگتا ہے ملک و قوم کے مقدر کی دےوار پر ”زوال اور محض زوال“ کے الفاظ کندہ کر دےے گئے ہےں۔عروج کا لفظ شاےد ہم نے اپنی لغت ہی سے نکال دےا ہے‘ہم اےک قدم آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہےں تو کئی قدم پےچھے ہٹنا پڑتا ہے‘ترقی معکوس کی دےمک چہار سو دکھائی دےتی ہے۔ کوئی ادارہ اور کوئی شعبہ زندگی اےسا نہےں جس میں ہم نے کارہائے نماےاں انجام دےے ہوں۔ وہ ادارے جن پر قوم کے خون پسےنے کی کمائی کا اربوں روپےہ لٹاےا جاتا ہے کی کارکردگی ماےوس کن ہے لےکن ہر سال نتائج مانگنے کی بجائے ان کی مراعات میں بے تحاشا اضافہ کر دےا جاتا ہے۔ےہ پوچھنے کی زحمت تک گوارا نہےں کی جاتی کہ ملک کی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود میں آپ کا کردار کےا ہے اور آپ اس کردار کی ادائےگی میں ناکام کےوںہےں؟ترقی کا تعلق سمت کی درستگی سے ہوتا ہے‘ اس کےلئے درست جگہ پر درست آدمی کی تعےناتی اور صحےح وقت پر صحےح فےصلے ضروری ہوتے ہےں مگر بدقسمتی سے ہم نے سائےکل چلانے والے کو ہےلی کاپٹر اڑانے پر معمور کردےا اور ہےلی کاپٹر اڑانے کی صلاحےت رکھنے والے کو اپنی اناﺅں کی تشنگی بجھانے کےلئے عضو معطل بنا دےا‘اقربا پروری کی لعنت اس قدر فروغ پا چکی ہے کہ اہلےت و صلاحےت کا حامل نہ ہونے کے باوجود بڑے بڑے عہدوں پر تعےناتےاں کر دی جاتی ہےں ےہی وہ وجہ ہے کہ ادارے زوال آمادگی کا استعارہ بن چکے ہےں۔ جو کھےلوں کی اے بی سی سے آشنا نہےں وہ کھےلوں کی درستگی کا بےڑا اٹھائے ہوئے ہوتے ہےں‘جو گھر کا بجٹ نہےں بنا پاتے انہےں پچےس کروڑ عوام کی معےشت درست کرنے کی ذمہ داری دے دی جاتی ہے۔جو خود تعلےم و تعلم سے بے بہرہ ہےں وہ وزےر تعلےم کے منصب فاخرہ پر فائز کر دےے جاتے ہےں‘ان نابغہ روزگار شخصےات کے سارے اخراجات ےوں برداشت کےے جاتے ہےں گوےا وہ اپنا کاروبار و مصروفےات چھوڑ کر دن رات لگن سے اپنے اداروں کی بہتری و ترقی میں مصروف قومی خزانے میں خطےر اضافے کا باعث بن رہے ہوں۔جب ےہ رخصت ہوتے ہےں تو ےہ عقدہ کھلتا ہے کہ ادارے پر موجود قرض کی رقم دوگنی تگنی ہو چکی ہے‘کارکردگی صفر کی سطح سے نےچے چلے جانے کے باوجود درجنوں افراد کو نوازتے ہوئے بھاری مشاہروں پر رکھ لےا جاتا ہے۔جو اداروں کی آمدن و اخراجات میں توازن قائم کرنے کی اہلےت بھی نہ رکھتے ہوں ان سے اداروں کی تباہی و بربادی کے پروانے پر دستخط کے علاوہ کوئی امےد احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ حکام بالا ان سے اس لےے جوابدہی نہےں کرتے کےونکہ اےسا کرنے کی صورت میں انکی حکومت کی بنےادےں ہل جانے کے خدشات سروں پر منڈلانے لگتے ہےں چنانچہ وہ انہےں ےہ کھلی چھوٹ دے دیتے ہےںکہ خواہ کچھ بھی کرےں‘ خزانے کا دھڑن تختہ کر کے اپنے اکاﺅنٹ کتنے ہی کےوں نہ بھر لےں ان سے کوئی باز پرس نہےں کی جائے گی۔کون نہےں جانتا کہ نگران حکومت ےہ جاننے کے باوجود کہ گندم کی نئی فصل آنے والی ہے اربوں روپے کی گندم درآمد کر کے قومی خزانے اور کسانوں کو کھلے بندوں نقصان پہنچاتی ہے مگر ان میں سے کسی کا احتساب تو کجا ان سے پوچھنے کی ضرورت بھی محسوس نہ کی گئی کہ اےسا کےوں کےا گےا؟ےہ صرف اےک مثال ہے اےسی مثالوں سے دفتر کے دفتر بھرے جا سکتے ہےں لےکن ےہ داستانےں جنہوں نے ملک و قوم کی سانسےں روک دی ہےں ختم نہےں ہو سکتےں‘ احتساب کی عدم موجودگی اور عوامی امانتوں میں خےانت نے ہی آج وسائل سے بھرپور ملک کو کشکول کی فےکٹری میں تبدےل کر دےا ہے‘ ہر آنے والا اس فےکٹری سے بنا ہوا نئے ماڈل کا کشکول اٹھاتا ہے اور دنےا بھر کے چکر لگا کر ملنے والی بھےک سے کہےں زےادہ سےر سپاٹوں پر اڑا کر قوم کو ےہ خوشحبری سناتا ہے کہ اس کا دورہ نہاےت ہی کامےاب رہا ہے لےکن وہ ےہ نہےں بتاتا کہ ےہ کامےابی صرف اس کی ذات تک محدود ہے اور حکومتی اخراجات عوام کے پاس بچ جانے والے لقمے چھےن کر ہی پورے کےے جائےں گے۔معےشت کا مےمنہ ہو‘ مےسرہ ہو ےا قلب اس کی فصل کرپشن کی کھاد کے ذرےعے کاشت کرتے ہوئے کرپشن ہی کے پانی سے سےنچی جاتی ہے۔ حےرت انگےز امر ےہ ہے کہ جو پالےسےاں تشکےل دی جاتی ہےں ان کا کوئی سر پےر نہےں ہوتا البتہ مفادات کی دبےز تہہ ضرور چڑھی ہوتی ہے۔دنےا اپنی آئندہ نسلوں اور آنے والے وقت کے لےے پالےسےاں بناتی ہے لےکن ہمارے ہاں اپنے مفادات کے تابع قلےل المدتی پالےسےاں بنائی جاتی ہےں جو نئی حکومت کے آنے پر کروڑوں کے فنڈز ضائع کرتے ہوئے اس لےے تبدےل کر دی جاتی ہےں کہ کہےں اس کا کرےڈٹ ان کی مخالف جماعت کو نہ ملے خواہ ملک و قوم کوکتنا ہی نقصان کےوں نہ برداشت کرنا پڑے۔نئی پالےسےوں پر نئے فنڈز ضائع کےے جاتے ہےں ‘نئے لوگ تعےنات کےے جاتے ہےں کےونکہ آنے اور جانے والے اس احساس و ادراک سے عاری ہےں کہ ےہ قوم کا پےسہ ہے جسے استعمال کرتے ہوئے ےہاں پاﺅں کو رکھ پھونک کر اور خوف سے گزران کرنے والا طرز عمل اختےار کرنا ضروری ہے۔

عدلےہ کسی بھی معاشرے کی بقا کی ضامن ہوا کرتی ہے جو انصاف کے ذرےعے مظلوم و مقہور اور اشرافےہ کے مابےن عدل سے توازن قائم رکھتی ہے۔ دوسری جنگ عظےم میں جب جرمن جہاز آسمان سے آتش و آہن کی بارش کر رہے تھے تو چرچل کے مصاحبےن نے اس تباہی و بربادی پر تشوےش کا اظہار کےا مگر چرچل نے افسردہ و ملول ہونے کی بجائے ےہ استفسار کےا کہ” کےا ہماری عدالتےں انصاف فراہم کر رہی ہےں‘ ہاں میں جواب ملنے پر اس کا کہنا تھا جب تک ہماری عدالتےں انصاف فراہم کر رہی ہےں کچھ غلط نہےں ہو سکتا“۔عدلےہ مظلوم کی آخری امےد ہوتی ہے اور ےہ سمجھا جاتا ہے عدلےہ طاقتور کے جبڑوں سے مظلوم کا حق چھےن کر اس کے حوالے کرتی ہے مگر وہ عدلےہ جو نظرےہ ضرورت پر فےصلے دےتے ہوئے دباﺅ کا اقرارکر کے اپنی ملازمت بچانے کی مجبورےوں کا اعتراف کرے‘معمولی باتوں پر سوموٹو لےنے والی عدلےہ پراپرٹی ٹائےکون کے اس اعتراف کے باوجود کہ وہ درخواستوں کو پہےے لگا دےتا ہے گوےا وہ کھلے بندوں رشوت سے کام نکالنے کے جرم کا اقرار کر رہا ہے مگر مجال ہے جو سو موٹو لےا جائے۔ افسوسناک امر ےہ ہے کہ طاقتور اور بااثر افراد تو کچھ ہی عرصے میں اپنی مرضی کے انصاف نما فےصلے لے لےتے ہےں لےکن عام آدمی کو برسوں انتظار کی سولی پر لٹکنا پڑتا ہے ےا پھر اس کی نسلےں بھی انصاف کا انتظار کرنے پر مجبور ہوتی ہےں۔عدلےہ کے لےے اس سے زےادہ شرمناک صورتحال اور کےا ہو گی کہ لوگ وکےل کی بجائے جج ہائر کر لےنے کی باتےں کرتے ہےں۔تاخےر کے خوف سے اپنا حق کے لےے عدلےہ کا در کھٹکھٹانے کی بجائے چپ سادھ لےنے ہی میں عافےت سمجھتے ہےں۔ وہ عدلےہ جو بےٹے سے تنخواہ نہ ملنے پر نااہل کردے‘پارٹی کی صدارت سے ہٹا دے‘ 51 سےکنڈ میں51 ضمانتےں دے دے‘بھٹو کی پھانسی کے اپنے ہی فےصلے کوکالعدم قرار دے ‘جج ےہ کہےں آپ کےوں پرےشان ہےں ہم بےٹھے ہےں ناں۔سائل کو خود مشورے دے کہ آپ ےہ نہےں ‘ےہ کرلےں‘جنہوں نے آئےن و قانون کی پاسداری کرتے ہوئے فےصلے دےنا ہےں وہ مرضی کے انصاف کی فراہمی کےلئے ہتھوڑا چلا کر آئےن ہی بدل کر اسے نئے سرے سے لکھ دےں جو ان کا کام ہی نہےں ہے‘سپرےم کورٹ کے جج اطہر من اللہ ےہ کہےں کہ ”ےوسف رضا گےلانی کو نااہل قرار دےنے کا فےصلہ غلط تھا“ تو کےسے کہا جا سکتا ہے عدلےہ انصاف کی علمبردار ہے ‘کےا اےسے ججز کو جن کے فےصلے غلط اور مبہم ہوں کے ہاتھ میں ملک و قوم کی تقدےر تھمائی جا سکتی ہے ‘ان غلط فےصلوں کے نتےجے میں سائل جو نقصان اٹھا چکے ان کا ازالہ کےسے ممکن ہے؟ حےرت ہے جو مدعی انصاف نہےں مانگ رہا اسے انصاف دے رہے ہےں کہ ےہ نشستےں تم لے لو اور جو انصاف کے طلبگار ہےں وہ برسوں سے منتظر ہےں ‘ ڈپٹی سپےکر قاسم سوری اپنا سارا دورانےہ سٹے پر گزار دےتا ہے مگر فےصلہ نہےں ہوتا‘انصاف بے انصافی کا ننگا ناچ‘ناچ رہا ہے۔ےہی وجہ ہے کہ پاکستانی عدلےہ 134وےں نمبر پر ہے جو مزاج ےار میں آئے کے مطابق وہ کسی کو گاڈ فادر کہے‘ سسلےن مافےا سے تشبےہہ دے‘ ڈےم فنڈ اکھٹے کرے‘ ملزم کی ضمانت کےلئے رات گئے تک انتظار کرے‘گاڑی میں جا کر ملزم سے دستخط کرائے‘گڈ ٹو سی ےو کہے‘مرسڈےز میں بھےجنے کا حکم جاری کرے‘ رات رےسٹ ہاﺅس میں قےام کی سہولت دے ‘پندرہ پندرہ لاکھ تنخواہےں اور بے پناہ مراعات وصول کرنے کے باجود عدلےہ اگر اپنا مقام نہ بنا سکے تو ےہ مراعات کس لےے دی جا رہی ہےں‘ وہ کون سا عادل ہوگا جو عدلےہ کا احتساب کرے گا؟محتسب کا احتساب نہ ہونا ہرگز عدل نہےں ہے۔سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر اور وکیل اسد جمال کا کہنا ہے عدلیہ میں تعصب یا ذاتی پسند نا پسند کا عنصر بھی شامل ہو چکا ہے۔ اسد جمال کے مطابق کئی ججوں کی ذاتی پسند ناپسند مقدمہ پر اثرانداز ہوتی ہے۔ یہ ایک محدود پہلو ہے مگر ہے ضرور اور یہ ماتحت اور اعلی عدلیہ دونوں میں پایا جاتا ہے۔تاہم عرفان قادر کے مطابق تعصب، مذہبی وابستگی یا ذاتی پسندیدگی عدلیہ میں موجود ہے اور اعلی عدلیہ میں زیادہ پائی جاتی ہے جو ےقےنا تشوےشناک ہے‘افسوسناک امر ےہ بھی ہے کہ عدلےہ میں اکےس لاکھ سے زےادہ مقدمات التوا کا شکار ہےں ےعنی کروڑوں لوگ انصاف کے منتظر ہےں‘ ہونا تو ےہ چاہےے کہ دن رات سماعت کرتے ہوئے مقدمات کا بوجھ کم کےا جائے لےکن عدلےہ کے بزرجمہر تےزی سے مقدمات نمٹانے کی ذمہ دارےاں پورا کرنے کی بجائے چھٹےوں پر چلے جاتے ہےں گوےا انصاف چھٹی پر چلا جاتا ہے اور سائل عدل کے ترازو پر جھول رہے ہوتے ہےں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں